تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     09-08-2017

دینی جماعتوں کا قائدانہ کردار

پاکستان کی دینی جماعتیں قیام پاکستان سے لے کر اب تک ملک کے طول وعرض میں تبلیغ دین، اصلاح فرد، شخصیت سازی اور تدریس دین میں مصروف ہیں۔ ملک کے طول وعرض میں پائے جانے والے ہزاروں مدارس میں لاکھوں طلباء مفت دینی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ دینی مدارس نے بے روزگار افراد کی کثیر تعداد کو گدا گری اور جرائم کی طرف جانے سے روک کر اللہ کے دین کی نشرواشاعت میں مشغول کر کے انہیںـ مثالی انسان بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔ بہت سی دینی جماعتیں تبلیغ اور تدریس کے ساتھ ساتھ خدمت انسانیت کا فریضہ بھی انجام دیتی رہتی ہیں۔ بعض دینی اداروں کے ساتھ دواخانے بھی ملحق ہیں جہاں پر غریب عوام کی بڑی تعداد کے لیے علاج معالجہ کی سہولیات میسر ہیں۔ اسی طرح بعض دینی جماعتوں کے قومی سطح پر خدمت انسانیت کے وسیع اور فعال نیٹ ورک بھی کام کر رہے ہیںجن کے ذریعے وہ مفت علاج ومعالجہ کے ساتھ ساتھ کسی بھی آفت کی صورت میں عوام کی بحالی کے لیے فی الفور اپنا کردار ادا کرتی ہیں۔ اس حوالے سے بہت سی جماعتوں کا کردار نمایاں ہے۔ جب بھی ملک کسی بڑے حادثے یا آفت کی لپیٹ میں آتا ہے تو دینی جماعتیں فی الفور امدادی کیمپ لگا کر ان حادثات سے متاثرہ افراد کو لوگوں کا تعاون پہنچاتی ہیں۔ بعض دینی جماعتوں کا ملک کی سیاست میں بھی فعال کردار موجود ہے اور ان کے نمائندگان ایک عرصے سے انتخابی جدوجہد کا حصہ ہیں۔ اگرچہ ان کی تعداد محدود ہے لیکن اپنے اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کے لیے ان کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔
دینی جماعتوں نے اس ملک میں بہت سی نمایاں اور مؤثر تحریکوں کو بھی چلایا۔ جن میں تحریک نظام مصطفی ﷺ، تحریک ختم نبوت ﷺسرفہرست ہیں۔ ان تحریکوں کے ذریعے دینی جماعتوں نے ملک کی نظریاتی جہت کو تبدیل ہونے کوششوں کو اپنے اتحاد اور یکجہتی کے ذریعے ناکام بنا دیا۔ تحریک ختم نبوت ﷺتو مکمل طور پر کامیاب رہی اور ختم نبوت کا انکار کرنے والے گروہ دائرہ اسلام سے خارج ہو گئے۔ لیکن تحریک نظام مصطفی کلی طور پر اپنے اہداف کو حاصل نہ کر سکی۔ رائے عامہ میں نبی کریم ﷺکے لائے ہوئے نظام کی محبت کو تو بیدار ہو گئی لیکن عملی طور پر نظام مصطفی ﷺقائم اور دائم نہ ہو سکا اور جنرل ضیاء الحق کے برسر اقتدار آنے کے بعد یہ معاملہ معلق رہ گیا۔ ان دو بڑی تحریکوں کے بعد بھی دینی جماعتوں نے بہت سی تحریکوں کو کامیابی کے ساتھ اپنی منزل تک پہنچایا۔ جنرل پرویز مشرف کے دور میں پاسپورٹ سے مذہب کے خانے کو نکال دیا گیا۔ دینی جماعتوں نے بڑے بڑے اجتماعات کا انعقاد کر کے جنرل پرویز مشرف کوپاسپورٹ میں مذہب کے خانے کی بحالی پر مجبور کر دیا۔اسی طرح ناموس رسالتﷺ کے حوالے سے موجود قانون 295 c میں جب بھی کبھی ترمیم کرنے کی کوشش کی گئی تو دینی جماعتیں اس کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار بن گئیں اور ہر دور میں بعض لابیوں کی سازشوں کے باوجود ناموس رسالتﷺ کے حوالے سے بنایا جانے والا قانون اپنی جگہ پر قائم ودائم رہا۔ 
دو بڑے نظریاتی غیر سیاسی اتحاد بھی ایک عرصے سے ملک میں کام کر رہے ہیں۔ دفاع پاکستان کونسل کے قیام کا مقصد ملک کے نظریاتی تشخص کو بحال کرنااور کسی ہنگامی صورتحال سے نبردازما ہونے کے لیے پاک فوج کے شانہ بشانہ رائے عامہ کو ہموار کرنا ہے۔ نیٹو سپلائی کی بندش کے حوالے سے اس اتحاد نے ملک کے طول وعرض میں بہت بڑے اجتماعات کر کے رائے عامہ کو ہموار کیا اور دفاع پاکستان کے لیے عوام کو یکجا اور یکسو کیا۔ مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے کے حوالے سے بھی اس اتحاد کی نمایاں خدمت ہیں۔ اسی طرح جب بھی کبھی ہندوستان نے پاکستان کے خلاف جارحیت کا مظاہر ہ کیا تو اس اتحاد کے زیر اہتمام ہونے والے اجتماعات ، جلسے، جلوسوں ،ریلیوں اور عوامی تحریک نے لوگوں کو منظم کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ 
اسی طرح ملی یکجہتی کونسل تمام مسالک کی تنظیمات پر مشتمل ایک ایسا اتحاد ہے جس نے ملک میں فرقہ واریت کے خاتمے کے لیے نمایاںـ کردار ادا کیا۔ گو کہ لوگ عام طور پر مذہبی جماعتوں پر فرقہ واریت کا الزام لگاتے اور ان سے اس بات کا گلہ کرتے رہتے ہیں کہ انہوں نے ملک کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کیا ہے لیکن اس سلسلے میں کی جانے والی حکومتی اور غیر حکومتی کوششوں کے مقابلے میں مذہبی جماعتوں کے بنائے ہوئے اپنے اتحاد ملی یکجہتی کونسل کی کوششیں ہر اعتبار سے زیادہ منظم اور موثر رہی ہیں اور ملک بھر میں جہاں کہیں بھی فرقہ وارانہ تصادم کے امکانات پیدا ہوئے ملی یکجہتی کونسل نے اس کی روک تھام اور انسداد کے لیے نمایاں کردار ادا کیا۔ اُمت کومتحد کرنے کے لیے مقدسات اُمت کے احترام پر اتفاق کیا۔ ملی یکجہتی کونسل کے ضابطہ اخلاق میں اس بات کو طے کر لیا گیا کہ امہات المومنین، خلفائے راشدین اور اہل بیت عظام کی تکفیر کفر اور ان کی تنقیص حرام ہے اور اس پر تمام مکاتب فکر کے نمایاں علماء نے دستخط کرکے ملک میں امن وامان اور ہم آہنگی کو برقرار رکھنے کے لیے ایک مثالی دستاویز تیار کی۔ بعض دینی جماعتیں ملک کی سیاست میں بھی ایک عرصے سے فعال کردار ادا کر رہی ہیں اور ان کے نمائندگان کئی دہائیوں سے انتخابی جدوجہد کا حصہ ہیں۔اگرچہ ان کی تعداد محدود ہے لیکن اپنے اپنے علاقوں میں عوام کی خدمت کے حوالے سے ان کا کردار ہمیشہ مؤثر رہا ہے۔
دینی جماعتوں کے ماضی میں دو بڑے سیاسی اتحاد بھی بنے۔ ایک ''قومی اتحاد ۔‘‘جس میں گو سیاسی جماعتیں بھی شامل تھیں لیکن اکثریت مذہبی جماعتوں پر مشتمل تھی۔اور دوسرا اتحاد ''متحدہ مجلس عمل۔ ‘‘
پہلا اتحاد رائے عامہ کو ہموار کرنے میں بہت حد تک کامیاب رہا لیکن انتخابی نتائج کے حوالے سے اس اتحاد اور پیپلز پارٹی کے درمیان ایک ڈیڈ لاک کی کیفیت پیدا ہو گئی۔ جس کی وجہ سے ملک میں ایک بڑی تحریک چلی اور پیپلز پارٹی کے بانی سربراہ اور سابق وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑے۔ 2002 ء کے الیکشن میں بننے والے دوسرا مذہبی اتحاد متحدہ مجلس عمل نے نمایاں کامیابیاں حاصل کیں۔گو اتحاد اپنے منشور پر پوری طرح عمل پیرا نہ ہو سکا لیکن پھر بھی اس اتحاد کے زیر سایہ چلنے والی خیبر پختونخواہ کی حکومت امن وامان کی صورتحال کو بہتر بنانے میں موثر کردار ادا کرتی رہی اور خیبر پختونخوا کی مجموعی سیاسی صورتحال اس دور میں ہر اعتبار سے تسلی بخش رہی۔ ماضی میں ان اتحادوں کی کامیابی کے باوجوہ یہ ایک حقیقت ہے کہ مجموعی طور پر دینی جماعتوں کی علمی، تبلیغی اور فلاحی خدمات کے باوجود میدان سیاست میں لوگوں کی اکثریت دینی جماعتوں پر اعتماد کرنے پر آمادہ وتیار نہیں۔ اس کی ایک بہت بڑی وجہ دینی جماعتوں کے باہمی اختلافات ہیں۔ جب بھی کبھی دینی جماعتیں ایک پلیٹ فارم پر متحد ہو جاتی ہیں تو مذہبی رجحان رکھنے والی عوام کی ایک بڑی تعداد ان پر اعتماد کا مظاہرہ کرتی ہے۔ بصورت دیگر مذہبی لوگ ان کی باہمی کشمکش کی وجہ سے بدظن ہو کر سیاسی جماعتوں کے ہمراہ ہو جاتے ہیںـ۔ 
دینی جماعتیں نے قوم کی تعلیم و تربیت اور پاکستان کے نظریاتی تشخص اور سرحدات کے تحفظ کے لیے نمایاں کردار ادا کیا ہے ۔انہیں پاکستان کو سیاسی بحرانوں سے نکالنے کے لیے بھی اپنا کردار ادا کرنا چاہیے اور صادق وامین قیادت کے حوالے سے پیدا ہونے والے خلا ء کو پر کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔ سیاسی رہنماؤں کے حوالے سے ملک میں آئے دن مالیاتی بدعنوانی اور اخلاقی بدراہی کی باتیں سننے کو ملتی ہیں۔ اس کے برعکس دینی جماعتوں کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد مالیاتی اور اخلاقی اعتبار سے صاف وشفاف کردار کی حامل ہے۔ اگر دینی جماعتیں باہمی اتحاد کے ذریعے قوم کی سیاسی قیادت کا فریضہ انجام دینے کے لیے متحد ہو جائیں تو سیاسی حوالے سے پیدا ہونے والے بحرانوں سے بھی قوم کو نجات دلانے کے لیے دینی جماعتیں نمایاں کردار ادا کر سکتی ہیں۔ دینی جماعتوں کے قائدین کو تاریخ کے اس نازک موڑ پر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے قوم کی رہنمائی کے لیے باہمی اختلافات کو فراموش کرکے بڑے مقاصد کے لیے ہم قدم ہونا چاہیے۔ اگر انہوں نے ایسا کیا تو پاکستان حقیقی معنوں میں ایک اسلامی فلاحی ریاست بن سکتا ہے۔ بصورت دیگر پاکستان اس وقت جن بحرانوں کا شکار ہو چکا ہے اس میں جہاں بہت سے عناصر خاموش تماشائی کا کردار ادا کررہے ہیں وہیں دینی جماعتیں اور ان کے قائدین بھی ان خاموش تماشائیوں میں شامل ہو جائیں گے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved