تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     07-08-2017

اے صاحبِ نظراں نشۂِ قوّت ہے خطرناک!

عجیب منظر ہے‘ قافلوں کے قافلے فنا کے سفر پہ ہیں۔ کوئی کسی کی سننے والا نہیں۔ اقبالؔ کی بھی نہیں‘ جس نے کہا تھا:ع 
اے صاحبِ نظراں نشۂِ قوّت ہے خطرناک!
اس آدمی پہ اللہ رحم کرے‘ اپنی غلطیوں پر غوروخوض جو ترک کر دے‘ پیغمبرانِ عظامؑ کو مشورے کی ضرورت ہوتی ہے تو سیاسی لیڈروں کو کیوں نہیں‘ آئے دن جوناقص فیصلے صادر کرتے اور ان کے نتائج بھگتا کرتے ہیں۔ ایک بار نواز شریف اقتدار سے نکالے گئے‘ دوسری اور پھر تیسری بار۔ ایک بار عمران خان الیکشن ہارے‘ دوسری اور پھر تیسری بار۔ زرداری صاحب نے اپنی پارٹی فنا کر دی۔ سندھ میں‘ اپوزیشن پارٹیاں‘ جس دن متحد ہو گئیں‘ اُلٹی گنتی اُسی روز شروع ہو جائے گی۔ الطاف حسین ہمارے سامنے مارے گئے۔ سسک سسک کر جی رہے ہیں‘ عبرت کا نشان ہو گئے۔ ماننے پرمگر آمادہ نہیں کہ پہاڑ سی غلطیوں کا انہوں نے ارتکاب کیا ہے۔
جس سر کو غرور آج ہے یاں تاجوری کا
کل اس پہ یہیں شور ہے پھر نوحہ گری کا
ایک وزیر نے کہا: فوجی آمر تاریخ کے کوڑے دان میں ڈال دئیے جاتے ہیں۔ جی ہاں‘ ڈال دئیے جاتے ہیںمگر وہی نہیں سول حکمران بھی۔
آفاق کی منزل سے گیا کون سلامت
اسباب لُٹا راہ میں یاں ہرسفری کا
کوئی برگزیدہ نہیں‘ الاّ یہ کہ اصولوں کو اوڑھنا بچھونا بنا لے۔ کسی کیلئے استثنیٰ نہیں۔ سبھی کیلئے قدرت کے وہی قوانین ہیں۔وہ سب کچھ جو خالص اور خوبصورت ہے‘ خام اور بھدّا بن جاتا ہے‘ ٹوٹ کے گر پڑتا ہے‘ پیچھے رہ جاتا ہے اور بھلا دیا جاتا ہے۔
موبائل فون آج بند کر دیا۔ ارادہ کیا کہ کم ازکم ایک دن ٹوئٹر پر کوئی پیغام دیا جائے اور نہ پڑھا جائے۔ کردار کشی کی اس غلاظت سے جس قدر ممکن ہو‘ دور رہنا چاہئے۔ پاکستانی سیاست کا حال عجب ہوا ہے‘ مچھلی بازار۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:یہاں پگڑی اچھلتی ہے‘ اسے میخانہ کہتے ہیں اور یہ کہا تھا:
میرؔ صاحب زمانہ نازک ہے
دونوں ہاتھوں سے تھامیے دستار
ایک اخبار نویس دوست نے کہا: دفتر سے طویل چھٹی کی میں نے درخواست کی ہے۔ سیاست پہ بات کرنا‘ لکھنا پڑھنا اب دشوار ہے۔بہت رشک ان پہ آیا۔ خواجہ میردردؔ کو یاد کیا۔
درد تو جو کرے ہے جی کا زیاں
فائدہ اس زیان میں کچھ ہے
ایک بار پھر میر تقی میرؔ یاد آئے۔ ان کا عہد طوائف الملوکی کا عہد تھا۔ مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر رہا تھا۔ نئی قوتیں ابھر آئی تھیں۔مگر کوئی ایسی نہ تھی جو متنوع ثقافتوں کی سرزمین پہ غالب آ سکے۔ دوسروں کے علاوہ انگریز تھا‘ جو اپنی ثمر خیز عیاری کے ساتھ‘ برصغیر میں داخل ہو گیا تھا۔ دوسروں کی کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کا جو گُر جانتا تھا۔ جس کے لوگ تربیت اور تعلیم یافتہ تھے‘ریاضت کیش اور ہنرمند تھے۔سب مقامی لوگ ایک دوسرے کی تباہی کے در پے تھے۔ مسلمان اور ہندو متصادم تھے ہی‘ مغربی ہند میں ایک اور صف بندی تھی اور بے پناہ خون ریزی کا آغاز۔
چور‘ اُچکّے‘ سکھ‘ مرہٹے‘ شاہ و گدا زر خواہاں ہیں
چین سے ہیں‘ جوکچھ نہیں رکھتے فقر ہی اک دولت ہے اب
تاریخی قوتیں جب بے لگام ہوتی ہیں تو کسی کے ہاتھ میں کچھ نہیں رہتا۔ آدمی نہیں پھر وقت فیصلہ صادر کرتا ہے۔کوئی چنگیز خان اٹھتا ہے اور تاتاریوں کی یلغار ہوتی ہے۔ کوئی تیمور یا نادر شاہ نمودار ہوتا ہے... اور قتل عام کے ایک لامتناہی سلسلے کا آغاز ہو جاتا ہے۔ 
کوئی ایک قوم اور کوئی ایک خطّہِ ارض ایسانہیں‘ ہر کہیں آدمیت ان ہنگامہ ہائے کبریٰ کا جہاں مشاہدہ نہ کر چکی ہو۔لاکھوں کروڑوں کا خون بہتا ہے اوربہتا ہی چلا جاتا ہے۔ دوبار پچھلی صدی میں عالمگیر جنگیں برپا ہوئیں۔ پندرہ بیس کروڑ آدمی قتل ہو گئے۔ مشرق وسطیٰ اور پینتیس‘ چالیس برس سے جاری افغانستان کی خانہ جنگی ہمارے سامنے ہے۔ جی ہاں تاریخ کا سبق یہی ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔
بغداد کے صوفی سے پوچھا گیا کہ عافیت کیا ہے۔کہا: عافیت گمنامی میں ہوتی ہے‘ گمنامی نہ ہو تو خاموشی میں‘ خاموشی نہ ہو تو تنہائی میں‘ تنہائی نہ ہو تو صحبتِ سعید میں۔ 
عالی جنابؐ کے چچا‘ سیدنا عباس بن عبدالمطلبؓ ‘ دوسری بار سرکارؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ آسودگی کیلئے دعا کی درخواست کی تو ارشاد ہوا: اے میرے چچا‘ جب سے آدمی اس دنیا میں آیا ہے‘ اس نے عافیت سے بہتر کوئی دعا نہیں مانگی۔ دعا آپؐ کی تعلیم کی تھی۔ اللھم انی اسئلک العفو والعافیہ فی الدنیا والآخرہ۔ اے اللہ! میں دنیا اور آخرت میں تجھ سے عفو کا اور عافیت کا سوال کرتا ہوں۔
کون سی چیز ہے جو عافیت کے امکانات برباد کر دیتی ہے؟خواہشات کی بے لگامی‘ میاں نواز شریف کو وزارت عظمیٰ چاہئے‘ عمران خان اور بلاول بھٹو کو بھی‘ کسی بھی قیمت پر۔حضرت مولانا فضل الرحمن کو‘ محمود خان اچکزئی کو‘ اور ڈاکٹر فاروق ستار کوبھی۔ کوئی اصول‘ کوئی قاعدہ‘ کوئی قرینہ؟۔ ہر کھیل کے کچھ آداب ہوتے ہیں‘ سیاست کے کیوں نہیں؟۔ چیختے‘ چنگھاڑتے اور گالیاں کیوں بکتے ہو‘ الیکشن کرا لو۔ ووٹروں کی غیر متنازع فہرستیں‘ قابل اعتماد انتخابی نظام‘ غیر جانبدار عملہ۔ رکاوٹ اس میں کیا ہے۔ کسی کا نقصان اس میں کیا ہے۔ یہ خطرہ مول لیے بغیر کہ وہ خود فنا ہو جائے‘ کوئی کسی کو تباہ نہیں کر سکتا۔ دوسروں کو جو رسوا کرتا ہے‘ بدنامی کے سوا‘ اس کے ہاتھ بھی کیا آئے گا۔
اب میڈیا بھی ایک فریق ہے۔ جن بوتل سے باہر ہے اور فی الحال باہر ہی رہے گا۔ایسے ایسے جواں مرد ہیں کہ عدالت کو گالی دیتے ہیں اور ڈٹ کر۔ ہر آدمی بہادر ہے اور اتنا بہادر کہ آسمان کوتھگلی لگاتا ہے۔ ارے بھائی‘ کشکول آپ کا سامنے دکھائی دے رہا ہے۔ دربار میں آپ تشریف فرما ہیں۔ رال آپ کی ٹپک رہی ہے۔ دستر خواں کو آپ تاک رہے ہیں‘ کب تک دلاوری دکھائیں گے۔ آخر کو تھک کے گر پڑیں گے‘ لاچار ہو جائیں گے‘ مجہول‘ بے بس اور نمونۂِ عبرت۔ شاعر نے کہا تھا:
اچھا ہے دل کے ساتھ رہے پاسبانِ عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
ہم نے مگر عقل و دانش کو مستقل طور پر ہی تیاگ دیا۔ پندرہ برس ہوتے ہیں‘ جنرل پرویز مشرف کے ایک مرحوم وزیر بولے: مولانا فضل الرحمن سے مشورہ چاہیے کہ سیاست کے نبض آشنا ہیں۔ ارے بھائی‘ عیاری کوئی اندوختہ نہیں‘ دانش ہے اور دانش اندھی نہیں ہوتی‘ اختیارو اقتدار کی بھکاری نہیں ہوتی۔
مولانا اب میاں محمد نواز شریف کے مشیر ہیں اور اسی طرح کے دوسرے۔ کپتان اور زرداری صاحب کے مشیر بھی مختلف نہیں۔ ابھی کل کی بات ہے کہ نون لیگ کا لشکر تتّر بتّر ہو گیا تھا۔ چوہدری پرویزالٰہی سے کوڑے دان والے وزیر صاحب نے مصالحت کر لی تھی۔ فرمائش فقط یہ کی تھی کہ ان کے تجویز کردہ پٹواری فلاں علاقے میں تعینات کر دئیے جائیں۔ پارٹی کے عہدے سے فارغ کر دئیے گئے تھے۔ منت و سماجت کر کے واپس آئے تھے۔ اب کی بار وبال آیا تو اسی طرز عمل کا اعادہ کیوں نہ کریں گے؟
عجیب منظر ہے‘ قافلوں کے قافلے فنا کے سفر پہ ہیں۔ کوئی کسی کی سننے والا نہیں۔ اقبالؔ کی بھی نہیں‘ جس نے کہا تھا:ع 
اے صاحبِ نظراں نشۂِ قوّت ہے خطرناک!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved