تحریر : رؤف طاہر تاریخ اشاعت     08-08-2017

آزمائشوں کا نیا سفر

نوابزادہ صاحب زندہ ہوتے تو صرف چار لفظوں میں سارا منظر بیان کر دیتے ''ہنیر ہو سی جناب! ہنیر‘‘ (طوفان ہو گا جناب! طوفان) دو دن باقی ہیں لیکن سننے والوں کو جی ٹی روڈ پر چاروں جانب نعروں کی گونج سنائی دینے لگی ہے۔ تب ہی تو خان چیخ اٹھا ہے۔ یہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا مذاق اڑانے کی کوشش ہے۔ ادھر پی ٹی آئی نے اسلام آباد ہائیکورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ می لارڈ! انہیں روکئے‘ یہ عدلیہ کی آزادی کو مجروح کرنے کا منصوبہ ہے۔ کہنے والے نے کیا خوب بات کہی‘ 28 جولائی کا فیصلہ نوازشریف کے خلاف تھا لیکن لگتا ہے‘ نااہل نوازشریف نہیں‘ عمران خان ہوا ہے۔
28 ؍ جولائی کی دوپہر وزیراعظم نوازشریف کسی بھی فیصلے کے لئے ذہنی طور پر تیار تھے۔ نااہلی کا فیصلہ آیا تو اس پر صدمہ فطری تھا۔ یہ وزارتِ عظمیٰ سے محرومی کا ذاتی صدمہ بھی تھا لیکن زیادہ کرب اس بات کا تھا کہ کہ عوام کا منتخب وزیراعظم ایک بار پھر اپنی آئینی مدت مکمل نہ کر پایا۔ لیکن وہ پہلی بار اس تجربے سے نہیں گزرے تھے۔ اگلے روز مولانا فضل الرحمن ملاقات کے لئے آئے تو یہی بات انہوں نے ایک اور انداز میں کہی‘ کوئٹہ میں خودکش حملے کے کچھ دن بعد ایک دوست ملنے آئے‘ اس حملے میں‘ وہ بھی گاڑی میں میرے ساتھ تھے۔ میں نے حال احوال پوچھا تو وہ کہنے لگے کہ اُس دھماکے میں ان کی قوتِ سماعت بری طرح متاثر ہوئی چنانچہ اس کے بعد سے وہ اونچا سننے لگے ہیں۔ مولانا نے کہا‘ لیکن دھماکہ تو میری سائڈ پر ہوا تھا‘ میرے کان تو ٹھیک ہیں۔ اس پر اُس نے کہا‘ لیکن حضرت! میرے لیے تو وہ پہلا موقع تھا۔ آپ تو پہلے بھی تین بار اس تجربے سے گزر چکے ہیں۔ مولانا کی بیان کردہ اس حکایت پر قہقہوں میں ایک روز قبل معزول ہونے والے وزیراعظم کا قہقہہ بھی شامل تھا۔ 
18 ؍ اپریل 1993ء کی شب کے پہلے پہر‘ وہ اپنے رفقا کے ساتھ پرائم منسٹر ہائوس میں موجود تھے۔ گزشتہ شب قوم سے خطاب میں وہ ایوانِ صدر میں ہونے والی سازشوں کے ذکر کے ساتھ یہ اعلان بھی کر چکے تھے کہ ''ڈکٹیشن نہیں لوں گا‘ اسمبلی نہیں توڑوں گا‘ استعفے نہیں دوں گا‘‘۔ ایسے گستاخ کی پرائم منسٹر ہائوس میں مزید موجودگی صدر غلام اسحاق خاں کے لئے (جو ''بابائے اسٹیبلشمنٹ کہلوانے میں فخر محسوس کرتے) ناقابل برداشت ہو چکی تھی۔ 58-2B کے تحت وزیراعظم کی برطرفی اور قومی اسمبلی کی تحلیل کے حکم نامے پر مشتمل صدراتی خطاب کی تیاریاں جاری تھیں۔ ادھر پرائم منسٹر ہائوس کو ایک ایک لمحے کی خبر مل رہی تھی۔ ایک ہمدم دیرینہ نے میاں صاحب سے آئندہ لائحہ عمل کاپوچھا‘ تو انہوں نے ہنستے ہوئے کہا‘ میں کسی بھی صورتِ حال کے لئے تیار ہوں۔ یہاں سے سیدھا اڈیالہ جیل جانے کے لئے بھی اور اس کے لئے میں نے اپنا اٹیچی کیس بھی تیار کر لیا ہے۔ سید مشاہد حسین نے ہم سے ایک انٹرویو میں اس شب کی کہانی بیان کی تھی ''اٹھارہ اپریل کو میں گوجرانوالہ میں تھا۔ رات کو اسلام آباد پہنچا تو فوج وفاقی دارالحکومت کی اہم تنصیبات پر پہنچ رہی تھی۔ وزیراعظم ہائوس پہنچا تو وزیراعظم کی برطرفی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا تھا۔ برطرف وزیراعظم پریس کانفرنس سے خطاب بھی کر چکے تھے‘ ان کے چہرے پر مسکراہٹ‘ اعتماد اور اطمینان تھا۔ وہ مستقبل کی جدوجہد میں کسی بھی خطرے کا سامنا کرنے کو تیار تھے۔ میں نے انہیں مبارکباد دی اور نئے سفر میں ان کی رفاقت کا اعلان کر دیا‘‘۔
برطرفی کے بعد نوازشریف عوامی رابطہ مہم پر کراچی پہنچے تو وہاں کی دلچسپ کہانی‘ جاوید ہاشمی نے ''ہاں میں باغی ہوں‘‘ میں بیان کی۔ میاں صاحب اپنے رفقاء کے ساتھ ایئرپورٹ سے نکل کر شارع فیصل پر پہنچے‘ چاروں طرف لوگ ہی لوگ تھے۔ اچانک مسلح دستے نے راستہ روک لیا اور واپس جانے یا راستہ بدلنے کے لئے کہا۔ میاں صاحب نے ڈرائیور کو آگے بڑھنے کے لئے کہا تو مسلح دستے نے پوزیشن سنبھال لی۔ اعجاز الحق کہہ رہے تھے‘ سر! میں ایک فوجی گھرانے کا فرد ہوں‘ مجھے معلوم ہے یہ گولی چلا دینے والی پوزیشن ہے۔ سب سے بُری حالت لال حویلی والے کی تھی۔ وہ بار بار واپس جانے کی درخواست کر رہا تھا۔ لیکن میاں صاحب کسی خطرے کو خاطر میں لانے پر تیار نہ تھے۔ انہوں نے میگا فون جاوید ہاشمی کے سپرد کیا اور نعرے لگاتے ہوئے آگے بڑھنے کو کہا۔ تب بندوقوں کا رُخ نیچے کی طرف ہو گیا ''پوزیشن‘‘ بدل گئی۔ نوازشریف اپنے کارواں کے ساتھ آگے بڑھتے چلے گئے۔
اور 12 ؍ اکتوبر 1999ء کو شب کے آخری پہر‘ جب جنرل محمود اپنے تین دیگر باوردی رفقا کے ساتھ کال کوٹھڑی میں معزول وزیراعظم سے ملنے آئے‘ وہ اپنے ساتھ تین کاغذات لائے تھے‘ مشرف کی برطرفی کا حکم واپس لینے والا کاغذ‘ اسمبلی توڑنے اور استعفے دینے والا کاغذ...ان کاغذات پر دستخط کرانے کے لئے جنرل نے ''کیرٹ اینڈ سٹک‘‘ کے سبھی حربے اختیار کئے‘ نوازشریف نے ان الفاظ کے ساتھ یہ کاغذات میز پر پٹخ دیئے Over my dead body ...اس کال کوٹھڑی میں مہینے بھر کی قید تنہائی‘ پھر پھر لانڈھی جیل اور اٹک قلعے کی صعوبتیں۔ وہ تو میاں صاحب کے بیرونی دوست خصوصاً سعودی عرب کے شاہ عبداللہ بروئے کار آئے اور اپنے دوست کو موت کے منہ سے نکال کر لے گئے۔ خصوصی عدالت سے عمر قید کی سزا کے خلاف مشرف حکومت‘ سزائے موت کی درخواست کے ساتھ ہائی کورٹ میں چلی گئی تھی ڈکٹیٹر اپنے ذاتی دوستوں سے کہا کرتا تھا یہ سزائے موت سے بچ گیا تو میں اسے نفسیاتی و اعصابی طور پر تباہ اور سیاسی و معاشی طور پر مفلوج کر کے رکھ دوں گا۔
آزمائش کے ان دنوں میں شاہد خاقان عباسی بھی وفاشعاری کی شاندار مثال بنے رہے۔ سرور پیلس جدہ کی ایک شام یاد آئی۔ شاہد خاقان اپنے دوست‘ اپنے لیڈر سے ملنے آئے تھے۔ کھانے کی میز پر وہ دونوں کراچی کی لانڈھی جیل اور اٹک قلعے کے عقوبت خانے کی یادیں‘ کس مزے سے بیان کر رہے تھے۔
مولانا فضل الرحمن نے سچ کہا‘ 28 جولائی سے شروع ہونے والی آزمائش میاں صاحب کے لئے نئی نہیں۔ لیکن یوں لگتا ہے یہ نوازشریف کے لئے نہیں اس کے لئے حریف کے لئے پریشانی کا مرحلہ ہے۔ وہ 30 جولائی کی شب اسلام آباد میں جشن منا چکا۔ لیکن اس شام ایک ''جشن‘‘ مری میں برپا ہوا۔ بے ساختہ اور بے محابہ جشن۔
اپنے محبوب قائد کی آمد کی اطلاع پاتے ہی اہالیانِ مری دیوانہ وار امڈ آئے تھے اور پھر ہفتے کے روز جب وہ مری سے واپسی پر بارہ کہو پہنچے‘ جذبوں کا ایک سیلاب تھا‘ جو چاروں طرف موجزن تھا۔
اور اب بدھ کی صبح انہیں جی ٹی روڈ کے راستے داتا کی نگری کے لئے روانہ ہونا ہے۔ نوابزادہ صاحب زندہ ہوتے تو ان کی بوڑھی اور جہاندیدہ آنکھیں تصور ہی تصور میں وہ سب مناظر دیکھ لیتیں‘ اور 32 نکلسن روڈ کی شام کی محفل میں ہمارے سوال پر وہ کہہ اٹھتے ''ہنیر ہو سی جناب! ہنیر‘‘...طاقت کے اس بے پناہ اور بے پایاں مظاہرے کے اپنے نتائج و عواقب ہوں گے۔
برادرم خورشید ندیم نے جی ٹی روڈ کے مسافر کی خیریت کی دعا کی ہے‘ آئیے! ہم سب پر آمین کہیں‘ ثم آمین۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved