تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     10-08-2017

صدارتی نظام

کیا یہ محض حسن اتفاق ہے یا ایک سوچا سمجھا منصوبہ کہ ہمارے خطے میں‘ جہاں پارلیمانی نظام پہلے سے موجود تھا (بھارت) اسے مزید مستحکم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے اور جہاں پہلے بادشاہت (نیپال) اور صدارتی نظام (سری لنکا) تھا‘ وہاں پارلیمانی نظام کی طرف رجوع کیا جا رہا ہے‘ پاکستان میں کچھ حلقوں کی طرف سے 1973 کے آئین پر مبنی پارلیمانی نظامِ حکومت کی بساط لپیٹ کر اس کی جگہ صدارتی نظامِ حکومت رائج کرنے کی تجاویز پیش کی جا رہی ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پارلیمانی اور صدارتی نظامِ حکومت‘ دونوں جمہوری ہیں‘ دونوں میں خوبیاں بھی ہیں اور خامیاں بھی‘ اور موخرالذکر متعدد ملکوں میں کامیابی سے چل رہا ہے‘ لیکن میرے خیال میں اور پورے جنوبی ایشیا کے تاریخی اور سیاسی سیاق و سباق میں پارلیمانی نظام ہی پاکستانی عوام کی امنگوں اور ضروریات اور مفادات سے مطابقت رکھتا ہے۔ اس کی بہترین مثال پاکستان کے تجربے کی صورت میں موجود ہے۔ 1947-54 کے دوران میں ملک کے آئندہ آئین کے بارے میں متعدد تجاویز پیش کی گئی تھیں۔ ان میں صدارتی نظامِ حکومت کے حق میں بھی تجویز شامل تھی‘ لیکن پہلی آئین ساز اسمبلی نے پارلیمانی نظام کے حق میں فیصلہ دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ یہ نظام سو برس کے لگ بھگ عرصہ پر محیط ارتقائی عمل سے گزرنے کے بعد گورنمنٹ آف انڈیا ایکٹ 1935 کی شکل میں سامنے آیا تھا۔ یہ ایکٹ اگرچہ برطانوی پارلیمنٹ نے منظور کیا تھا‘ لیکن اس کی تشکیل میں نہ صرف برطانیہ بلکہ ہندوستان کی بہترین قانونی اور آئینی ماہرین نے حصہ لیا تھا۔ یہ دعویٰ بے بنیاد ہے کہ پارلیمانی نظام جاگیردارانہ مفادات کا تحفظ کرتا ہے۔ اگر ایسا ہے تو بھارت‘ بنگلہ دیش (1990 کے بعد)‘ سری لنکا (1948-78) اور نیپال میں (بادشاہت کے خاتمہ کے بعد) اسے کیوں اختیار کیا جا رہا ہے؟ کسی ملک کا سیاسی نظام اس ملک کے عوام کے سیاسی تجزیے‘ ثقافتی ورثے اور سماجی‘ معاشی ڈھانچے کا آئینہ دار ہونا چاہئے۔ پاکستان کے عوام‘ سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں کو صرف پارلیمانی سیاست کا تجربہ ہے‘ کیونکہ یہ عوام کے لئے قابل فہم ہے۔ اسی لئے ایوب خان کا صدارتی نظام (1962-1969) اس کے اقتدار کے ساتھ ہی دھڑام سے نیچے آ گرا تھا۔ ضیاالحق نے آٹھویں ترمیم کے ذریعے 1973 کے آئین کو صدارتی نظام میں ڈھالنے کی کوشش کی‘ لیکن 1997 میں نواز شریف نے جمہور کی قوت سے اسے ختم کرکے آئین کا پارلیمانی کریکٹر بحال کر دیا۔ جنرل مشرف نے ضیا الحق کے نقش قدم پر چلتے ہوئے سترہویں آئینی ترمیم متعارف کی اور 1973 کے آئین کی موجودگی میں عملاً صدارتی نظام نافذ کر دیا‘ لیکن ایک دفعہ پھر جمہوریت کو فتح حاصل ہوئی اور پارلیمنٹ کے وہ تمام اختیارات‘ صدر کے غائبانہ قبضے میں تھے‘ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے ذریعے واپس پارلیمنٹ کو لوٹا دیے گئے۔
کیا یہ تاریخی حقائق یہ ثابت کرنے کے لئے کافی نہیں کہ پاکستان کے عوام صدارتی نظام کو قبول کرنے کے لئے تیار نہیں‘ کیونکہ وہ ایوب خان‘ ضیاالحق اور پرویز مشرف کے صدارتی نظام کے تلخ تجربے سے گزر چکے ہیں۔ جنوبی ایشیا میں صدارتی نظام سے گریز اور پارلیمانی نظام کی طرف مائل ہونے کی بڑی وہ یہ ہے کہ اول الذکر کے تحت آمرانہ رجحانات کو فروغ ملتا ہے۔ اس کی تازہ ترین مثال سری لنکا کی ہے‘ جہاں موجودہ صدر سری سینا نے سابق صدر راجا پاکسے کے مقابلے میں صدارتی انتخاب (جنوری 2016) میں عوام سے اس وعدے پر جیتا کہ وہ برسر اقتدار آ کر طاقت ور پریزیڈنسی نظام ختم کرکے پارلیمانی بحال کر دیں گے۔ یاد رہے کہ 1948 سے 1978 تک سری لنکا میں پارلیمانی نظام رائج تھا۔ پاکستان کو دولخت کرنے اور مشرقی پاکستان کی علیحدگی میں جہاں اور بہت سے عوامل کا ہاتھ تھا‘ وہاں ایوب خان کے صدارتی نظام نے بھی اس معاملے میں بہت اہم کردار ادا کیا تھا کیونکہ پاکستان کے ایک سابق چیف جسٹس محمد منیر کے مطابق ایوب خان کے 1962 کے صدارتی آئین نے ملک کو عملاً وفاقی سے وحدانی ریاست میں تبدیل کر دیا تھا۔ اسی کی وجہ سے مشرقی پاکستان‘ جہاں احساسِ محرومیت پہلے ہی گہرا تھا‘ مایوسی کا شکار ہو کر علیحدگی پسندانہ رجحانات کی لپیٹ میں آ گیا۔ الطاف گوہر نے اپنی کتاب ''پاکستان کا پہلا فوجی حکمران‘‘ میں لکھا ہے کہ ایوب خان پارلیمانی نظامِ حکومت کے سخت خلاف تھا‘ اور اس کا دعویٰ تھا کہ اگر پاکستان میں پارلیمانی نظام قائم کیا گیا تو ملک کا شیرازہ بکھر جائے گا۔ لیکن پارلیمانی نظام سے نفرت کرنے والے حکمرانوں میں ایوب خان پہلا اور آخری حکمران نہیں تھا۔ جی ڈبلیو چودھری اپنی تنصیف Constitutional Development in Pakistan میں لکھتے ہیں کہ پاکستان کے دوسرے گورنر جنرل غلام محمد‘ جن کے کارناموں میں ایک وزیر اعظم (خواجہ ناظم الدین) کی سمری برائے برطرفی (1953) اور پہلی دستور ساز اسمبلی کی تحلیل (1954) بھی شامل ہیں‘ سرے سے ہی جمہوریت کے خلاف تھے اور اس کی جگہ پاکستان میں انگریز کے نافذ کردہ وائس ریگل نظام کے حامی تھے۔ سکندر مرزا اور ایوب خان‘ جو ان کی کابینہ میں بالترتیب وزیر داخلہ اور وزیر دفاع تھے‘ ان کے ان خیالات سے پوری طرح متفق تھے اور 1958 میں 1956 کے آئین کو منسوخ کرکے پاکستان کے پہلے مارشل لا کے اعلان کے وقت انہوں نے اپنے ان خیالات کا برملا اظہار کر بھی دیا تھا۔ آج کل پاکستان کے (ابھی تک) آخری حکمران جنرل پرویز مشرف انہی روایات کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں‘ اور قوم کو یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پاکستان کو سیاست دانوں کے ہاتھوں نقصان پہنچا ہے‘ جبکہ فوجی آمروں نے ملک کو مصیبت سے نکالا ہے۔ اس صورت حال پر تبصرہ کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن نے فرمایا ہے کہ آج کل ملک میں یہ بیانیہ عام کیا جا رہا ہے کہ آمریت جمہوریت سے بہتر ہے۔ یہ صورت حال کسی کے لئے باعثِ حیرت نہیں ہونی چاہئے۔ پاکستان میں ایک مائنڈ سیٹ ایسا ابھی تک موجود ہے جو پارلیمانی جمہوریت کو اپنے عزائم کی تکمیل کی راہ میں رکاوٹ سمجھتا ہے‘ کیونکہ اسی کی بنیاد عوامی حاکمیت یا پارلیمنٹ کی بالا دستی ہے۔ ملک میں جب کبھی پارلیمانی جمہوریت کو قدم جمانے کا موقع ملتا ہے‘ یہ مائنڈ سیٹ سرگرم ہو جاتا ہے۔ پہلے سیاست دانوں اور پھر پارلیمنٹ کے خلاف ایک منظم اور مسلسل پروپیگنڈا شروع کیا جاتا ہے۔ سیاست دانوں کو بدعنوان‘ اقربا نواز اور ملک دشمن قوتوں کا ایجنٹ مشہور کیا جاتا ہے۔ پارلیمنٹ کو چوروں اور ڈاکوئوں کا ٹولہ کہا جاتا ہے اور اس کے بعد پارلیمانی نظام میں ہی تمام نقائص نکال کر اسے تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ ملک کے لئے کون سا نظام بہتر ہے؟ اس کا فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہئے‘ لیکن وہ لوگ جو اس بحث میں پڑنا چاہتے ہیں‘ انہیں اس مسئلے کو اس کے صحیح تاریخی سیاسی اور ثقافتی سیاق و سباق کی روشنی میں دیکھنا چاہئے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved