میاں محمد نواز شریف اور ان کے حواری یہ چاہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اور پاکستانی فوج کو گھسیٹ کر ان کے بلند معیار سے نیچے لے آئیں۔ پنجاب پولیس بنا دیں‘ پنجاب کے پٹواری بنا دیں۔ ع
گلیاں ہوون سنجیاں ‘وچ مرزا یار پھرے
یہ ناچیز ان لوگوں میں شامل نہیں‘ جو سمجھتے ہیں کہ شریف خاندان کی رخصتی سے انقلاب برپا ہو جائے گا۔ بار بار‘ ہزار ڈھنگ سے یہ عرض کیا کہ معاشرے کی تعمیرنو سول اداروں کی تعمیر و تشکیل ہی سے ممکن ہے۔سامنے کی مثال یہ ہے کہ پاکستانی فوج کسی طرح بھی امریکی‘ برطانوی‘ چینی یا فرانسیسی فوج سے کم نہیں۔ وسائل کے فرق کو ملحوظ رکھا جائے تو اکثر سے بہتر ۔ ایک عام ذہن بھی ادراک کر سکتا ہے کہ اسی طرح کی سول سروس‘ اسی طرح کی پولیس اور بلدیاتی ادارے ہم بھی تعمیر کر سکتے ہیں۔کرتے کیوں نہیں؟
سیاستدان تو رہے ایک طرف‘ جب کبھی فوج نے اقتدار سنبھالا‘ تو وہ بھی کرنہ سکی۔ کسی ابہام کے بغیر‘ شک و شبہ کے بغیر کہا جا سکتا ہے کہ عسکری قیادت کا یہ کام نہیں... اور جس کا کام‘ اسی کو ساجھے۔ ساری دنیا میں اقوام کا فروغ اگر سول لیڈرشپ کے بل پر ہوا تو پاکستان میں بالکل ہی مختلف راہِ عمل کیونکر ممکن ہے۔
اقتصادی نظم و نسق اور امن و امان کو بہتر بنانے کے سوا فوج کبھی کوئی کارنامہ انجام نہ دے سکی‘ وہ بھی وقتی طور پر۔ اوّل تواس کا اقتدار عارضی ہوتا ہے۔ ثانیاً ابن الوقت سیاستدانوں پہ انحصار کرنا پڑتاہے۔ یہ سیاسی پارٹیوں کی ذمہ داری ہے۔ قائداعظمؒ کے بعد‘ ذوالفقار علی بھٹو کو لائق ترین لیڈر سمجھا جاتا ہے۔ مقبول وہ یقینا تھے اور بیدار مغز بھی۔ سول سروس کی تباہی کا آغاز مگر انہی سے ہوا۔ مارشل لائی اختیارات کے تحت‘ جنرل آغا محمد یحییٰ خان نے غالباً 303 افسر برطرف کیے تھے۔ بھٹو نے شاید گیارہ سونکال پھینکے۔ نوکر شاہی کی تطہیر ان کا مقصد نہ تھا ‘ جیسا کہ بعد کے واقعات نے ثابت کیا۔ تطہیر نہیں وہ اس پہ گرفت قائم کرنے کے آرزومند تھے‘اپنے گھر کی لونڈی بنانے کے۔ اس کے بعد سول سروس کبھی نہ سنبھل سکی۔ سرکاری افسروں کو آئینی اور قانونی تحفظ سے محروم کر دیا گیا تو کاروبار حکومت چلانے والا آہنی ڈھانچہ‘ موم کا ہو گیا۔ ذہین نوجوان اب ادھر نہیں آتے۔شریف خاندان نے اور بھی اسے برباد کردیا۔ ع
کھیل لڑکوںکا ہوا دیدۂ بینا نہ ہوا
ایک ہفتے سے پنجاب میں نوجوان ڈاکٹروں کی ہڑتال جاری ہے۔ میڈیا پر ان کی مذمت کا سلسلہ بھی اوّل دن ہی سے۔ ممکن ہے‘ بعض اعتبار سے‘ وہ اس کے مستحق بھی ہوں۔ ایک بات پہ البتہ حیرت ہے کہ ان کا موقف کم ہی سنائی دیتا ہے۔ اخبار نویسوں کا حال بھی وہی ہے‘ جو باقی معاشرے کا۔ جذبات سے مغلوب‘ سامنے کے شور شرابے کو وہ دیکھتے ہیں۔ معاملے کے فوری اور ہنگامی پہلو کو۔ مریض لاچار ہیں‘ یہ دکھ کی بات ہے۔ وہ مگر کیوں لاچار ہیں؟۔ ڈاکٹروں کی وجہ سے؟ جی نہیں‘ صوبائی حکومت کی وجہ سے‘ بیماروں اور زخمیوں کی کیا‘ مرنے والوں کی بھی جسے پروا نہیں۔ بجٹ کم ہے‘ نگرانی اس سے بھی کم‘ افسروں کے تقرر میں من مانی اس پہ مستزاد‘ وزیراعلیٰ‘ وزراء اور محکمہ صحت کے اعلیٰ افسروںکے علاوہ دوسرے بارسوخ لوگوں کی مداخلت۔ غضب خدا کا‘صحت کے سیکرٹری انیسویں گریڈ کے ہیں۔
دو برس پہلے‘ لاہور اقبال ٹائون کے ایک پارک میں دھماکہ ہوا۔ خادمِ پنجاب نے اعلان کیا کہ تمام زخمیوں کا علاج مفت ہوگا۔ زیادہ تر‘ قریب ترین جناح ہسپتال میں لائے گئے۔ ایوانِ وزیراعلیٰ کی فرمائشیں پوری کرتے‘ انہی دنوںبجٹ تمام ہو چکا تھا۔ معالج کیا کرتے؟ ...بیچارے چندہ مانگتے رہے۔
میو ہسپتال پر بہت تھوڑی سی تحقیق ایک زمانے میں کی تھی۔ مریضوں کی خوراک کیلئے خریدے گئے‘ کئی درجن بکروں کا گوشت صبح سویرے ''معززین‘‘ کے گھروں پر پہنچا دیا جاتا۔ سترہ‘ جی ہاں کرپشن کے سترہ عدد مقدمات ‘ہسپتال کے سپرنٹنڈنٹ پر قائم تھے۔ لمبی داڑھی‘ قال اللہ وقال الرسول‘ کئی کئی دن کے چلّے۔مگردفترِ عمل دنیاداروں سے بھی بدتر۔
خلاف شرع شیخ تھوکتے بھی نہیں
اندھیرے اجالے مگر چوکتے بھی نہیں
سیاستدانوں میں تو مقبول تھے ہی‘ ججوں اور اخبار نویسوں میں ان سے بھی زیادہ۔
وعظ‘ ایک چیز ہے‘ عمل دوسری۔ شریف خاندان‘ وعظ کرتا ہے یاشعبدہ بازی۔ تعلیم برباد ہے تو دانش سکول۔ ہسپتال تباہ حال ہیں تو رفوگری کی بجائے‘ ایک سو نئے ہسپتال۔ سول سروس کی کارکردگی ناقص ہے تو اصولی اعتراض کرنے والے سینئرز پر جونیئر افسر مسلّط۔ لاحول ولا قوّۃ الاّ بااللہ!
وکالت کیلئے ‘جمہوریت کے نام پر دفاع کرنے والے بھاڑے کے اخبار نویس موجود ہیں یا جہالت اور تعصب کے مارے۔ ہر حکومت ہی کو دستیاب ہوتے ہیں۔شریف خاندان سرکاری خزانہ لٹانے میں سخی ہے تو اسے اور بھی زیادہ۔
تیس چالیس برس پہلے کے سرکاری سکول کیسے تھے؟۔ جسٹس آصف کھوسہ‘ ایف آئی اے کے سابق سربراہ طارق کھوسہ اور وزیراعظم نواز شریف کے پرنسپل سیکرٹری ناصر کھوسہ‘تینوں سگے بھائیوں نے ٹاٹ سکول میں تعلیم پائی...... ڈیرہ غازیخان کے ٹاٹ سکول میں۔ چالیس پینتالیس برس سے ستر برس کی عمر کے ممتاز اخبار نویسوں کی اکثریت سرکاری سکولوں کی تعلیم یافتہ ہے۔ منو بھائی‘ عبدالقادر حسن‘ نذیر ناجی اورمجیب الرحمن شامی‘ اگلی نسل نے جن سے لکھنا سیکھا۔
بھٹو اور ضیاء الحق کے عہد میں تعلیمی اداروں کا زوال شروع ہو چکا تھا۔ شریف خاندان نے اور بھی ابترکر دیا۔ اس کام کو چھونے کے بھی وہ روادار نہیں‘ جس پر تالی نہ بجتی ہو۔ پنجاب کے جو سرکاری سکول ڈھنگ کی کسی این جی او‘ مثلاً ڈاکٹر امجد ثاقب کی اخوت کو سونپے گئے‘ ان میں تعلیم کا معیار اب بدرجہا بلند ہے۔ پختونخوا میں ڈیڑھ لاکھ بچے نجی سکولوں سے سرکاری اداروں میں منتقل ہوئے۔ میاں شہباز شریف کیوں نہ سکولوں کو بہتر بنا سکے؟ پختون خوا کی پولیس بھی سنوری ہے‘ حالانکہ ایک انڈر19ٹیم صوبے کا نظام چلاتی ہے۔
پولیس کا حال پہلے ہی ابتر تھا۔ اس کی بنیاد ہی ناقص تھی۔ شریف خاندان کے ہاتھ لگی تو بالکل ہی ردّی ہو گئی۔
پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا
پاگل ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی
1861ء کا پولیس آرڈر‘ سامراجی ترجیحات کے تحت صادر ہوا تھا‘ غیر ملکی حکمرانوں کو سازگار۔ 1989ء میں وزیراعلیٰ نواز شریف کے خلاف‘ تحریک عدم اعتماد کو ناکام بنانے اور وزارتِ عظمیٰ تک ان کی رسائی کیلئے‘ پولیس میں 25000 افراد‘ قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ارکان کی سفارش پہ بھرتی ہوئے۔ زرداری صاحب کا دورآیا تو سندھ میں انہوں نے چمڑے کے سکے چلا دئیے۔
برطانیہ ہی نہیں‘ سوڈان‘ سعودی عرب‘امارات اور ملائیشیا میں بھی پولیس افسر کا تقرر تین سال کیلئے ہوتا ہے۔ پاکستان میں یہ اوسط تین ماہ سے زیادہ نہیں‘ حالانکہ قانون وہی ہے۔برطانیہ میں سزا یاب ملزموں کی شرح 95 فیصد ہوتی ہے۔ پاکستان میں 5فیصد۔ ملک کی جیلوں میں کم از کم چالیس فیصد بے گناہ قیدی پڑے ہیں۔کبھی کسی حکمران کے ضمیر نے اسے کچوکا دیا؟۔
جانتا ہوں کہ میری خطا معاف نہ کی جائے گی مگر زرداری صاحب کی طرح‘ شریف خاندان کے اقتدارکا اب خاتمہ ہونا چاہئے۔ اس لئے نہیں کہ عمران خان بہت لائق لیڈر ہیں یا کوئی اور‘بلکہ اس لئے کہ بھلائی کی کوئی امید ان سے نہیں۔خود کو تکلیف جب پہنچتی ہے تو میاں صاحب دہائی دیتے ہیں کہ نیا عمرانی معاہدہ درکار ہے‘ سول کی بالادستی ہونی چاہئے۔ کروڑوں پاکستانی بچے سکولوں میںخوار‘ زخمی اور مریض ہسپتالوں میں فریادی ہیں۔ مسیحا کا دل ان کیلئے کیوں نہیں دکھتا؟۔ پٹواری ہیں اپنی فطرت میں‘یہ بھی پٹواری۔ تھانیدار ہیں‘ یہ بھی ۔ پتھر دل ہیں‘یہ پتھر دل ۔
سب انسان خطاکار ہیں۔ بہتر وہ ہوتے ہیں‘ اپنی خطا جو مان لیں۔ بہتر رہنما بھی وہی ہوتے ہیں۔ اندرا گاندھی اور جارج بش‘ مثالی لیڈر نہ تھے مگر عدالتوں کے سامنے سر جھکا دیا ۔میاں محمد نواز شریف اور ان کے حواری یہ چاہتے ہیں کہ عدالت عظمیٰ اور پاکستانی فوج کو گھسیٹ کر ان کے بلند معیار سے نیچے لے آئیں۔ پنجاب پولیس بنا دیں‘ پنجاب کے پٹواری بنا دیں۔
گلیاں ہوون سنجیاں‘ وچ مرزا یار پھرے