امریکا کئی اعتبار سے انتہائی حیرت انگیز ہے۔ اِس سے انتہائی نفرت بھی کیجیے تو کچھ غلط نہیں اور بے انتہا محبت کا اظہار بھی بالکل درست ہے۔ جو اِسے دن رات گالیاں دیتے ہیں وہی اِسے آئیڈیل بھی سمجھتے ہیں۔ اِس کی پالیسیوں کو ہر وقت تنقید کا نشانہ بناتے اور دنیا بھر میں اِس کی پیدا کردہ خرابیوں کا رونا روتے جو نہیں تھکتے وہی پہلی فرصت میں اِس کو اپنا مستقل مستقر بنانے کے لیے بھی تیار رہتے ہیں! دنیا کا کون سا معاملہ ہے جو امریکا میں اپنی انتہا کو نہیں پہنچا ہوا؟ اچھائی کا بھی عروج اور بُرائی کی بھی انتہا۔ امریکا وہ بازار ہے جس میں ہر چیز ملتی ہے۔ بولوجی، تم کیا کیا خریدوگے؟
امریکی ریاست کیلی فورنیا میں لاس اینجلس سے 62 کلومیٹر کے فاصلے پر ایک متروک قصبہ ہے جسے نپٹن کہا جاتا ہے۔ نپٹن انیسویں صدی میں ''گولڈ رش‘‘ کے زمانے میں بہت مقبول تھا۔ سونے کی تلاش میں نکلے ہوئے لوگ اِس قصبے میں قیام کرتے تھے اور یہاں کے قدرتی ماحول سے خوب محظوظ ہوتے تھے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قصبہ لوگوں کے ذہن سے محو ہوتا چلا گیا۔ یہاں سے لوگوں نے نقل مکانی شروع کی۔ اور پھر یہ ہوا کہ یہاں چند ایک مکانات ہی آباد رہ گئے اور باقی پورا قصبہ ویرانے کا منظر پیش کرنے لگا۔
یہ قصبہ حال ہی میں نشیلی جڑی بوٹیوں کی تجارت کرنے والی فرم امریکن گرین انکارپوریشن نے 50 لاکھ ڈالر میں خریدا ہے۔ اس ادارے نے نپٹن کو ''اہلِ مستی‘‘ کے لیے باغِ ارم کا درجہ دینے کا اعلان کیا ہے یعنی جس کسی کو بھرپور ''ٹناری‘‘ میں رہنا ہے وہ باقی دنیا کو خیرباد کہتے ہوئے اس قصبے کا رخ کرے، یہاں سکونت اختیار کرے اور دنیا و مافیہا سے بے نیاز ہوکر دُھت پڑا رہے!
ہم نے یہ خبر جب مرزا تنقید بیگ کو سنائی تو انہوں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: ع
اِس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا
ایسا قصبہ بسانے کی ضرورت آخر کیوں پیش آئی؟ امریکا کا تو پورے کا پورا نشے کا گھر، بلکہ گڑھ واقع ہوا ہے! دنیا کا ہر نشہ امریکا میں دکھائی بھی دیتا ہے اور جھیلا بھی جاتا ہے۔ اور خود امریکی ہونا بھی اِتنا بڑا نشہ ہے کہ اِس کے سامنے بہت سے نشے بے معنی سے دکھائی دیتے ہیں!‘‘
ہم نے عرض کیا کہ امریکا میں سو طرح کے نشے کیے جاتے ہیں مگر اِس مقصد کے لیے باضابطہ کوئی قصبہ مختص کرنا، ایک منظم طریقے سے منشیات پسندوں کا پُرسکون اور پُراعتماد ٹھکانا قائم کرنا بجائے خود ''پبلک سروس‘‘ کے زُمرے میں آتا ہے!
مرزا نے ہماری بات تقریباً اَن سُنی کرتے ہوئے کہا ''ہم نے اب تک یہی دیکھا ہے کہ امریکا اول تا آخر نشہ ہی نشہ ہے۔ امریکا میں جو لوگ بستے ہیں وہ ایک ایسے نشے میں مست ہیں جس کی کوئی انتہا دِکھائی اور سُجھائی نہیں دیتی۔ امریکی ہونے کا نشہ بھی ایسا ستم ظریف ہے کہ اِس نے ایک دنیا کو تہہ و بالا کیا ہے۔ جو امریکا میں پیدا ہوئے ہیں اُن کی بات تو رہی ایک طرف، جو وہاں کچھ مدت قیام کے بعد گرین کارڈ کے حقدار ٹھہرتے ہیں اُن کے رگ و پے میں بھی ایک ایسا نشہ سما جاتا ہے کہ مِٹائے نہیں مٹتا۔ یہ قصہ امریکی سرزمین اور اس پر بسنے والوں کا ہے۔ ہم نے تو یہاں پاکستان میں ایسے لوگ بڑی تعداد میں دیکھے ہیں جو ہر وقت آنکھوں میں امریکا جانے اور وہاں آباد ہو رہنے کے سپنے سجائے پھرتے ہیں اور اِس خوش فہمی کے نشے میں چُور رہتے ہیں کہ بہت جلد وہ دن آئے گا جب امریکی ویزا حکام اُنہیں اپنے ہاں بلانے کے لیے بے تابی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دعوت نامہ بھیج دیں گے!‘‘
مرزا بول رہے تھے اور ہم سُن رہے تھے۔ سچ تو یہ ہے کہ وہ کچھ غلط بھی نہیں بول رہے تھے۔ ہم نے اُنہیں روکنا مناسب نہ جانا۔ وہ کبھی کبھار ہی تو کوئی ڈھنگ کی بات کرتے ہیں! اِس بات کو ماننے میں کوئی قباحت نہیں ہونی چاہیے کہ سات عشروں سے ہمارے لیے لفظ امریکا نشے کی بُوٹی کے مانند ہے۔ اِس ایک لفظ نے ہماری نفسی ساخت کو ایک عجیب ہی کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ معاملہ بہت حد تک ع
اُسی کو دیکھ کر جیتے ہیں جس کافر پہ دم نکلے
والا ہے۔ یعنی قدم قدم پر اُسی کی تمنّا ہے جس نے ہمیں قدم قدم پر مشکلات سے دوچار کیا ہے، بربادی کے گڑھے میں دھکیلا ہے۔ ہم نے بارہا دھوکا کھاکر بھی امریکا پرستی کا نشہ ترک نہیں کیا۔ دُنیا سمجھاتی رہ جاتی ہے کہ اپنے مفاد کو دیکھو، اپنے وجود کو مقدم رکھو مگر ہم ہیں کہ امریکا کی کاسہ لیسی کے نشے میں بدمست ہوکر ''ایک بار دیکھا ہے، دوسری بار دیکھنے کی ہوس ہے‘‘ کے مصداق مزید ستم جھیلنے پر آمادہ رہتے ہیں۔ اور ہم نے بارہا امریکی بندوق کو اپنا کاندھا فراہم کرنے سے بھی گریز نہیں کیا۔ اِسی کیفیت کو اسداللہ خاں غالبؔ نے یُوں بیان کیا ہے ؎
اسد بسمل ہے کس انداز کا، قاتل سے کہتا ہے
تو مشقِ ناز کر، خونِ دو عالم میری گردن پر!
ہم میں سے کون ہے جسے امریکا سے یہ شِکوہ نہیں کہ ؎
تم ہمارے کسی طرح نہ ہوئے
ورنہ دنیا میں کیا نہیں ہوتا!
امریکا کو explain کرنا بہت اچھی طرح آتا ہے اور وہ demo بھی بہت اچھی طرح دیتا ہے۔ جب کبھی ہم اُس کی بے وفائی اور بے اعتنائی سے بدظن و بددل ہوکر بدکنے لگتے ہیں تب وہ اِنتہائی دل نشیں انداز سے صفائی پیش کرتا ہے کہ ؎
کچھ تو مجبوریاں رہی ہوں گی
یُوں کوئی بے وفا نہیں ہوتا
اور ہم ایسے بھولے بادشاہ ہیں کہ امریکیوں کی طرف سے دی جانے والی وضاحت کی گولی نگلنے کے بعد اُس کے نشے میں دُھت ہوکر ہم مزید ستم سہنے پر آمادہ ہونے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کرتے۔ گویا ع
پھر اُسی بے وفا پہ مرتے ہیں
پھر وہی زندگی ہماری ہے
ستم سہنے کا نیا کھاتہ کھل جاتا ہے اور ہم ایک بار پھر پُرانے سُوراخ سے ڈسے جانے میں کوئی ہچکچاہٹ محسوس نہیں کرتے۔ ہاں، خاموشی کی زبان اِتنی فرمائش ضرور کرتی ہے ع
تمہی نے درد دیا ہے، تمہی دوا دینا
امریکا پرستی کا نشہ ایسا ہمہ گیر واقع ہوا ہے کہ کسی اور چیز کی پرستش کے قابل نہیں رہنے دیتا۔ کامیاب ساقی وہ ہے جو پارٹی بدلنے کے بارے میں سوچنے بھی نہ دے۔ امریکا کامیاب ساقی ہے، اپنے مستوں کو خم و ساغر میں غرقاب کرکے دم لیتا ہے! اور مے خواروں کا یہ عالم ہے کہ بالکل سامنے کی بات بھی نہیں سمجھتے اور اسداللہ خاں کے کہے پر عمل کرتے ہیں ؎
اُس فتنہ خُو کے در سے اب اُٹھتے نہیں اسدؔ
اِس میں ہمارے سَر پہ قیامت ہی کیوں نہ ہو!