سپریم کورٹ کے فیصلے پر عملدرآمد ہو چکا۔ سابق وزیر اعظم نواز شریف نے اپنا ایوان خالی کر دیا، دراز قد اور صاف گو شاہد خاقان عباسی کو قومی اسمبلی نے اُن کی جگہ اپنا قائد منتخب کر لیا۔ پاکستان کو ایک اور وزیر اعظم نصیب ہو گیا۔ مسلم لیگ کے کسی رکن نے امیدوار بننے کی خواہش نہیں پالی۔ آگے بڑھ کر اپنا حق نہیں جتایا۔ سب نے نواز شریف کو فیصلے کا اختیار دیا، اور انہوں نے (مشاورت کے بعد) شاہد کے سر پر ہاتھ رکھ دیا۔ وہ ایک بڑے باپ کے بڑے بیٹے ہیں۔ ان کے والد خاقان عباسی نے سعودی عرب میں بزنس کیا، دولت کے انبار لگائے، اور شاید جنرل ضیاء الحق سے ذاتی دوستی کی بنا پر 1985ء کے غیر جماعتی انتخابات میں حصہ لینے کا فیصلہ کر لیا۔ مقابلہ جنرل مرحوم کے اوپننگ بیٹسمین ظفرالحق سے تھا، ظفر ان کے نام میں شامل تھا لیکن ظفریاب عباسی ہوئے۔ جونیجو کابینہ میں پیداوار کے وزیر بنے، اوجڑی کیمپ میں دھماکہ ہوا، تو ان کی کار اِدھر سے گزر رہی تھی، ایک گولہ اس کے قریب پھٹا اور وہ اللہ کو پیارے ہو گئے۔ بیٹا ساتھ تھا، اُسے اُس کے بعد ہوش نہیں آیا۔ سترہ اٹھارہ برس کامے میں گزار کر آخری ہچکی لی۔ 28 سالہ شاہد نے‘ جو امریکہ میں انجینئرنگ کی اعلیٰ تعلیم حاصل کر چکے تھے، باپ کے نقشِ قدم پر قدم رکھ دیا، ضمنی انتخاب میں اُن کی جگہ منتخب ہو گئے۔ وہ دن جائے، آج کا آئے وہ قومی اسمبلی کے رکن چلے آ رہے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے قبضے سے پہلے وہ پی آئی اے کے چیئرمین تھے، سابق وزیر اعظم نواز شریف کے ساتھ اُنہیں بھی پھنسایا گیا، لیکن وہ ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ مسلم لیگ (ن) سے جو پیمانِ وفا باندھا تھا، ٹوٹنا تو کیا، اس میں جھول تک نہیں آنے دی۔ 2013ء کے انتخابات کے بعد پٹرولیم کے وزیر بنائے گئے، اور ایل این جی کی درآمد کا کارنامہ کر دکھایا۔ پٹرول مافیا کو ناکوں چنے چبوا دیے۔ اول اول خبر آئی کہ وہ 45 دن کے لیے وزیر اعظم ہوں گے، اس کے بعد شہباز شریف ضمنی انتخاب میں حصہ لے کر اسلام آباد جا پہنچیں گے، اور ان کی جگہ لے لیں گے... لیکن پنجاب نے اپنے شہباز کے پَر تو کیا پائوں پکڑ لئے۔ ان کے وزرا دہائی دینے لگے کہ انتخاب سے پہلے لاہور کا قلعہ خالی نہ کیجئے۔ جس کا لاہور سلامت، اُس کا اسلام آباد بھی سلامت، نظر ثانی کی درخواست منظور ہوئی، اور اب فیصلہ یہ ہے کہ تبدیلی عام انتخابات کے بعد ہو گی، اِس سے پہلے معاملات جوں کے توں رہیں گے۔
وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کی 46 رکنی کابینہ حلف اُٹھا چکی ہے۔ چودھری نثار علی خان نے وزارت قبول نہیں کی، اُن کی جگہ چودھری احسن اقبال نے لے لی ہے۔ احسن اقبال بھی استقامت، صلاحیت اور دیانت کی اپنی تاریخ رکھتے ہیں۔ اپنی والدہ (سابق) رکن قومی اسمبلی اور ممتاز مفسر آپا نثار فاطمہ کی چادر میں انہوں نے آنکھ کھولی، اور اس ہی کے سائے میں پھلے پھولے، انہی کی روایات کے امین ہیں۔ چودھری نثار علی تو بھلائے نہیں جا سکتے، لیکن چودھری احسن اقبال کو بھی نظر انداز کرنا ممکن نہیں۔ سی پیک کو آگے بڑھانے میں ان کا کردار تاریخ کا روشن باب بن چکا۔ چودھری نثار علی اپنی دُنیا کے بادشاہ ہیں۔ جو جی میں آئے کر گزرتے ہیں، انہوں نے نواز شریف صاحب کے سامنے (اقتدار کے حوالے سے) شاید اکلوتی خواہش ظاہر کی تھی کہ وزارتِ خارجہ ان کے سپرد کر دی جائے، انہوں نے داخلہ پیش کر دی کہ دہشت گردوں کی یلغار میں اس کی اہمیت کم نہیں تھی۔ چودھری صاحب نے اپنے فرائض پورے کروفر سے ادا کیے، توقع ہے کہ عام انتخابات کے بعد بی بی وزارت کو ان کا دیدار نصیب ہو جائے گا، کہاں اور کن شرائط پر، یہ بعد کی بات ہے۔
نئی کابینہ میں چند نئے چہرے بھی شامل ہیں، وزارتِ خارجہ خواجہ آصف اور وزارتِ دفاع خرم دستگیر کے حصے میں آئی ہے۔ ابھی تک معلوم نہیں ہو سکا کہ سرتاج عزیز صاحب کی بصیرت کہاں کام آئے گی؟ گزشتہ چار سال کے دوران حکومت کے مخالف حلقوں نے مستقل وزیر خارجہ کے تقرر کا مطالبہ مسلسل جاری رکھا۔ وہ یہ بات مان کر نہیں دے رہے تھے کہ وزیر خارجہ موجود ہیں، اور وہ خود وزیر اعظم ہیں۔ پھر یہ کہ سرتاج عزیز مشیر کے طور پر اس وزارت کے کرتا دھرتا تھے، اور وہ سب کچھ کر رہے تھے، جو کوئی وزیر کر سکتا ہے، خواجہ آصف کی صورت میں ان کو وزیر خارجہ فراہم کر دیا گیا ہے۔ دور و نزدیک اس کا بھی ایک واضح پیغام ہے۔ خواجہ صاحب کا نام وزیر اعظم کے طور پر لیا جا رہا تھا کہ ان کے مخالف کوڑا کرکٹ لے کر ان پر چڑھ دوڑے۔ ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان تو ہر حد سے گزر گئیں، باخبر حلقوں نے اس کی تعبیر یہی کی کہ نادیدہ عناصر کو ان کی وزارت عظمیٰ قبول نہیں ہے۔ ان کو وزیر خارجہ بنا کر (سابق) وزیر اعظم نے آزادی و خود مختاری کی حفاظت کا عزم ظاہر کر دیا ہے۔ مریم اورنگ زیب نے اطلاعات و نشریات کے محکمے میں نیا رنگ بھرا ہے۔ حکومت کی ترجمان کا حق وہ اس طرح ادا کرتی ہیں کہ مخالف گنگ ہو ہو جاتے ہیں۔ نپے تلے الفاظ، دو ٹوک انداز، کھرا لہجہ ہر کسی کو نصیب نہیں ہوتا۔َؐکابینہ میں جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے کئی پرانے اور نئے چہرے بھی دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آنے والے انتخابات کو مدنظر رکھ کر جنوبی پنجاب کی (مبینہ )محرومیوں سے نبٹنے کی بھرپور کوشش کی گئی ہے۔ اگر یہ اقدام کچھ پہلے کرلیا جاتا تو بہت بہتر ہوتا۔ چلئے دیر آید درست آید‘ سندھ کی نمائندگی البتہ زیادہ ہونی چاہیے تھی‘ وہاں مسلم لیگ ن کی اپنی نمائندگی تو محدود ہے لیکن دو ‘تین موثر اور موقر شخصیات کو معاون خصوصی یا مشیر کے طور پر لیا جا سکتا تھا۔
عزیزم دانیال عزیز البتہ ناراض ہیں کہ وہ وزیر مملکت کا درجہ پانے کو تیار نہیں ہیں۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ انہوں نے پاناما معرکے میں بڑی جان لڑائی‘ طلال چودھری نے بھی خوب سنگت نبھائی ‘ لیکن ان کی اپنی شان تھی ۔ اعدادوشمار سے مسلح ہو کر میدان میں اترتے اور کشتوں کے پشتے لگا دیتے ۔ وہ مقدمہ جیت نہیں سکے ‘ لیکن نعیم بخاری کے بقول وکیل مقدمہ نہیں ہارتا ‘ یہ تو موکل کا نصیب ہوتا ہے جو ہارتا ہے۔ دانیال کو عزیز سمجھتے ہوئے اگر نئے اور پرانے وزیراعظم ان کی طرف توجہ کریں تو کچھ غلط نہیں ہوگا۔
یہ خبر بھی دی گئی ہے کہ کابینہ کے اجلاس باقاعدہ یعنی ہفتہ وار ہوا کریں گے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قومی اسمبلی میں روزانہ (یا دوسرے تیسرے روز) حاضری کا ارادہ بھی باندھ چکے ہیں۔ ایسا ہوا تو ارکان اسمبلی اور وزرائے کرام دونوں تالیاں تو کیا بغلیں بھی بجائیں گے۔ شر میں سے یہ خیر برآمد ہو جائے گا۔
شاہد خاقان عباسی نے جس طرح بآسانی اقتدار سنبھال کر اپنی کابینہ مکمل کر لی، اُس نے ان تمام تجزیہ نگاروں اور مبصروں کا منہ بند کر دیا ہے، جو مسلم لیگ میں دھڑے بندی کی خبریں اڑا رہے تھے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف مسلم لیگ (ن) اپنے آپ کو سنبھال رہی تھی تو دوسری طرف تحریک انصاف کے معاملات مختلف نظر آ رہے تھے، اس کی ایک رکن قومی اسمبلی نے عمران خان پر گندے ایس ایم ایس بھیجنے کا الزام لگا دیا۔ اب اِس حوالے سے بحث کا بازار گرم ہے۔ قومی اسمبلی تحقیقات کے لیے پارلیمانی کمیٹی کی تشکیل پر تل گئی ہے۔ تحریک انصاف اِس معاملے کو مسلم لیگ (ن) کی سازش قرار دے رہی ہے۔ معاملہ ایسا نازک ہے کہ کچھ نہ کہنا، کہنے سے بہتر ہے۔ کسی نہ کسی طور تحقیقات تو کرانا ہی پڑے گی، پیپلز پارٹی بھی اِس معاملے میں تحریک انصاف کے خلاف صف آرا نظر آتی ہے۔ اللہ ہماری سیاست اور سیاست دانوں پر رحم کرے۔
(یہ کالم روزنامہ ''دُنیا‘‘ اور روزنامہ ''پاکستان‘‘ میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)