4 سال پرانی شراب ،جنک یارڈ کی استعمال شدہ بوتل ۔شربت وہی ، جس میں نئے رنگ باز عناصر شامل کیے گئے۔ڈھکن وہی پھٹا پرانا ۔ پچھلے ساڑھے 4 سال میں نواز کابینہ کی واحد کارکردگی ۔اپنے پی ایم کو ڈھول باجے بجا کر نا اہل کروانا تھی۔9 ماہ کی کابینہ کیا ڈیلور کرسکے گی سب جا نتے ہیں۔جن کے پیٹ بھر چُکے وہ ڈالروں کی اُبکائیاں اور ریال کی اُلٹیاں کریں گے۔ جو گِدھ خالی معدہ اور جنم ،جنم کی بھوک لے کرابھی لینڈ ہوئے وہ ماس نہیں ہڈیاںتک چبانے آئے ہیں۔
چلئے پہلے کابینہ کی کمپوزیشن دیکھ لیتے ہیں۔ یہ کابینہ ہے یا خاندانی بادشاہت کے پسندیدہ جگت بازوں کا کوئی دربار ۔ مغلِ اعظم کے صرف 9 رتن ہوا کرتے تھے ۔شغلِ اعظم کی بادشاہی ہے۔46 عدد وزیر۔36 رشتہ دار۔2 بھائی5بھتیجے۔6 نئی وزارتیں۔ بیٹی،نواسے نواسیاں ،پوتے پوتیاں۔اچھی حکمرانی اورمکمل جمہوریت کا بھرپور گھریلو انتظام۔ کابینہ کی تشکیل کے فوراََ بعد ایل این جی وزیرِ اعظم نے قوم کو بہتر مستقبل کا راستہ دکھادیا۔ باریک با ت ہے ذرا توجہ سے پڑھیے گا ۔ فرمایا، عمران خان کے خلاف پریس کانفرنس سے توجہ حاصل کرنے والی ایم این اے کے الزامات کی تحقیقات کے لیے قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی حاضر ہے۔ لیجیے جناب ایل این جی اور ڈیزل مل ملا کر سستے ہوئے۔ پٹرول مفت۔ روٹی، کپڑا، مساوات لوڈشیڈنگ کا مسلہ حل ہوا ۔ بے روزگاری معدوم ٹھہری۔ مہنگائی کا جن پرانی شراب کی بوتل میں نئے طریقے سے بند ہو گیا۔ ایل ۔او ۔سی کا خطرہ ختم۔ دھماکوں کے سارے ملزم پکڑے گئے۔ اغواہ برائے تاوان والے برآمد ہوئے۔ کسان خوشحالی کی لڈیاں ڈال رہے ہیں۔ محنت کش اور مزدور کے چولہے جل اٹھے ہیں۔ بیرونی قرضے واپس ہو گئے۔ اپٹما راضی ۔ بیمار ملیں دوڑنے لگیں۔ پاکستان ایشن ٹائیگر بن گیا۔ ترقی کے نئے سفر کے لیے 9 ما ہ میں ڈلیوری یقینی ہو گئی ۔ ایل این جی وزیرِ اعظم نے شغلیہ دربار کا یک نکاتی ایجنڈا قوم کے سامنے پیش کر دیا۔ فرمایا کپتان عمران خان کے نا مناسب ٹیکسٹ میسجز کی پارلیمانی تحقیق ہو گی ۔ تاجر اور کھلاڑی میں فرق صاف ظا ہر ہو گیا۔عمران خان نے کمیٹی کے ذریعے تحقیقات کا خیر مقدم کیا ۔
یہ تو تھا منظر نامہ آیئے ذرا پسِ منظر میں چلتے ہیں۔ اسی پس منظرمیں اصلی منظر نامہ پوشیدہ ہے۔ نا اہل وزیرِ اعظم اور اس کے 5 پیاروں نے پریس کانفرنس نمبر 2 کیوں لانچ کی۔ اس سوال کا جواب خاتون ایم این اے کی طرف سے با ر بار دہرایا جانے والا یہ مطالبہ ہے ۔''عمران خان کا بلیک بیری سیل فون چھین لیا جائے اور سال 2013 سے لے کر سال 2016 تک ان کے رابطے اور ایس۔ایم۔ایس چیک کیے جائیں‘‘۔ اب ذرا غور سے یہ تاریخیں دوبارہ سے پڑھ لیں ۔جن کے دوران عمران خان کے غیر مناسب مبینہ ٹیکسٹ میسجز چیک کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔یہ تاریخ ہے اکتوبر 2013 سے لے کر جولائی 2016 تک کی۔ اس عرصے میں نا اہل وزیرِ اعظم کی فر مائشی پریس کانفرنس نمبر 1 میں لگائے گئے الزامات ملاحظہ کریں۔جنرل ظہیر الاسلام اور جنرل پاشا والے الزامات، ساتھ ساتھ حسین حقانی والی بلیک بیری۔ اس تناظر میں واضح طور پر سمجھ آ جانا چاہیے کہ 9 ماہ میں ڈلیوری کی دعوے دار ایل این جی کابینہ کیا ڈلیور کرنا چاہتی ہے ۔ الزامات کے جھانسے میں بلیک بیری لے کر ان میں سے من مرضی کے ٹیکسٹ میسج برآمد کر کے دکھا دینا ۔سرکاری سرپرستی میں شروع ہونے والی اس ٹیکسٹ میسج فلاپ فلم کے ساتھ ہی ایک یونیورسٹی کے طالب علم نے سمارٹ فون کا ایک ایپ سوشل میڈیا پر وائرل کیا ہے۔ اس ویڈیو میں واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے چند سو روپے کے اس ایپ کے ذریعے کسی بھی نام سے اپنے موبائل پر کوئی بھی شخص اپنا تخلیق کردہ ایس۔ایم۔ایس '' generate‘‘ کر سکتا ہے ۔
اس گیم آف تھرون کے پاکستانی سیزن کو چلانے کا دوسرا مقصد بھی واضح ہے ۔ اصلی اپوزیشن پارٹی اور عمران خان کی توجہ پاناما مقدمات کے ٹرائل سے ہٹا دی جائے۔قوم سمجھے اصل مسلہ تو ٹیکسٹ میسج ہے ۔ کرپشن ، کک بیک ، بھاری کمیشن اور احتساب ہر گز نہیں۔مگر قدرت نے پا ناما کی طرح یہ بازی بھی اُلٹ ڈالی ۔فاٹا کی ایم این اے کا ٹیکسٹ آیا دوسری جانب سے لاہور کی عائشہ احد ملک کا نکاح نامہ آگیا۔ایک طرف فاٹا والی کی بلیک بیری ہے ۔دوسری جانب چھوٹی بچی۔بلیک بیری خاموش ہے ۔عائشہ احد ملک کی بچی اَبُو ،اَبُو پُکار رہی ہے۔سیل فون سے یہ پتہ نہیں چل سکتا کہ ایس ایم ایس کس نے کیا۔ ڈی این اے ٹیسٹ سے 100 فی صد پتہ چل جائے گا عائشہ احد ملک کی کمسن بچی کے باپ کا نام کیا ہے۔ایل این جی وزیرِاعظم ، ٹیکسٹ میسج پر پارلیمانی کمیٹی بنانے کے بعد فاٹا ایم این اے کے غیرت مندپنجابی بھائی ثابت ہو چکے ہیں۔کیا اب وہ پنجاب کی بیٹی سمعیہ چوہدری جو پنجاب کے نون لیگی ایم این اے کے کمرے میں دُلہن ایک رات کی والے لباس میں ماری گئی۔اس کی موت پر قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی بنائیں گے۔کیاقومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی عائشہ احد ملک کو بھی طلب کرے گی۔ اس کے خاوند کے خلاف نکاح نامے ، آڈیو ویڈیو فوٹو کے ثبوت جمع کرے گی۔ ٹیکسٹ میسج والی ایم این اے کے غیرت مند مقتدر پنجابی بھائی پنجاب کی ماں بیٹی کو بہو بیٹی کا درجہ دیں گے؟ٹیکسٹ میسج کے لیے پارلیمنٹ کا داروازہ کُھل گیا۔ بے آسرا بیٹی کے طاقتور بابل کے محل کا دروازہ کب تک اپنے پٹ کھولے گا۔ ایل این جی وزیرِاعظم نے پہلے 3 دنوں کے دوران ہی اپنے فیصلوں سے ہائوس آف شریف کی شہرت کو 40,50 چاند لگا کر رکھ دیے ہیں۔ یہ چاند گنتے جائیے اورداد دیتے جائیے۔مری سے واپس آتے ہوئے نااہل وزیرِاعظم کے استقبال کے لیے پوری ٹریفک بند ہوئی ۔سینکڑوں سے زیادہ دکانوں پر مشتمل بازار کے شٹرزبردستی ڈائون کرائے گئے ۔پورے دارالحکومت سے چند سو لوگ اکٹھے ہوئے اور حکومت نے دفعہ144کی دھجیاں اُڑا دیں ۔ اب ذرا آگے چلئے، سیلاب میں مبتلا پنجاب کی جی ٹی روڈ بند۔پٹواری شو،تھانیداروں کی قوت کا عظیم مظاہرہ۔میونسپل کمیٹیوں کے ملازمین کی 100فی صد حاضریاں۔واپڈا کے تمام جنریٹر،لائین مین اور پورے پنجاب کے ملازم جرنیلی سڑک پر موجود۔ڈی سی او،ڈی پی او، ای ڈی او، ڈسٹرکٹ ریونیو آفیسر،ڈسٹرکٹ فارسٹ آفیسر۔درجہ چہارم،سوئم اور محکمہ صفائی کے کارکُن۔پنجاب محکمہ انہار، وفاق کے ما تحت سیکورٹی اداروں کے سفید پوش اہلکار ۔ پنجاب پولیس کے کارِ خاص پنجاب کے خادمِ اعلیٰ اور ذیلی خادموں کی مہیا کردہ ٹرانسپورٹ ۔ برگر، نان چھولے، مشروبات میں اربوں روپے کے اخراجات۔اشتہارات ، بل بورڈ زجمع کر کے دیکھ لیں۔ کیا پاپولیرٹی ہے؟ کیا پذیرائی؟ البتہ یہ معلوم نہیں ہو سکا ۔ یہ وزیرِاعظم کی نا اہلی کا جشن تھا۔ یا سریے ، جنگلے اور پاناما کا جشنِ ترقی۔
جمہوریت کی اس ترقی میں ایک انتہائی ترقی پسند خاتون، ترقی کی آخری منزل چھونے والی ہیں۔ جس کا راستہ آئین کے آرٹیکل نمبر 100 سے کُھلتا ہے۔ سرکاری خرچ پر غنڈہ راج کی پر پوشن دیکھ کر بھارت کے شاعر نے نجانے یہ کیوں کہا تھا
عجب نہیں ہے جو تکا بھی تیر ہو جائے
نہ جانے کونسا غنڈہ وزیر ہو جائے
پرانی بوتل میں نیا جوش بتا رہا ہے جو کچھ بچ گیا وہ لُٹ کر رہے گا۔؎
''جو بچا تھا وہ لٹانے کے لیے آئے ہیں‘‘