اس وطن پر قابض جمہوری آمروں نے ایک ایک کر کے دنیا کے ہر اس ملک کو جو کبھی پاکستان کے دکھ درد میں بڑھ چڑھ کر شریک ہوا کرتا تھا بد ظن کرنا شروع کر دیا ہے تو کہیں یہ کسی طویل منصوبے کا حصہ تو نہیں؟ وہ ممالک جو اقوام عالم کے کسی بھی فورم میں کسی بھی ووٹنگ کے موقع پر پاکستان کے کندھے سے کندھا ملائے کھڑے رہتے تھے غیر محسوس طریقے سے اس طرح ہم سے دور ہٹنا شروع ہو گئے ہیں کہ اس کی خبر ہی نہیں ہو نے دی جا رہی اور پتہ اس وقت چلتا ہے جب پانی سر سے اونچا ہو کر چلنے لگتا ہے۔۔۔اگر پاکستانیوں کو یہ معلوم ہو جائے کہ ہماری وحدت اور عظمت کا سب سے بڑا دشمن بھارت سری لنکا جیسے بہترین اور قدم قدم پر ساتھ دینے والے ہمارے دوست کو چپکے سے اس طرح چھین کر لے جا رہا ہے کہ سارک ممالک میں ہمارے دوست اب نہ ہونے کے برا بر رہ گئے ہیں۔۔۔نریندر مودی نے ایسے ہی سینہ تان کر نہیں کہا تھا کہ میں پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کر کے رکھ دوں گااس کے کہنے کا مقصد یہی تھا کہ مودی اور سجن جندال ذاتی دوستی کی آڑ میں باہم اکٹھے ہو کر پاکستان کو اقوام عالم میں تنہا کر دینگے شائد اسی لئے کہا جاتا ہے کہ'' ہوئے تم دوست جس کے دشمن اس کا آسمان کیوں ہو‘‘۔
چین کی حکومت نے بہت کوشش کی کہ پاکستان سری لنکا سے اپنی پرانی دوستی اور باہمی تعاون کو استعمال کرتے ہوئے سربراہی سطح پر رابطے کرتے ہوئے تعاون کی پیش کش کرے جس کیلئے چین ہر طرح کی مدد اور تعاون کیلئے تیار تھا۔ لیکن نہ تو ہمارے وزیر اعظم اور نہ ہی وزیر خارجہ نے اس پر توجہ دینے کی رتی بھر کوشش کی۔ سری لنکا کی موجو دہ سیا سی حکومت کو اپنی اس مدت اقتدار کو سری لنکن عوام کے مستقبل سے کھیلنے کیلئے استعمال نہیں کرناچاہئے بھارت جیسا ملک جس نے دو دہائیوں سے بھی زائد عرصہ تک سری لنکا میں دہشت گردی کا با زار گرم کرائے رکھا اس سے کسی بھلائی کی امید کرنا کم عقلی کے سوا اور کچھ نہیں اور عوام کو دیکھنا ہو گا کہ اپنے ہر پراجیکٹ کیلئے بھارت اپنے سابق فوجیوں کو کن مقاصد کیلئے ساتھ لا رہا ہے ا س کیلئے انہیں افغانستان کی مثال کو سامنے رکھنا ہو گا ۔۔۔شائد یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی لاپروائی کو دیکھتے ہوئے چین نے بھارت کے اثرات کو محدود کرنے کیلئے سری لنکن عوام کیلئے عوامی مفاد کے بہت سے منصوبوں کی پیشکش کر دی ہے جس پر سنجیدگی سے کام جاری ہے۔
بھارت کی مودی سرکار سری لنکا میں کولمبو کے نزدیک وٹالہ کے مقام پر 300MW پاور پلانٹ اور Kerawalopitiya میں LNG پاور پلانٹ دس ایکڑ رقبے پر لگانے کی تیاریاں کر رہی ہیں جس کیلئے جاپان کا فنی تعاون بھی حاصل کیا جا رہا ہے اور اس پر کام کرنے کیلئے بھارت سے سکیورٹی کے نام پر سابق فوجیوں کے علا وہ اس کے فنی ماہرین سمیت کم درجے کے ٹیکنیکل افرادسری لنکا پہنچ رہے ہیں۔ایل این جی کیلئے بھارتی حکومت جاپان کے تعاون سے250 ملین ڈالر کی لاگت سے امپورٹ ٹرمینل تعمیر کر ے گی اور یہ سب پراجیکٹ دو سے تین برس کی مدت میں مکمل کر لئے جائیں گے۔
بھارت کی مودی سرکار 46 ملین ڈالر کی لاگت سے ضلع انو رادھا پور سری لنکا کی عوام کو بطور دوستی تحفہ میں200 گھروں کی تعمیر ایک منصوبے پر کام کرنے جا رہی ہے اور یہاں بھی بھارت نے جس معاہدے پر سری لنکا سے دستخط کئے ہیں اس میں اس پراجیکٹ جس کا نام اس نے باہمی رضامندی سے دیاہے اور اس میں بھی پراجیکٹ کی تکمیل کیلئے بھارتی انجینئر اور فنی ماہرین سری لنکا بھیجے جائیں گے تاکہ دونوں ملکوں کی عوام میں باہمی تعلقات اور دوستی کو فروغ مل سکے۔
ابھی گزشتہ ماہ جولائی میں''میڈیسن اور ہومیو پیتھی‘‘ کے میدان میں روائتی اور جدید تحقیق اور تعاون کیلئے سری لنکا کی کیبنٹ نے ایک منصوبے کی منظوری دیتے ہوئے بھارت سے ایکMOU پر دستخط کئے ہیں جس کے تحت بھارت کی وزارت AYush اور سری لنکا کی صحت، بہتر غذائی ضررویات اور جڑی بوٹیوں کے استعمال کی وزارت ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے عوام کی صحت و تندرستی کے نئے منصوبوں پر کام کرے گی۔ اور اس سلسلے میں سری لنکا اور بھارت کے طب کے شعبے سے تعلق رکھنے والے اداروں میں تعاون بڑھایا جائے گا تاکہ وہ ایک دوسرے کے تجربات سے استفادہ کر سکے۔
سری لنکن ریلوے کی ترقی اور ترویج کیلئے بھارت نے کولمبو حکومت کو318 ملین ڈالر مدد دینے کی پیش کش کی تھی جسے سری لنکا نے بخوشی قبول کرلیا ہے ۔سری لنکا کی جانب سے اس پیشکش کو قبول کرنے سے بھارت جزیروں پر مشتمل اس ملک میں ریلوے کے نئے روٹس اور پہلے سے مو جود ریلوے کو بہترین اور جدید طرز پر استوار کرے گا اور نہ جانے کس منصوبے پر عمل کرنے جا رہا ہے کہ اس منصوبے میں بھی بھارت اپنے پچاس فیصد سکیورٹی اور فنی عملے کو بلانے کا مجاز ہو گا۔ اس سلسلے میں دو ماہ پیشتر 6 جون کو کولمبو میں سری لنکا کی وزارت خزانہ اور بھارت کے امپورٹ اینڈ ایکسپورٹ بینک کے مینیجنگ ڈائریکٹر ڈیوڈ راسقن کے درمیان باہمی معاہدے پر دستخط ہوئے۔جس کے تحت سری لنکن ریلوے کیلئے جدید سگنل سسٹم، تیز رفتار اور محفوظ سفر کیلئے آرام دہ بوگیاں اور ریلوے پٹڑیوں کی تیاری اور پہلے سے موجود ریلوے لائنوں کی مرمت اور بہتری شامل ہے۔
کسی بھی ملک کی سیا سی حکومت اور اس کے عہدیداروں سمیت بیرونی ممالک میں تعینات سفارتی ایل کاروں کا فرض اولین بنتا ہے کہ وہ اپنے ملک کے مفا دات اور دونوں ملکوں کے درمیان عوامی سطح پر باہمی تعاون کو اپنا فرض اولین سمجھے لیکن بد قسمتی سے گزشتہ دس برسوں سے سفارت کاری کے نام پرایسے نااہل اور نالائق قسم کے لوگوں کو تعینات کیا جا رہا ہے جن کی وفا داری پاکستان سے ثانوی اور اور حکومت پر آمرانہ طریقے سے قابض ٹولے کے ساتھ اولین ہوتی ہے چار برس تک ہمارے سابق وزیر اعظم ہی وزیر خارجہ کی ذمہ داریاں نبھاتے رہے ہیں اور اس کا نتیجہ اس طرح سب کے سامنے ہے کہ خلیجی ممالک جو ہمیشہ ہمارا دم بھرتے تھے آہستہ آہستہ بہت دور ہوتے جا رہے ہیں ۔ بھارت سری لنکا میں اپنے قدم بڑھاتا رہا اور ہمیںاس کی خبر ہی نہ ہونے دی۔
دور نہ جائیں بھارت میں تعینات پاکستانی ہائی کمیشن عبد البا سط کی کار کردگی گزشتہ دس سالوں سے کسی سے بھی ڈھکی چھپی ہوئی نہیں ہے۔ پاکستان میں وزارت خارجہ کے ترجمان کی حیثیت سے ان کے دلائل اس قدر مدلل اور پر کشش ہوتے تھے کہ دیکھنے اور سننے والوں کے دلوں میں بیٹھ جاتے تھے لیکن ان کی وطن سے بے لوث خدمت اور اپنے فرائض سے محبت کا نتیجہ یہ نکلا کہ ان سے بہت ہی جونیئر لیکن طارق فاطمی کی وفادار کو سیکرٹری خارجہ کے عہدے پر تعینات کر دیا گیا جس پر پاکستان کی وزارت خارجہ کے انمول ہیرے نے اس نا انصافی اور تذلیل کو برداشت نہ کرتے ہوئے وقت سے پہلے ہی ریٹائر منٹ لینے کیلئے در خواست دے دی ہے۔ یہ سوچئے کہ عبد الباسط بھارت جیسے حساس ملک میں اپنی بہترین خدمات انجام دے رہے تھے جس کی کشمیر ی حریت پسندوں کی قیا دت بھی معترف تھی لیکن سنا ہے کہ اجیت ڈوول کو یہ ''پاکستانی شخص‘‘ ایک آنکھ بھی نہیں بھاتا تھا اور پھر نہ جانے ایسا کیا ہوا کہ ''کسی کی شکایت پر‘‘ اس وطن پرست کو ملکی مفادات سے محبت کرنے کی سزا دے دی گئی۔