تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     05-08-2017

دفعہ 62، 63

صادق اور امین قیادت کی خواہش یقیناً محمود ہے؟ سوال یہ کہ ایسی قیادت کیسے میسر آ سکتی ہے؟
اس کا ایک جواب ہے دفعہ 62 اور 63۔ اگر اسمبلی کی رکنیت کے لیے امیدوار کو ایک کڑے قانونی معیار پر پرکھا جائے تو ہم یہ مقصد حاصل کر سکتے ہیں۔ تجربہ مگر یہ ہے کہ یہ دفعات اس باب میں ہماری کوئی مدد نہیں کر سکیں۔ اس قانون کے ہر حامی کو یہ شکایت بھی ہے کہ اسمبلی کے ارکان نہ صادق ہیں اور نہ امین۔ سوال یہ ہے کہ اس بانجھ پن کے باوجود، اس قانون پر غیر ضروری اصرار کیوں ہے؟ جواب یہ ملتا ہے کہ قصور قانون کا نہیں، اس کے نفاذ کا ہے۔ میرا سوال یہ ہے کہ قانون اپنے نفاذ سے الگ کیا کوئی عملی افادیت رکھتا ہے؟ ایک اچھے قانون کی کیا معنویت ہے اگر اس کی نتیجہ خیزی عملاً محال ہے؟
اس قوم کے مصلحین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سماج کے بجائے، ریاست کے پیراڈائم میں سوچتے ہیں۔ ریاست چونکہ قانون سے چلتی ہے‘ اس لیے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل قانون ہے۔ وہ حکومتوں کو بھی اس پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ قانون سازی کریں۔ نفاذِ اسلام سے بھی ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ فقہ کی کتابوں میں درج قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ضرورت سے زیادہ قانون سازی (overlegislation) کا شکار ہیں۔ اس کے ساتھ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ اکثر قوانین نتیجہ خیز نہیں۔ یہی نہیں، نتیجہ اس کے برعکس نکل رہا ہے۔ قوانین سیاسی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں اور خیر کے بجائے شر کا باعث بن رہے ہیں۔ اس کی ایک مثال آئین کی زیر بحث دفعات 62 اور 63 ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟
میرا احساس ہے کہ اس کی دو وجوہات ہیں۔ یہ انسانی اجتماعیت کی درست تفہیم ہے اور نہ مذہب کی۔ پہلی بات یہ کہ مذہب یا قانون آئیڈیلز کا مجموعہ ہوتے ہیں۔ یہ ان معیارات کو بیان کرتے ہیں جہاں ایک فرد یا معاشرے کو پہنچنا چاہیے۔ معاشرہ ہمیشہ اس معیار سے کم تر سطح پر کھڑا ہوتا ہے۔ آئیڈیلز کو جب بھی معاشرے سے متعلق کیا جاتا ہے، سماجی حقائق کو پیشِ نظر رکھا جاتا ہے۔ عدالت یہ طے کرتی ہے کہ زیرِ سماعت مقدمے میں قانون کا اطلاق کس طرح کرے۔ اس اطلاق میں اس سوال کا جواب بھی تلاش کیا جاتا ہے کہ کسی منصب کے لیے اگر ایک سے زیادہ شرائط ہیں اور وہ سب پوری نہیں تو ترجیح کس کو ہو گی؟ کون سی شرط لازم ہے اور کون سی اضافی۔ ہمارے ہاں آئیڈیلز بیان کیے جاتے ہیں اور عملی حقیقتوں سے صرفِ نظر کیا جاتا ہے۔ جب معاشرتی حقائق ان سے متصادم ہوتے ہیں تو ایک واویلا شروع ہو جاتا ہے۔
دوسری وجہ جو اسی کی فرع ہے، وہ دین پر مجتہدانہ نگاہ کی کمی ہے۔ لوگ نصوص کے حوالے کو علم سمجھتے ہیں۔ یہ کام تو کوئی ناقل کر سکتا ہے۔ اگر دین محض نقل کا نام ہوتا تو اس امت کو مفسرین کی ضرورت ہوتی نہ فقہا کی۔ پھرحفاظ کافی تھے اور محدثین۔ نص کی درست تفہیم اور اس کا صحیح اطلاق، دو بنیادی ضروریات ہیں جنہوں نے تفسیر اور فقہ کے اداروں کو جنم دیا۔ پاکستان کو جب بھی اسلامی ریاست بنانے کی بات ہوئی تو فقہا کی ضرورت پیش آئی۔ یہ اس عہد کے فقہا تھے‘ جنہوں نے ایک قومی ریاست کے پیراڈائم کو قبول کرتے ہوئے، اس کی اسلامی تشکیل کی کوشش کی۔ اگر وہ صرف خلافت کے پرانے نظام پر اصرار کرتے تو اسلام ایک قومی جمہوری ریاست کے دور میں اپنا حوالہ (relevence) کھو دیتا۔
اسی دفعہ 62 اور 63 کو دیکھ لیجیے۔ نصوص کا بیان یہ ہے کہ وہ شخص کسی منصب کے لیے نااہل ہے جو خود کو اس کے لیے پیش کرے۔ اسی مضمون کی اور کئی روایات موجود ہیں۔ انہی کی روشنی میں جماعت اسلامی ابتداً اسمبلی کی امیدواری کو حرام سمجھتی تھی۔ بعد کے ادوار میں جب ان کا واسطہ ایک جدید پارلیمانی نظام سے پڑا تو انہوں نے اسے جائز قرار دیا۔ مفتی محمد شفیع صاحب نے بھی امیدواری کو جائز کہا۔ دونوں کے نزدیک یہ مثالی صورت حال نہیں ہے لیکن دورِ جدید میں اگر کوئی آدمی خود کو کسی منصب کا اہل سمجھتا ہے تو اس کے لیے امیدوار ہو سکتا۔ اب کوئی یہ نہیں کہہ سکتا کہ مفتی صاحب نے اصول کو بدل دیا۔ دین بطور آئیڈیل اپنی جگہ کھڑا ہے۔ مفتی صاحب نے ایک فقیہہ کے طور پر یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ دورِ جدید کا سماجی ماحول کیسا ہے اور اس میں دینی اصول کا اطلاق کیسے ہو گا۔ اگر اس اصول کو اسی طرح مان لیا جائے جیسے بیان ہوتا ہے تو ایک آدمی اسی دن نااہل ہو جاتا جس دن وہ خود کو اسمبلی کی رکنیت کے لیے بطور امیدوار پیش کرتا ہے۔
اسی ضمن میں ایک اہم سوال یہ ہے کہ اگر کسی ذمہ داری کے لیے قانونی معیار پر پورا اترنے والا موجود نہیں تو کیا وہ ذمہ داری ساقط ہو جائے گی یا کم تر اہل کو سونپ دی جائے گی؟ تمام قابلِ ذکر فقہا، قانون دانوں اور علما کا اتفاق ہے کہ کم اہل کو ذمہ داری دے دی جائے گی۔ اس کی ایک مثال آیت اللہ خمینی صاحب کا دیا گیا تصور ولائتِ فقیہ ہے۔امام خمینی کے مطابق امام کی غیر موجودگی میں امام کے اختیار ایک نائب امام کو سونپ دئیے جائیں گے۔ وہ دین کی تعلیمات کی روشنی میں ایک نظمِ اجتماعی قائم کرے گا۔ 
حنفی فقہ سے بھی ایک مثال دیکھیے۔ فقہ کی کتابوں میں نماز کی امامت کے لیے ایک معیار بیان ہوا۔ یہ معیار کئی شرائط کا مجموعہ ہے۔ فقہ کی کتابوں میں بحث آئیڈیل سے شروع ہوتی اور پھر حالات سے مطابقت پیدا کرتے ہوئے آگے بڑھتی ہے۔ ایک مثالی حل پیش کرنے کے بعد بتایا جاتا ہے اگر فلاں شرط میں سب برابر ہوں تو پھر کسی کو ترجیح دی جائے گی۔ یا اگر فلاں فلاں شرط پوری نہ ہو تو پھر ترجیح کیسے قائم ہو گی۔ یہ بحث دراصل اس تصور کے گرد گھومتی ہے کہ باجماعت نماز ساقط نہیں ہو گی اور امام کا انتخاب موجود صورتِ حال ہی میں کیا جائے گا۔
اسی سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ کس شرط پر مفاہمت ممکن ہے اور کس پر نہیں۔ دفعہ 62 اور 63 کی بحث کو بھی اسی زاویے سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ نظمِ اجتماعی کے باب میں بنیادی اصول یہ ہے کہ مسلمانوں کے معاملات ان کے مشورے سے چلتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ جس شرط پر مفاہمت نہیں ہو سکتی وہ مشاورت ہے۔ اسی کو جمہوریت کہتے ہیں۔ حقِ حکمرانی اسی کے لیے ثابت ہے جس پر عامتہ الناس اعتماد کریں۔ اگر لوگ کسی ایسے آ دمی پر اعتبار کرتے ہیں جو اس منصب کے لیے لازم کسی شرط کو پورا نہیں کرتا تو اس کے لیے عوامی شعور کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے‘ نہ کہ اس کے انتخاب ہی کو کالعدم قرار دے دیا جائے۔ اس طرح ہم ایک قوم کو حقیقی قیادت سے محروم کر دیتے جس کا نتیجہ سماجی اضطراب ہے۔ یوں نظمِ اجتماعی کے قیام کی اصل بنیاد ہی منہدم ہو جاتی ہے‘ جو قیامِ امن ہے۔

اس قوم کے مصلحین کا معاملہ یہ ہے کہ وہ سماج کے بجائے، ریاست کے پیراڈائم میں سوچتے ہیں۔ ریاست چونکہ قانون سے چلتی ہے‘ اس لیے وہ خیال کرتے ہیں کہ ہر مسئلے کا حل قانون ہے۔ وہ حکومتوں کو بھی اس پر مجبور کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ قانون سازی کریں۔ نفاذِ اسلام سے بھی ان کی مراد یہی ہوتی ہے کہ فقہ کی کتابوں میں درج قوانین کے نفاذ کا اعلان کر دیا جائے۔ اس سوچ کا نتیجہ یہ ہے کہ آج پاکستان ان ممالک میں شامل ہے جو ضرورت سے زیادہ قانون سازی (overlegislation) کا شکار ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved