کسی کو اندازہ نہیں تھا کہ ایک معمولی مذاق یہ صورت اختیار کر جائے گا۔ ہوا یہ کہ قصبے کے شرارتی لڑکوں نے اگلے شکار کے لیے بابا چراغ دین کا انتخاب کیاتھا۔ قصبے سے باہر ایک بڑی حویلی میں بابا چراغ دین المعروف ''بابا بکری‘‘ رہائش پذیر تھا۔ بہت بوڑھا اور بالکل تنہا زندگی گزارتا ہوا ۔ بابا بکری اسے اس لیے کہا جاتا کہ اس کے پاس سینکڑوں بکرے بکریاں موجود تھے ۔ اس کی ملکیتی زمین حویلی سے دور دور تک پھیلی ہوئی تھی ۔ ایک اونچی چار دیواری نے اس کی زمین کو قصبے سے الگ کر رکھا تھا۔ چار دیواری کے اندر حویلی تک ہر کہیں گھاس اگا ہوا تھا، سارا دن بکرے جسے چرتے رہتے ۔ مسئلہ یہ تھا کہ چار دیواری کے اوپر ہر کہیں شیشے کے تیز دھار ٹکڑے نصب تھے۔ اس کے علاوہ دیوار کی اونچائی بھی 15فٹ سے کیا کم ہوگی۔ان بکروں پر لڑکوں نے کب سے نظریں جما رکھی تھیں ۔ قصبے والے بابا چراغ دین کی بہت عزت کرتے تھے ۔ کئی بار جب کوئی مسکین بے سہارا کسی مصیبت میں پھنس جاتا تو بابا اپنی بکریاں بیچ کر اس کی مدد کرتا۔ وہ مہینے میں ایک آدھ بار ہی بازار کا رخ کرتا ۔ ایک آدھ بکری بیچتا اور اپنی ضروریات کا سامان لے کر اگلے ماہ تک کے لیے حویلی لوٹ جاتا۔ قصبے کے جس جس باغ سے پھل چرانا ممکن تھا، لڑکے چرا چکے تھے۔ لاپرواہ لوگوں کے مرغے مرغیاں بھی وہ غائب کر دیا کرتے لیکن مرغوں سے اتنے بہت سے لڑکوں کا پیٹ کہاں بھرتا ۔ ہر طرف سے گھوم کر ان کی نظر بابا چراغ دین کے بکروں پر لوٹ آتی۔ بالآخر ان کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ تین لڑکوں پر مشتمل ایک وفد بابا بکری کی طرف بھیجا گیا۔اس وفد کو 85سالہ چراغ دین کو بہلا پھسلا کر اس سے ایک بکرا لانا تھا۔جمعرات کی شام کا وقت مقرر کیا تھا کہ اس وقت قصبے والے اپنے اپنے گھروں میں سو رہے ہوتے ۔
اس وقت تک لڑکوں کو بھی اندازہ نہیں تھا کہ یہ مہم اس قدر آسان ثابت ہوگی ۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ بابا چراغ دین بہت عمر رسید ہ چکا تھا اور اس کی حسیات ٹھیک سے کام کرنا چھوڑ چکی تھیں ۔ انہوں نے بابا چراغ دین سے یہ کہا کہ عرصہ دراز سے بستی والوں نے خدا کی راہ میں کوئی قربانی نہیں کی۔ کیا ہی اچھا ہو کہ اگر بابا چراغ دین اپنا ایک بکرا انہیں سونپ دے تو وہ کالی پہاڑی پر جا کر اسے خدا کے نام پر قربان کر دیں۔ وہ حیران رہ گئے ، جب بابا چراغ دین شتابی سے مان گیا۔ اس نے ایک بکرا نہلایا دھلایا ، اسے مہندی لگائی ، اسے چوم کر لڑکوں کے حوالے کر دیا ۔ لڑکے کالی پہاڑی پر گئے، بکرا ذبح کیا، لکڑیوں پر بھون کر خوب مزے لے لے کر اسے کھایا۔ پھرجمعے کی شام کو وہ بابا چراغ دین کے پاس گئے ۔ اسے بتایا کہ آسمان سے آگ آئی اور بکرے کو لے گئی ۔ با باخوش ہوگیا۔ اس نے ان کے ہاتھ چومے، گلے لگا کر انہیں رخصت کیا۔
اگر یہ واقعہ یہیں تک ہوتا توشاید کوئی مصیبت نہ آتی۔اگلے مہینے پھر لڑکوں کا جی للچایا۔ ایک بار پھر وہ بابا چراغ دین کے پاس گئے ۔ ایک بار پھر وہی ماجرا دہرایا گیا۔ پھر یہ سلسلہ چل نکلا ۔بابا چراغ دین کے پاس بکروں کی کوئی کمی نہیں تھی۔ شاید یہ سلسلہ بابا چراغ دین کی موت پر ہی منتج ہوتا لیکن اس سے پہلے منشی فضل الٰہی کو خبر ہو گئی ۔ اس نے قصبے والوں کو جمع کیا اور انہیں بتایا کہ باباچراغ دین کے ساتھ لڑکے کیا کھیل کھیل رہے ہیں ۔ ان سب کے والدین کو بلایا گیا ۔ بڑوں کا ایک وفد بابا چراغ دین کے پاس گیا۔ اسے بتایا گیا کہ لڑکے اسے بے وقوف بنا رہے ہیں ۔سب لڑکوں کے ماں باپ نے انہیں کان سے پکڑ رکھا تھا۔ اگر اس موقعے پر انہیں ڈانٹ ڈپٹ کے بھگا دیا جاتا تو یہ سلسلہ یہیں ختم ہو جاتا لیکن بابا چرا غ دین تو بپھر اٹھا ۔ اس نے سب کو بے نقط سنائیں ۔ اس نے کہا ، اپنے بال میں نے دھوپ میں سفید نہیں کیے۔ میرا ہر بکرا خدا کو نذر کیا گیا ہے اور ہر قربانی قبول ہوئی ہے ۔یہ لڑکے شرارتی ضرور ہیں اورلڑکے شرارتی ہوا ہی کرتے ہیں لیکن ایسا مذاق وہ نہیں کر سکتے ۔ بھلا وہ خد اکے نام کی قربانی خود کھائیں گے ؟ بستی والے سر پکڑ کر بیٹھ گئے ۔ انہوں نے کہا ، بابا چرا غ دین ، ہمارے بچّے ہیں ، ہمیں نہیں پتہ ان کا ؟ اس نے کہا، ہاں تمہیں نہیں پتہ ۔ یہ میرا اور ان کا معاملہ ہے ، تم بیچ میں سے دفعان ہو جائو۔
مسئلہ یہ تھا کہ شدید احترام کی وجہ سے بستی والے چراغ دین کا نقصان ہوتے نہ دیکھ سکتے تھے۔ وہ اپنی جگہ بضد رہے ۔ آخر یہ طے ہوا کہ بابا چراغ دین ایک بکرا تیار کرے اور اسے لے کر سب کالی پہاڑی پر چلیں ۔ وہاں لڑکے یہ قربانی سب کے سامنے خدا کو پیش کریں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو جائے ۔ لڑکوں کا رنگ اڑا ہوا تھا ۔ بابا چراغ دین ایک سرمستی کے عالم میں سب سے آگے چل رہا تھا۔راستے میں ہر کہیں بکروں کی ہڈیاں بکھری ہو ئی تھیں ۔ ان بکروں کی، جنہیں پچھلے آٹھ ماہ میں انہوں نے ذبح کیا تھا۔ ایک ہاتھ سے چراغ دین نے بکرے کی رسّی تھام رکھی تھی ۔ سارے معاملات اس نے اپنے ہاتھ میں لے لیے تھے۔ اسی نے بتایا ، بکرے کو کیسے لٹانا ہے ، کون چھری پھیرے گا ۔ پھر کیسے سب نے پیچھے ہٹ کر دعا کرنی ہے ۔ ان کی آنکھوں کے سامنے آسمان سے آگ آئی اور بکرے کو اس نے جلا دیا ۔ قربانی قبول ہو گئی ۔
لڑکے کانپ رہے تھے ۔کیسے خدا کے نام پر لانے والا ایک ایک بکرا وہ مزے لے لے کر کھاتے رہے ۔ انہیں یقین نہیں آرہا تھا کہ قربانی قبول کر لی گئی ہے اور ان کا پردہ فاش ہونے سے بچ گیا ہے ۔ بابا چراغ دین فاتحانہ انداز میں چل رہا تھا۔ اس نے کہا ، میں نے کہا تھا نا ، یہ شرارتی ہیں لیکن اتنے بھی بگڑے ہوئے نہیں کہ قربانی کا بکرا خود کھا جائیں ۔ بستی والے ہر کہیں بکھری ہڈیوں کو دیکھ رہے تھے اور کنفیوژن کا شکار تھے ۔اب وہ کیا کہتے ؟
بہرحال خدا نے سب کا پردہ رکھ لیا تھا۔ وہاں سے وہ لوٹ آئے۔ شام کو لڑکوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بابا چراغ دین کے سامنے سچ بیان کر دیں گے اور معافی مانگ لیں گے ۔آئندہ ایسا نہ کرنے کا وعدہ بھی کریں گے ۔ وہ یہ سوچ کر پریشان ہو رہے تھے کہ کہیں یہ سچ بابا چراغ دین کے لیے جان لیوا ثابت نہ ہو۔ اس کی عمر اب صدمات برداشت کرنے کی نہیں تھی ۔ جب وہ بابا چراغ دین کے پاس پہنچے تو اس نے انہیں دیکھتے ہی کہا ''مجھے پتہ ہے ، سارے بکرے تم خود کھاتے رہے ہو ۔‘‘ اس کے بعد وہ ہنستا رہا ۔ اس نے کہا ، کالی پہاڑی پر جاتے ہوئے ، کیسے تم سب کے منہ لٹکے ہوئے تھے۔ ہنستے ہنستے اس کی آنکھوں سے پانی بہہ رہا تھا۔ وہ ان کی نقل اتار رہا تھا، جب وہ ڈرے سہمے کالی پہاڑی پر چڑ ھ رہے تھے ۔پھر اس نے کہا '' شرارتیں تو ہم کیا کرتے تھے ، اپنی جوانی میں ‘‘ ۔
اس روز لڑکوں کو معلوم ہوا کہ بابا چراغ دین سے منسوب سارے واقعات سچے ہیں ۔