پاکستانی صحافیوں اور عوام کو مبارک ہو کہ آخرکار ان کے ہردلعزیز نواز شریف ان سے گلے ملنے کے لیے نہ صرف دستیاب ہیں بلکہ بے چین بھی۔ پہلے جب وہ سڑک سے گزرتے تھے تو گھنٹوں روٹ لگتا تھا۔ ہزاروں سپاہی سڑک کے دونوں کناروں پر کھڑے کیے جاتے تھے تاکہ کوئی بندہ سڑک پر اپنے محبوب لیڈر کو نہ دیکھ لے اور اسے نظر ہی نہ لگ جائے۔ پچاس تا ساٹھ گاڑیاں وزیر اعظم کے قافلے کا حصہ ہوتی تھیں‘ اور شوں شوں کرکے گزرتی تھیں۔ عوام دنوں تک ان گاڑیوں کی شوں شاں کے رعب میں رہتے۔
اسی طرح میڈیا کے کسی اینکر کو انٹرویو تک نہ دیا گیا۔ سب کو دور رکھا گیا۔ اب عوام اور میڈیا کی لاٹری نکل آئی ہے۔ روزانہ صحافیوں اور کالم نگاروں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں۔ روزانہ آتے جاتے بہارہ کہو کے مقام پر عوام کے درمیان اپنے گاڑی چومنے کے لیے چھوڑ دی جاتی ہے۔ کسی پیر کے دربار کی طرح عوام اب میاں صاحب کی گاڑی چومتے ہیں۔
اب تک نواز شریف صاحب بے حد مصروف تھے۔ وہ ہر وقت بیرونی دورں پر رہتے تھے۔ ان چار برسوں میں ایک سو سے زائد دوروں کے باوجود ایک ٹکا بیرونی سرمایہ کاری نہیں آئی؛ البتہ اسحاق ڈار 35 ارب ڈالر مہنگا قرضہ لے آئے۔ چار برسوں میں کسی ایک صحافی کو انٹرویو تک نہ دیا اور اب اچانک محل کے دروازے سب پر کھول دیے گئے ہیں۔
ان چار برسوں میں نواز شریف اتنے مصروف تھے کہ وہ قومی اسمبلی آٹھ آٹھ ماہ نہیں جاتے تھے۔ سینٹ میں ایک سال تک نہ گئے۔ کابینہ کا اجلاس چھ چھ ماہ تک نہیں بلایا جاتا تھا۔ اب انہیں اچانک سب کی یاد ستانے لگی ہے۔ روزانہ صحافیوں سے ملاقاتیں ہو رہی ہیں اور اپنے دکھڑے روئے جا رہے ہیں۔ نواز شریف صاحب کی صحافیوں سے پنجاب ہائوس میں کی گئی گفتگو پڑھ کر اندازہ ہوا کہ پچھلے دس برسوں میں ان میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اب کہتے ہیں کہ عدالت نے انہیں بحال کر دیا تو بھی وہ وزیر اعظم نہیں بنیں گے‘ شہباز شریف پنجاب میں رہیں گے اور شاہد خاقان عباسی وزیر اعظم۔
مجھے یاد آیا‘ ارشد شریف اور میں نے لندن میں ان سے بالکل یہی گفتگو سنی تھی۔ ان دنوں جب وہ جلا وطنی کاٹ رہے تھے۔ اس وقت بھی یہی کہا تھا کہ انہیں اپنی نہیں‘ ملک کی فکر ہے۔ یہ کہ وہ دو دفعہ وزیر اعظم بنے‘ تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے کی کوئی خواہش نہیں۔ وطن لوٹتے ہی تیسری دفعہ وزیر اعظم بننے پر عائد شرط ہٹوائی اور وزیر اعظم بن گئے۔ اب کہتے ہیں: بحال ہو گیا تو وزیر اعظم نہیں بنوں گا۔ یہ سن کر لندن کے دن یاد آ گئے۔ اس وقت بھی وہ حیران ہوتے تھے کہ ان کا کیا قصور کہ ان کی حکومت برطرف کی گئی‘ اور اب دس برس بعد بھی وہ حیرانی سے پوچھ رہے ہیں کہ ان کا کیا قصور تھا؟ ان کے نزدیک پاکستانی وزیر اعظم کو دوبئی میں ملازمت کی اجازت ہونی چاہیے تھی۔
میں جتنا نواز شریف صاحب کو جانتا ہوں‘ اس کی بنا پر کہہ سکتا ہوں کہ جب اقتدار سے باہر ہوں تو ان پر کمال معصومیت طاری ہو جاتی ہے۔ وہ ایسے ایسے معصومانہ سوالات کرتے ہیں کہ کسی بھی انسان کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جائیں۔ انہیں نواز شریف سب سے زیادہ مظلوم انسان لگنے لگیں۔ جب لندن میں وہ اس طرح کی گفتگو کرتے تھے تو بھی شرکا پر رقت طاری ہو جاتی تھی‘ جیسے آج کل ان کی گفتگو سن کر ہوتی ہے۔
سوال یہ ہے یہ خود کو مظلوم صرف اسی وقت کیوں سمجھتے ہیں جب پاور سے باہر ہوتے ہیں؟ ایسے سیاستدانوں پر کون اعتبار کرے گا جو لندن میں چارٹر آف ڈیموکریسی پر دستخط کرتے ہیں کہ اب وہ سرونگ جرنیلوں سے ملاقاتیں نہیں کریں گے اور نہ ہی ایک دوسرے کے خلاف سازشیں کریں گے‘ پھر اسے بھول جاتے ہیں۔ یہ دستخط کرنے کے چند دن بعد بینظیر بھٹو نے دوبئی میں جنرل مشرف سے خفیہ ملاقات کی تھی‘ تاکہ این آر او ڈیل فائنل کی جا سکے‘ جبکہ شہباز شریف صاحب نے پاکستان واپس لوٹ کر جنرل کیانی سے خفیہ ملاقاتیں کی تھیں۔ آج کل انہیں پھر چارٹر آف ڈیموکریسی کی یاد ستا رہی ہے‘ جبکہ اسی چارٹر کا جنازہ ان سب نے اس وقت خود نکالا تھا جب پیپلز پارٹی کی حکومت کے خلاف نواز شریف اور شہباز شریف کالے کوٹ پہن کر عدالت چلے گئے تھے تاکہ مخالف جماعت کو غدار ثابت کیا جا سکے۔
ہم میں سے کون بیوقوف ہو گا‘ جو جمہوریت کی مخالفت کرے۔ ہو سکتا ہے پورا معاشرہ جمہوریت کا مخالف ہو جائے‘ پھر بھی میڈیا ہو گا جو ہمیشہ جمہوریت کے لیے کھڑا رہے گا‘ کیونکہ جمہوریت سب سے زیادہ میڈیا کو سوٹ کرتی ہے۔ آمرانہ دور میں جرنلزم کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ آواز بند ہو جاتی ہے یا پھر کالم نہیں چھپنے دیے جاتے۔ خبریں نہیں چھپ سکتیں۔ میں جانتا ہوں کہ اس دور میں کتنے بڑے بڑے سکینڈلز اس لیے روک لیے جاتے ہیں کہ حکومت ناراض نہ ہو جائے۔
لیکن سوال یہ ہے اب جو کچھ ہو رہا ہے وہ جمہوریت ہے؟ اگر جمہوریت آمریت سے بہتر نہیں ہو گی تو پھر لوگوں کو یہ یقین کیسے دلایا جا سکے گا کہ منتخب لوگ وردی پہنے لوگوں سے بہتر حکمران ہوتے ہیں۔ ہمارے دوستوں کو کچھ اندازہ ہے کہ ہمارے جیسے صحافی اور کالم نگار کیوں اتنے تلخ ہو گئے ہیں؟
کیا ہم لوگ جنرل مشرف دور میں اس لیے ان کی حکومت کے خلاف مزاحمت کرتے رہے جب یہ سب لوگ لندن اور جدہ بیٹھے تھے کہ وطن واپسی پر جمہوریت کے نام پر ایک آمریت مسلط کر دی جائے۔ جتنی لوٹ مار اس دور میں ہو رہی ہے وہ پیپلز پارٹی کی حکومت کو بھی شرما دے۔ کیا پوری ریاست کو اس لیے برباد کر دیا جائے کہ عدالت نے نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا ہے؟
آپ بتائیں! کوئی پاکستانی این ایل جی ڈیل کر سکتا ہے۔ ایک کمپنی ایک گیس ٹرمینل لگانے کی تین ارب روپے کی بولی دے لیکن اسے کہا جائے کہ نہیں تیرہ ارب کی بولی دو۔ آپ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ دس ارب کس کی جیب میں گئے ہوں گے؟ چلیں آپ نے ایک جھٹکے میں دس ارب روپے کما لیے۔ لیکن اس کو کیا کہیں گے کہ اس کمپنی کو یہ ڈیل دی جائے‘ تیرہ ارب کی ڈیل پر جسے ہر سال ایک سو ارب روپے کمانے کا موقع ملے گا۔ اس پر بھی بس نہ کی جائے بلکہ اس کمپنی کو یہ ڈیل دی جائے کہ اگر اس کا ٹرمینل استعمال نہ ہوا تو پھر روزانہ انہیں دو لاکھ بہتر ہزار ڈالرز حکومت پاکستان ادا کرے گی۔ یہ معاہدہ پندرہ سال تک چلے گا۔ اب بتائیں؟ کہاں سے لائیں گے اگلے پندرہ برسوں میں پندرہ ارب ڈالرز‘ جو اس کمپنی کو ادا ہوں گے؟ یہ سب آپ لوگوں کی جیبوں سے نکال کر ایک کمپنی لے گی اور اس کمپنی سے یہ مال اس ملک کے بڑوں کو منتقل ہوگا۔ بات کریں تو جمہوریت خطرے میں پڑ جاتی ہے۔
جمہوریت میں اگر لوٹ مار ہو رہی ہے اور آپ کے لوگ غریب سے غریب تر ہو رہے ہیں تو پھر اس کا مطلب ہے حکمران امیر ہو رہے ہیں۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ آپ حکومت پاکستان میں کریں‘ ملازمت دوبئی میں‘ اور بچوں کی جائیدادیں لندن میں نکل آئیں اور پھر معصومیت سے پوچھیں: میرا قصور کیا ہے؟
جو لوگ ہمیں سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ نواز شریف اگر وزیر اعظم نہ رہے تو خدانخواستہ ملک نہیں رہے گا‘ وہ احمقوں کی جنت میں رہتے ہیں۔ ناگزیر کوئی نہیں ہوتا۔ وہ اب دو ہفتوں سے وزیر اعظم نہیں ہیں تو کیا ملک رک گیا یا ملک میں قیامت آ گئی ہے؟
نواز شریف صاحب کا تازہ ارشاد یہ ہے کہ یوسف رضا گیلانی کا معاملہ نااہلی تک نہیں جانا چاہیے تھا۔ یہ سن کر مجھے مشہور ادیب آسکر وائلڈ کا خوبصورت فقرہ یاد آگیا: ''عمر بڑھے تو انسان سمجھدار ہوتے ہیں، جبکہ کچھ لوگ عمر بڑھنے کے ساتھ محض بوڑھے ہوتے ہیں‘‘۔