تحریر : ڈاکٹر لال خان تاریخ اشاعت     06-08-2017

بھارت چین تنازع

گزشتہ چند ما ہ سے جا ر ی بھا ر ت ا و ر چین کے د ر میان سر حد ی تنا ز عے کے متعلق کا ر پو یٹ میڈ یا یہ احساس د لا ر ہا ہے کہ د و نو ں ممالک جنگ کے دہانے پر کھڑ ے ہیں۔ د و نو ں جا نب سے بڑ ھک با ز یوں کا نہ ر کنے و ا لا سلسلہ جا ر ی ہے ا و ر کئی ما ہر ین کے مطا بق جنگ ناگز یر ہو چکی ہے۔ میڈ یا چا ہے بھا ر تی ہو یا چینی د و نوں جا نب سے ہی سخت تر ین ا لز ا م تر ا شیوں کا سلسلہ جا ر ی ہے۔ چینی ا خبا ر گلو بل ٹا ئمز لکھتا ہے ''ا گر بھا ر ت نے با قی چھائونیوں پر بھی ر خنہ ا ند ا ز ی کی تو ا سے چین کے ساتھ جنگ کے سنگین نتائج بھگتنا پڑیں گے‘‘۔ چین ا و ر بھا ر ت کے د ر میان یہ سر حد ی تنا ز ع پہلی مرتبہ منظر عا م پر نہیں آ یا بلکہ 1962ء میں دونوں ملکوں کے مابین ہونے والی جنگ کی بھی ایک بڑ ی و جہ یہی تھی۔ لد ا خ ا و ر اروناچل پردیش سے جڑ ی بھا ر ت ا و ر چین کی د ر میانی سر حد یں پچھلے لمبے عرصے سے د و نوں مما لک کے لئے ایک د و سر ے کے خلا ف شد ید خطر ہ سمجھی جا تی ر ہی ہیں اور دونوں اطراف سے اسی خطرے کے پیش نظر ''سخت ترین‘‘ انتظامات اور بھاری دفاعی اخراجات بھی کیے جاتے رہے ہیں۔ چین اور بھارت کے درمیان یہ سرحدی تنازع بھی آخری تجزیے میں برطانوی سامراج کی اس خطے میں کھینچی گئی انہی خونیں سامراجی لکیروںکا نتیجہ ہے، جن کے وجہ سے محنت کش عوام کی زندگیا ں اجیرن ہو چکی ہیں۔ ان جعلی سرحدوں نے ہزاروں خاندانوں کو ایک دوسرے سے الگ کر رکھا ہے۔ 
ایسی ہی ایک لکیر میکموہن لائن (McMahon Line) کے نام سے جانی جاتی ہے۔ ہنری میکموہن نے 890 کلومیٹر پر مبنی بھارت اور تبت کے درمیان میکموہن لائن کی بنیاد رکھی۔ جہاں ایک طرف ان سامراجی لکیروں نے خطے کو تقسیم کیا وہاں دوسری طرف ایک زبان اور ثقافت رکھنے والی قدیم قوموں اور تہذیبوںکو بھی بے دردی سے تقسیم کر دیا۔ سامراج نے اپنی حاکمیت کو جاری رکھنے کے لئے کشمیر سمیت کئی ایسے تنازعات کو جنم دیا‘ جن کو آج تک ختم نہیں کیا جا سکا۔ حالیہ تنازع جون میں اس وقت شروع ہوا جب چین نے ڈوکلام کے علاقے میں ایک سرحدی سڑک کی تعمیر شروع کی۔ چین یہاں سرحد تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ ڈوکلام کا علاقہ انڈیا کی شمالی مشرقی ریاست سِکم ، چین اور بھوٹان کی سرحد کے درمیان واقع ہے۔ اسی علاقے کی ملکیت کے حوالے سے چین اور بھوٹان کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں اور بھارت اپنے سامراجی عزائم کی پیش نظر اس معاملے میں بھوٹان کے موقف کا حامی ہے۔ بی بی سی کے مطابق بھارت کو اس بات کی تشویش ہے کہ اگر یہ سڑک تعمیر ہو گئی تو دفاعی حکمت عملی کے اعتبار سے بہت ہی اہم راہداری 'چکن نیک‘ تک چین کی رسائی بہت آسان ہو جائے گی۔ چکن نیک تقریباً بیس کلومیٹر طویل ایک چوڑی راہداری ہے جو بھارت کی سات شمالی مشرقی ریاستوں سے جڑتی ہے۔ جب سے ا س علاقے میں تنازع شروع ہوا ہے اس وقت سے دونوں ملکوں نے اپنی اپنی فوجیں تعینات کر دی ہیں اور دونوں ایک دوسرے کو پیچھے ہٹنے کی تنبیہ کر رہے ہیں۔ 2012ء میں بھارت اور چین کے درمیان اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ بھوٹا ن کے ساتھ سرحد کا آخری فیصلہ تینوں ممالک کے درمیان مشاورت کے بعد کیا جائے گا اور اس وقت تک صورتحال جوں کی توں برقرار رہے گی۔ بھارت کا خیال ہے کہ چین نے سڑک کی تعمیر کرنے کی کوشش کرکے اس معاہدے کی خلاف ورزی کی ہے اور بھوٹان نے اس کے لیے مدد مانگی تھی۔ بھوٹان اور انڈیا کے درمیان قریبی تعلقات بھی ہیں اور سامراجی عزائم بھی‘ جبکہ چین کا اس بارے میں کہنا ہے کہ انڈین فوج ڈوکلام پر حملہ کیا ہے جو کہ عالمی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ دونوں ممالک کی طرف سے ایک دوسرے پر سخت الزام تراشیاں جاری ہیں۔ ایک رپورٹ کے مطابق چین کی فوجوں نے سِکم سیکٹر میں بھارتی علاقے کے اندر داخل ہو کر فوج کے دو عارضی بنکر تباہ کر دیے اور نارتھو لادرے سے کیلاش ناتھ کی سالانہ مذہبی یاترا پر جانے والے بھارتی زائرین کو بھی یاترا کی اجازت نہیں دی گئی، جبکہ چینی وزارت خارجہ کی طرف سے کہا گیا کہ بھارت اپنی غلطی تسلیم کرے اور اسے درست کرے۔ انڈیا نے بھی کسی نرمی کا مظاہرہ نہیں کیا اور صورتحال کا جائزہ لینے کے لئے بری فوج کے سربراہ کو سِکم کے سرحدی علاقوں کے دورے پر بھیج دیا ہے۔ بھارت کے مطابق چین نے خطے میں تعمیری سرگرمیاں شروع کرکے مفاہمت کی خلاف ورزی کی ہے۔ بعض ماہرین کے مطابق حالیہ تنازعے کی شروعات 1962ء کی جنگ کی طرز پر ہوئی ہے۔ گزشتہ اپریل میں انڈیا کی حکومت نے تبت کے جلا وطن روحانی رہنما دلائی لامہ کو سِکم جانے کی اجازت دی تھی۔ وہ سِکم کی حکومت کی دعوت پر وہاں گئے تھے۔ چین سِکم کے بعض علاقوں پر اپنی جغرافیائی حدود کا دعویٰ کرتا ہے اور دلائی لاما کو علیحدگی پسند قرار دیتا ہے۔ بیجنگ نے دلائی لاما کے دورے پر شدید ردعمل ظاہر کیا تھا۔ اسی طرح کے چند ایک واقعات کو بھی اس جنگ کے ساتھ جوڑا جا رہا ہے اور تمام تر تجزیہ نگار بھارت کو جنگ کی تیاری کا مشورہ بھی دے رہے ہیں۔ 
تنازع کو حل کرنے کے بجائے کافی پیچیدہ کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف حالیہ تنازع بالواسطہ چین اور بھارت کے درمیان نہیں بلکہ یہ بھوٹان سے متعلق ہے اور دونوں نیوکلیئر ممالک کا کسی تیسرے ملک کے لیے جنگی کیفیت میں جانا قدرے محال ہے۔ اسی لئے کسی قسم کی جنگ کے خدشات نہایت ہی محدود ہیں کیونکہ خود چین کی اس وقت بھارت میں کافی بڑی سرمایہ کاری ہونے کے ساتھ ساتھ بھارت اس کے لئے ایک بہت بڑی منڈی بھی ہے۔ چین جس طرح خود کو اپنے معاشی اور اقتصادی عزائم کی تکمیل کے لئے پوری دنیا میں پھیلا رہا ہے اس سے بہت محدود توقعات کی جا سکتی ہیں کہ وہ کسی بڑی جنگ کی طرف بڑھے جبکہ معاشی طور پر بھی چین اب وہ چین نہیں رہا جو کسی بڑی جنگ کا بوجھ آسانی برداشت کر سکے۔ جنگ کوئی بھی ہو بہرحال اس پر بھاری اخراجات آتے ہیں۔ دوسری طرف کشمیر میں پہلے ہی بھارتی فوج کی ایک بڑی تعداد تعینات ہے جبکہ بھارت کو اس وقت جس قدر معاشی اور سیاسی بھونچال کا سامنا ہے شاید ہی ایسا پہلے کبھی رہا ہو۔ اس کی معیشت مسلسل سکڑ رہی ہے اور غربت میں مسلسل اضافے اور معاشی بدحالیوں کی وجہ سے حکومت عوام میں اپنا اعتماد کھوتی جا رہی ہے۔ ایسی کیفیت میں دونوں اطراف ہی اس بات کی بھرپور کوشش کی جائے گی کہ اندرونی مسائل کے آگے عوام کو بیرونی جنگوں کا جھانسہ دیا جائے اور جنگ کے نام پر عوام کے جذبات کو مجروح کیا جائے۔ آج دونوں ممالک ہی نہ تو کوئی حتمی جنگ کر سکتے ہیں اور نہ ہی مکمل امن قائم کر سکتے ہیں۔
بھوٹان‘ چین کے لئے سٹریٹیجک حوالوں سے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔ دوسری جانب چین کی پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری بھی چینی اقتصادی ایجنڈے کا حصہ ہے۔ آخری تجزیے میں ان دونوں ممالک کے درمیان یہ علاقائی غلبے کی ایک ایسی لڑائی ہے جس میں برباد صرف محنت کش عوام ہی کو ہونا ہے۔ اس رسوائی اور بربادی سے صرف محنت کش طبقے کی طاقت کے زور پر ہی چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔
حالیہ تنازع جون میں اس وقت شروع ہوا جب چین نے ڈوکلام کے علاقے میں ایک سرحدی سڑک کی تعمیر شروع کی۔ چین یہاں سرحد تعمیر کرنا چاہتا تھا۔ ڈوکلام کا علاقہ انڈیا کی شمالی مشرقی ریاست سِکم ، چین اور بھوٹان کی سرحد کے درمیان واقع ہے۔ اسی علاقے کی ملکیت کے حوالے سے چین اور بھوٹان کے درمیان شدید اختلافات موجود ہیں اور بھارت اپنے سامراجی عزائم کی پیش نظر اس معاملے میں بھوٹان کے موقف کا حامی ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved