میاں صاحب سے کہا تھا استعفا دیدیں
ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا : زرداری
سابق صدر اور پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے کہا ہے کہ ''میاں صاحب سے کہا تھا کہ مستعفی ہو جائیں ورنہ دما دم مست قلندر ہو گا‘‘ جس کامطلب یہی تھا کہ اگر آپ کا بستر گول ہوا تو خاکسار کی فائلیں اور رُکے ہوئے مقدمات کھل جائیں گے، ورنہ تو آپ مجھے بچا رہے تھے اور میں آپ کی خدمت میں مصروف تھا جس سے دونوں کی گاڑی چل رہی تھی لیکن آپ کی گاڑی کا تو انجن ہی علیحدہ کر دیا گیا ہے اور اس طرح میرے سمیت خدانخواستہ سب کا خانہ خراب ہونے جا رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''عید قرباں پاکستان میں منائوں گا‘‘ بشرطیکہ اس سے پہلے ہی قربانی نہ دینی پڑ گئی کہ میرے لحیم و شیم ہونے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ سب کی للچائی ہوئی نظر مجھ پر ہی رہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''آئندہ الیکشن جیتنے کے لئے ہر صوبے میں انتخابی مہم چلائوں گا‘‘ جبکہ میرے جیسے کئی اور نیک نام ساتھی بھی ہمراہ ہوں گے جن کی وجہ سے لوگ کھنچے چلے آئیں گے۔ آپ اگلے روز دبئی میں صحافیوں سے بات چیت کر رہے تھے۔
عوام کے دلوں میں آج بھی نوازشریف بستے
ہیں‘ سابق وزیراعظم ہو کر بھی : مریم اورنگزیب
وزیرمملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگزیب نے کہا ہے کہ ''وزیراعظم سابق ہو کر بھی عوام کے دلوں میں بستے ہیں‘‘ جس سے عوام کسی وقت بھی ہارٹ اٹیک میں مبتلا ہو سکتے ہیں کیونکہ ان کی خوش خوراکی کی وجہ سے عوام کا دل بھاری بھاری رہنے لگا ہے اور وہ کسی وقت بھی عارضہ قلب میں مبتلا ہو کر اللہ کو پیارے ہو سکتے ہیں جبکہ وہ شہیدوں میں شمار ہوں گے اور ان کے سارے گناہ جھڑ جائیں گے اور اسے بھی نوازشریف کا احسان سمجھنا چاہیے جس سے وہ خود بھی تاریخ میں زندہ و پائندہ ہو جائیں گے اگرچہ بخشی ہوئی رُوح تو وہ پہلے ہی سے ہیں تاہم‘ افسوس اس بات کا ہے کہ مجھے پُوری وزیر بھی نہیں بنایا گیا حالانکہ سپریم کورٹ کے سامنے عمران خان کا جتنا سیاپا میں نے کیا ہے کہ کیا بتائوں۔
دس سال کے ترقیاتی منصوبوں کو دس
ماہ میں مکمل کروں گا : شاہد خاقان عباسی
نئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا ہے کہ ''دس سال کے ترقیاتی منصوبے دس ماہ میں مکمل کروں گا‘‘ اور اس کا ایک مطلب تو سمجھ میں آ گیا ہو گا کہ میں صرف 45 دن کے لئے وزیراعظم نہیں بنا ہوں کیونکہ لگتا ہے کہ حلقہ 120 سے نواز لیگ جیت نہیں سکے گی کیونکہ پاناما فیصلے کے بعد عمران خان پہلے سے بھی زیادہ بھُوترے ہوئے ہیں اور وہ کسی کی دال نہیں گلنے دیں گے اور شہبازشریف صاحب وزارت اعلیٰ سے بھی جائیں گے‘ اوّل تو ریفرنسوں کے فیصلے کے بعد، محسوس ہوتا ہے کہ سارا نقشہ ہی تبدیل ہو جائے گا اور اس آٹے کے ساتھ میرا گھُن بھی پیسا جائے گا اور میں بھی لگا جائوں گا کیونکہ ایل این جی والی بک بک بھی شروع ہونے والی ہے چنانچہ یہ تو سر منڈاتے ہی اولے پڑنے والی بات ہو گی اور جلد ہی پتا چل جائے گا کہ ہم خود ملاقاتی ہوں گے یا ہم سے ملاقاتیں کرنے کے لئے لوگ آیا کریں گے۔
فیصلہ...؟
پاناما کیس کے فیصلے پر ماہرین قانون اور وکلاء کی طرف سے کافی لے دے ہو رہی ہے اور میڈیا پر بھی رونق لگی ہوئی ہے۔ میں خود ایک ادنیٰ سا وکیل ہوں اور فیصلے کے بارے میں میرے بھی تحفظات ہیں لیکن میں سمجھتا ہوں کہ اگر یہ فیصلہ نہ دیا جاتا تو کیس کا سارا مقصد ہی فوت ہو جاتا کیونکہ دستیاب شہادتوں پر وزیراعظم کو سزا تو دی جا سکتی تھی لیکن چونکہ عدلیہ ٹرائل کورٹ نہیں تھی‘ اس لئے اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے اور اگر وزیراعظم کو ریفرنسز پر اکتفا کر کے ہی چھوڑ دیا جاتا تو وہ اپنے بدنام زمانہ اثرورسوخ کے باعث ریفرنسوں کو بھی کبھی کامیاب نہ ہونے دیتے اور ظفر حجازی‘ ایف بی آر اور سٹیٹ بیک کی کارگزاری اس کے واضح ثبوت ہیں۔ چنانچہ نوازشریف کو بے اختیار کرنے کے لئے عدالت کو ''Assat‘‘ کا سہارا لینا پڑا جو بجائے خود کافی متنازع ہے چنانچہ اگر اسے نظریۂ ضرورت بھی سمجھ لیا جائے تو بھی کچھ ایسا غلط نہیں کیونکہ جسٹس منیر کے حوالے سے یہ بھی ہماری تاریخ کا حصہ ہے۔ نیز آئین ہی کے مطابق سپریم کورٹ جو کہہ دے وہ قانون ہے‘ اس لئے اس بحث کو زیادہ طول دینے کی ضرورت نہیں ہے۔
اور‘ اب خانہ پُری کے طور پر اس ہفتے کی تازہ غزل :
رات روشن کیے رکھتے تھے ستارے میرے
اب ترے پاس ہیں وہ سارے کے سارے میرے
تُو مرے بیچ میں بہتا ہوا پانی تھا کبھی
یاد کرتے ہیں تجھے اب بھی کنارے میرے
ہم نے تو بیچ میں اِک فاصلہ رکھا ہوا تھا
پھر یہ کیوں شہر میں چرچے ہیں تمہارے میرے
ہیں کسی کھوئی ہوئی موج کی دُھن میں دن رات
تیز دھاروں سے اُلجھتے ہوئے دھارے میرے
جو کمی ہے اِسے سب جانتے ہیں تیرے سوا
ورنہ ہونے کو تو ہوتے ہیں گزارے میرے
نفع بھی صرف اُٹھایا ہے تمہی نے لیکن
تم ہی پورے نہیں کرتے ہو خسارے میرے
یہاں پکڑا ہوا ہے میری زمیں نے مجھ کو
آسماں پر کہیں اُڑتے ہیں غبارے میرے
میں چلا آیا ہوں اپنی کسی مجبوری میں
رہ گئے ہیں کہیں پیچھے ہی سہارے میرے
آپ انجان بنے رہتے ہیں کچھ لوگ‘ ظفرؔ
اِتنے مبہم بھی نہیں ورنہ اشارے میرے
آج کا مقطع
لے چلو خطہء اوکاڑہ میں مجھ کو کہ ظفر
مرضِ غم میں وہی خاک ہے اکسیر مجھے