ہیئت مقتدرہ کے جب بھی میاں نواز شریف سے اختلافات بڑھے تو ان کی حکومت ختم کرنے سے پہلے ،ان کے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف کو پیشکش کی گئی کہ اپنے بھائی کی جگہ آپ مسلم لیگ میں وزارت عظمیٰ کے امیدوار بن جائیں آپ کو مکمل سپورٹ کیا جائے گا لیکن شہباز شریف کا ہر وقت ایک ہی جواب رہا کہ میں وزارت عظمیٰ کی خاطر اپنے بھائی سے بے وفائی کا'' سوچ بھی نہیں سکتا‘‘ ... آج جب میاں نواز شریف سپریم کورٹ کے پانچ رکنی بنچ کے متفقہ فیصلے سے تا حیات نا اہل ہو چکے ہیں تو وہی چھوٹا بھائی جو گزشتہ پچیس برس سے وزارتِ عظمیٰ کی مسند ٹھکراتا رہا ، خواہش کر ے کہ میرے دوست چوہدری نثار علی خان کو وزیر اعظم بنا دیا جائے تو بڑے بھائی کے بچے ان کے سامنے یہ کہتے ہوئے کھڑے ہو جائیں کہ یہ فیصلہ آپ نے نہیں ہم نے کرناہے کہ کس کو وزیر اعظم بنانا ہے؟...اور چوہدری نثار کا تو '' سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ‘‘۔چوہدری نثارکے بعد شہباز شریف پینتالیس دن کیلئے اپنے بیٹے حمزہ کے بارے میں بات کریں تو ایک بار پھر آوازیں اٹھیں کہ'' سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘ اگر ایسا کرنا ہوا تو بیگم کلثوم نواز کو وزیر اعظم بنائیں گے ،حمزہ تو ابھی بچہ ہے ...جب دوسرے بھائی کیلئے سوچ یہاں تک آ جائے تو پھر چچا کے گھر والوں کا کہنا تو بنتا ہے کہ...آپ اپنی بیٹی کے سر پر وزارتِ عظمیٰ کا تاج سجانے کی خواہش کرتے ہوئے کیوں نہیں سوچتے کہ وہ بھی حمزہ ہی کی طرح بچی ہے۔
شہباز شریف کا یہ پچھتاوا بجا ہے کہ جس کرسی کو نہ جانے کتنی بار وہ بھائی کی محبت میں ٹھکراتے چلے آئے ،اس کیلئے چھوٹے بھائی کی حیثیت سے وہ درخواست کریں تو انہیں یہ مجبوری بتائی جائے کہ'' بچے نہیں مانتے‘‘ ۔
کوئی 28 برس پرانی بات ہے گھر کے بڑے کمرے میں فرشی دستر خوان پر سب جمع تھے ،جیسے ہی کھانے کا دور ختم ہوا تو منجھلی بہو کہنے لگیں ہم نے بھی اب نیا فرنیچر، کراکری اور گھر کے تمام پردے تبدیل کرانے ہیں‘ یہ سنتے ہی بڑی بہو کہنے لگیں آپ ہماری جانب اشارہ کرتے ہوئے کہہ رہی ہیں لیکن یہ بھی تو دیکھو کہ ہم نے کوئی شوق سے تو یہ سب کچھ تبدیل نہیں کرایا میں چونکہ جلد ہی خاتون اول بننے جا رہی ہوں ، اس لئے مجھے یہ سب تبدیل کرانا پڑا کیونکہ میرے گھر میں اب ہر ملک کی بڑی بڑی شخصیات نے آنا ہے، اس لئے ہماری تو مجبوری ہے اور پھر آپ کا فرنیچر اور پردے تو ابھی ایک سال پہلے ہی نئے منگوائے گئے ہیں...قبل اس کے بڑی اور منجھلی بہو کے درمیان بات مزید بڑھتی‘ بزرگوں نے اس معاملے کو کسی اور وقت کیلئے اٹھا دیا لیکن وہ گرِہ جو ان دو خواتین اور ان کے بچوں کے مابین پہلے پڑچکی تھی اس دوپہر کے بعد مزید مضبوط ہو گئی۔ اس وقت تک چونکہ رعب دبدبے اور مرکزی سطح پر براجمان نیک سیرت والد حیات تھے۔ شکوے شکایات دبی دبی آواز میں ہی ہوتے لیکن گھریلو خواتین کے دلوں میں رنجش بڑھ چکی تھی۔
یکم اگست کونئے وزیر اعظم کے انتخاب کیلئے وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف اسلام آباد میں کہیں بھی دکھائی نہ دیئے اور نہ ہی ان کے فرزند رکن قومی اسمبلی حمزہ شہباز شریف کو پارلیمنٹ کے ایوان میں دیکھا گیا۔ ان کی غیر حاضری کو سب لوگوں نے بری طرح محسوس کیا اور میڈیا کیلئے یہ بڑی خبر تھی۔ ملک بھر میں ہونے والے سیا سی تبصروں کیلئے یہ ہاٹ موضوع بن چکا ہے اور ہر کوئی ایک دوسرے سے سوال کر رہا ہے کہ حمزہ شہباز اپنے تایا میاں نواز شریف کے امیدوار کو ووٹ دینے کیلئے اسلام آباد کیوں نہ آئے؟۔ اقتدار جب خاندان کا بن جائے تو پھر یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ایک بھائی کی اولاد کو دنیا بھر کے رتبے مل جائیں، ان کی بیگم کو بار بار خاتونِ اول کا درجہ ملتا رہے اور دوسرے بھائی کی بیگم اور اولاد ایسے مناصب محروم رہے جبکہ وزارت عظمیٰ کے حصول میں چھوٹے بھائی کا حصہ کسی طرح بھی بڑے بھائی سے کم نہ ہو اور جب سپریم کورٹ کے حکم سے آپ پانامہ لیکس کی بنا پر نا اہل قرار دے دیئے جائیں اوروزارت عظمیٰ کی کرسی آپ سے خالی کرا لی جائے اور آپ کا چھوٹا بھائی یہ در خواست کرے کہ اب ہمیں اس کرسی پر چوہدری نثار علی خان کو لے آنا چاہئے تو یہ سنتے ہی بیگم سمیت آپ کی اولاد بھی بھڑک اٹھے کہ ہر گز نہیں‘ وزارت عظمیٰ کی کرسی پر صرف ہماری مرضی سے ہی کوئی بیٹھے ۔ اس پر چھوٹے بھائی کی اولاد اوراس کے گھر والوں کی دلی اور ذہنی کیفیت کا اندازہ لگانا کوئی مشکل کام نہیں۔ یہی کچھ ا س وقت میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف کی فیملی کے درمیان دیکھنے میں آ رہا ہے...ایک بھائی کہتا ہے کہ ہم نے عدلیہ اور فوج سے لڑائی نہیں کرنی لیکن بڑا بھائی بضد ہے کہ نہیںمیں نے ان سے پھڈا کرنا ہی کرنا ہے تو چھوٹا بھائی کب تک چپ رہے گا؟میاں شہباز شریف نے رائے ونڈ میں ہونے والی ملاقات میں اپنے بھائی سے درست کہا'' آج تک میں نے اور میرے خاندان نے جو بھی تکلیف برداشت کی ، حتیٰ کہ جلا وطنی تک کاٹی ، اس میں میرا تو کوئی کردار نہیں تھا یہ سب آپ کی وجہ سے ہوتا رہا...جب ہم جانتے ہیں کہ ان سے مقابلہ اور دشمنی بنتی ہی نہیں تو پھر ہر بار ان کے سروں پر ہتھوڑے مارنے کی کیا ضرورت ہے؟
پنجاب ملک کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور انتقال اقتدار کے اس مر حلے پر میاں شہباز شریف اور ان کے بیٹے کی خاموشی اور غیر حاضری بہت سے پیغامات دے رہی ہے...یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ میاں شہباز شریف کی دوسری بیگم تہمینہ درانی کیلئے جاتی امراء رائے ونڈ کے دروازے بند ہیں‘ میاں نواز شریف اور بیگم کلثوم نواز کی تو ان سے کبھی بول چال ہی نہیں رہی اور نہ ہی انہیں کسی فیملی فنکشن میں شرکت کی اجا زت ہے... میاں شہباز کا یہ شکوہ بجا ہے کہ آپ کا بیٹا دوسری شادی کرے تو جائز‘ آپ کا سمدھی دوسری شادی کرے تو وہ بھی جائز لیکن اگر شہباز دوسری شادی کر لے تو وہ نا قابل معافی کیوں؟۔
ایسا لگ رہا ہے کہ میاں شہباز شریف کو ٹریپ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کیونکہ وزیر اعظم کا خاندان ابھی تک لاہور میں محسن لطیف کی شکست نہیں بھولا...ایک لمحے کیلئے سوچیے کہ وزارت اعلیٰ سے مستعفی ہونے کے بعد وہ لاہور کے حلقہ این اے120 سے'' کسی بھی طریقے سے ناکام کرا دیئے گئے‘‘ تو پھر کیا ہو گا...ابھی چند سال ہی تو ہوئے ہیں کس طرح ریٹرننگ افسران نے 35 حلقوں میں بازی پلٹ کر رکھ دی تھی ...میرا وعدہ ہے کہ جلد ہی پنجاب میں 35 پنکچرز کی اصل کہانی سامنے لائوں گا کیونکہ یہ قوم کی امانت ہے، ان کا دکھ ہے کہ کس نے ان کے جمہوری حقوق پر ڈاکہ ڈالا اور کس نے ان کا عوامی مینڈیٹ چھینا ؟