ایک چھوٹی سی بات البتہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی عقل سب سے بڑا اور بنیادی سرمایہ ہرگز نہیں۔ وہ کبھی تنہا نہیں ہوتی، کوئی نہ کوئی خبیث یا طیب جذبہ اس کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ بقولِ اقبالؔ
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملّا نہ حکیم
محترمہ عائشہ گلالئی کے مقدمے سے بادری ندی کا کنارہ یاد آیا۔ چالیس کنال پر پھیلا میجر عامر کا مہمان خانہ۔ کئی اخبار نویسوں کی میجر صاحب نے تربیت کی ۔ سیاسی حرکیات اور قومی اداروں کی تفہیم میں ۔ بعد ازاں ان میں سے اکثر بے نیاز ہو گئے ، ایک آدھ تو پرلے درجے کا احسان فراموش ثابت ہوا۔
موضوعِ بحث میجر صاحب نہیں ، ان کے حجرے کا ایک واقعہ ہے۔ پندرہ برس ہوتے ہیں، جب سنا تھا۔ اس سے پہلے مگر پینتالیس سال پہلے، اندرونِ لاہور کا ایک قصہ۔ صبح سویرے اندرونِ بھاٹی گیٹ کے اس کہنہ مکان کا کواڑ کسی نے کھٹکھٹایا‘ آغا اکرام علی خان جس میں تنہا بسر کیا کرتے۔ مدتوں پہلے شریکِ حیات رخصت ہو چکی تھیں ، اولاد تھی نہیں۔ آغا صاحب آئی جی آفس سے لوٹ کر آتے تو دوستوں کا انتظار کرتے۔ بہت دیر تک پھر ان کے ساتھ شطرنج کھیلا کرتے ۔ نانک شاہی اینٹوں کی حویلی پہ رات کے سائے گہرے ہوتے تو کچھ دیر کتاب کے اوراق میں گم رہتے ۔ پھر لمبی تان کر سو جاتے؛ حتیٰ کہ دفتر جانے کا وقت آ پہنچتا ۔ اس روز صبح سویرے ہی کسی نے دروازہ دھڑدھڑایا... اور اس زور سے کہ پاس پڑوس میں نیند کے ماتے بھی ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھے ۔ پریشان، آغا صاحب نے زنجیر کھولی تو پہاڑ چہاڑ سا ایک پہلوان سامنے کھڑا تھا۔ ''آغا! میں تمہیں گلی میں گھسیٹوں گا ۔ تم نے مجھے گالی کیوں دی تھی؟‘‘۔
آغا صاحب ششدر۔ ''گالی ؟‘‘ انہوں نے کہا '' اس کے باوجود کہ چالیس برس سے اندرونِ لاہور بستا ہوں ، میں نے تو عمر بھر کسی کو گالی نہیں دی اور آپ کو تو میں جانتا ہی نہیں‘‘... ''جانتے ہی نہیں‘‘ سانولے رنگ کا دراز قد پہلوان بڑبڑایا۔ ''تم نے مجھے گینڈا کیوں کہا تھا؟‘‘ ''کب اور کہاں؟‘‘ آغا صاحب نے پوچھا ''کس زمانے کی بات ہے، کہاں یہ واقعہ رونما ہوا تھا؟‘‘... ''بارہ سال پہلے فیکے نہاری والے کے ہوٹل میں‘‘۔ آغا پہ حیرتوں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے۔ ''بارہ سال پہلے؟ تو... تو بارہ برس آپ انتظار کرتے رہے؟‘‘ 1947ء میں آغا کے اجداد نے اعظم گڑھ سے پاکستان ہجرت کی تھی۔ربع صدی گزر جانے کے باوجود لاہور کا لہجہ گاہے اب بھی انہیں اجنبی لگتا۔ ''میں نے گینڈا کل ہی دیکھا ہے۔ لاہور کے چڑیا گھر میں۔ میں گوجرانوالہ کے ایک گائوں کا ہوں۔ تب گینڈا میں نے دیکھا نہیں تھا۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ اس قدر بدصورت جانور ہے۔ آغا ! تم نے ایک آدمی کو بدصورت جانور کہا۔ میں تمہیں معاف نہیں کروں گا‘‘۔
محترمہ عائشہ گلالئی کو چار برس کے بعد یاد آیا کہ ان کے لیڈر نے چار سال قبل ایک پیغام انہیں بھیجا تھا، قابلِ اعتراض۔ چار سال اس پر وہ غور کرتی رہیں؛ حتیٰ کہ مفہوم و معانی کے چراغ جل اٹھے۔ سپریم کورٹ کے حکم سے قائدِ اعظم ثانی میاں محمد نوا ز شریف کی برطرفی کے چار دن بعد۔
سرِ شام میجر عامر کے حجرے میں گپ شپ کے لیے جمع ہونے والوں میں ندی پار کے دو کسان بھی ہوا کرتے ۔ عجب جان اور غضب گل۔ باہم وہ الجھتے رہتے ۔ محفل میں ان کی نوک جھونک سے لطف اٹھایا جاتا۔ جیسا کہ ٹالسٹائی نے کہا تھا : جب کوئی محفل کسی کو پھبتیوں کے لیے چنتی ہے تو اس کے پیچھے صرف ہنسنے ہنسانے کا جذبہ ہوتا ہے۔ کبھی زیادہ سنجیدگی وہ اختیار کرتے تو سمجھا بجھا دئیے جاتے۔ چھوٹی چھوٹی پیالیوں میں قہوے کا دور چلتا رہتا۔ داستانیں کہی جاتیں اور حکایات بھی۔
مثال کے طور پر، اس گنوار کی کہانی، اپنی ماں سے جس نے کہا تھا: جس دن سے تم پیدا ہوئی ہو، میرے لیے مصیبت بنی ہو۔ مثال کے طور پر اس طبلچی کا قصہ، علاقے کے مشہور غنڈے کی موت پر ممکنہ جانشین کے بارے میں پوچھا گیا تو اس نے کہا: ابھی کچھ کہنا قبل از وقت ہے مگر میرے نام کا چرچا بھی ہے۔
اس چور کی کہانی، پہاڑ کی پرلی طرف کالا گائوں میں صبح سویرے جو پکڑا گیا۔ ایک درخت کے ساتھ اسے باندھ دیا گیا کہ فرصت پا کر پولیس سٹیشن لے جایا جائے۔ کالا گائوں کے مکین دیر سے سو کر اٹھتے ہیں ۔ دھوپ دوپہر سے ذرا پہلے نمودار ہوتی ہے کہ کرنوں کی راہ میں پہاڑ کی بلندی حائل رہتی ہے ۔ آنکھیں ملتے ہوئے، کوئی ادھر سے گزرا تو حیران ہوا کہ ایک آدمی کو باندھ کیوں رکھا ہے ۔ ہل چلاتے دہقان سے پوچھا گیا تو جوش و جذبے کے ساتھ اس نے اطلاع دی کہ چور ہے ، ابھی کچھ دیر پہلے پکڑا ہے۔
راہ گیر آگے بڑھا اور زنّاٹے کا ایک تھپڑ رسید کر دیا ۔ کچھ دیر میں ایک دوسرا، پھر تیسرا۔ اتنے میں سورج پہاڑ کی چوٹی پر چمکنے لگا۔ پھر بچے سکولوں سے لوٹ آئے اور ان کا جم غفیر آن پہنچا۔ حسبِ توفیق ان میں سے ہر ایک نے نقب زن کی ضیافت کی ۔ بھوکا پیاسا، دہقان کا قیدی زچ ہو گیا۔ ''عجیب لوگ ہو تم‘‘ اس نے کہا ''کیا زندگی میں پہلی بار کوئی چور تم نے دیکھا ہے؟‘‘
مگر حجرے کا واقعہ اور بھی سنسنی خیز ہے ، آج تک دہرایا جاتا ہے۔ ایک شام عجب جان ٹانگیں پھیلائے پڑا تھا کہ غضب گل اٹھا اور باہر کو چل دیا۔ کچھ دیر کے بعد لپکتا ہوا آیا تو اس کے ہاتھ میں لاٹھی تھی۔ لوگوں نے لاٹھی کو حیرت سے دیکھا۔ مگر اس سے پہلے کہ وہ سوال کرتے، دھڑا دھڑ اس نے عجب جان کی ٹانگوں پہ برسا دی۔ جیسے وہ پاگل ہو رہا تھا۔ اپنے شکار کو اس نے سنبھلنے کا موقع ہی نہ دیا۔ چشم زدن میں ادھ موا کر دیا ۔ خیر گزری کہ منحنی اور کمزور آدمی کے حملے سے کوئی ہڈی نہیں ٹوٹی؛ اگرچہ زخم آئے۔ خود کو تھام رکھنے کی عجب جان نے بہت کوشش کی مگر کتنی دیر۔ آخر کار اس کے صبر کا پیمانہ چھلک اٹھا۔ بچوں کی طرح بلک بلک کر وہ رویا۔ غضب گل پہ قابو پا لیا گیا۔ ممکنہ نتائج سے خوفزدہ، حجر ے کے ایک کونے میں کھڑا وہ ہانپ رہا تھا۔ عجب جان کو دلاسا دیا گیا۔ دودھ میں دیسی گھی اور ہلدی ڈال کر پلائی گئی۔ اسے بتایا گیا کہ حملہ آور کو قرار واقعی سزا دی جائے گی ۔ ڈاکٹر بلایا گیا ۔ مجروح کا معائنہ ہوا ۔ زخموں پر دوا لگائی گئی۔ ڈاکٹر نے احتیاطاً ایک آدھ ٹیکا بھی ٹھونک دیا۔ پٹیاں باندھی گئیں ، دردکش گولیاں دی گئیں... اور پھر پنچایت منعقد ہوئی۔
پوری سنجیدگی کے ساتھ، اس وقار کے ساتھ ، جو سرپنچ کو زیبا ہے ، غضب گل سے اس نے سوال کیا '' اس ذلیل حرکت کا ارتکاب تم نے کیوں کیا؟‘‘... ''یہ خبیث خانہ کعبہ کی طرف ٹانگیں پھیلائے پڑا تھا۔ آج بھی دین اسلام پہ میں غیرت نہ کرتا تو کب کرتا؟‘‘
سچ بولنے کا کیا کوئی خاص وقت ہوتا ہے؟ غیرت مندی کے اظہار کا بھی؟ صف آرا لشکروں سے یہ کون پوچھے ؟ مار پیٹ اور ایک دوسرے کی کردار کشی سے وہ فارغ ہو لیں تو شاید تب۔
ایک چھوٹی سی بات البتہ ہم جانتے ہیں کہ انسانی عقل سب سے بڑا اور بنیادی سرمایہ ہرگز نہیں۔ وہ کبھی تنہا نہیں ہوتی، کوئی نہ کوئی خبیث یا طیب جذبہ اس کے ساتھ جڑا ہوتا ہے۔ بقولِ اقبالؔ
عقل عیار ہے سو بھیس بدل لیتی ہے
عشق بیچارہ نہ زاہد ہے نہ ملّا نہ حکیم
پسِ تحریر:پختونخوا میں پی ٹی آئی کی حکومت اکھاڑ پھینکنے کی کوشش سنجیدگی سے جاری ہے۔ مصدقہ اطلاع یہ ہے کہ تاریک راتوں میں آٹھ عدد خودفروشوں سے بات ہوئی ہے۔ قیمت اور طریقِ کار پہ بحث اور مشاورت جاری ہے۔