سمجھ نہیں آرہا، آج سمجھ نہیں آ رہا کہ کہاں سے شروع کروں۔
افغانستان کے صوبہ ہرات سے یا بنگلہ دیش کے شہر سونار گائوں تک بکھری جرنیلی سڑک کی تاریخ سے۔ جی ٹی روڈ پر ہونے والے بڑے بڑے روڈ شوز سے۔ پوٹھوہار کے ان کروڑوں لوگوں سے‘ جو ٹی وی چینلز نے دکھانے سے انکار کر دیا۔
جس پر LNG وزیر اعظم، 46 وفاقی وزیر، مرکزی اور صوبائی وزیر داخلہ‘ پنڈی اسلام آباد دونوں شہروں کے میئر کہتے رہے کہ رکاوٹوں کے باوجود نااہل وزیر اعظم کے کروڑوں شیدائی سڑکوں پر آ گئے۔ الحمدللہ ایک بار پھر پاناما کیس کی طرح جی ٹی روڈ پر بھی آلِ شریف سرخرو ہوگئی۔
نااہل تیرے جانثار
کھا پی کے سب فرار
ایک کمرشل پیر صاحب کے قصّے سے شروع کر لیتے ہیں‘ جن کے پروموٹرز ہمیشہ کہتے: حضرت تیرا ایک اشارہ‘ حاضر حاضر لہو ہمارا۔ ایک دن پیرصاحب کے علاقے سے ننگ دھڑنگ ملامتی ملنگ کا گزر ہوا۔ پیر صاحب کے سیلزمین اُسے گھیر کے ''آستانہِ عالیہ‘‘ پر لے آئے۔ جانثاروں کے سامنے فقیری کا نام لے کر شکم پری کرنے والے نے اپنی کرامتیں بیان کیں۔ ہر کرامت پر سیلزمین اور لانگری نعرے لگاتے۔ حاضر حاضر لہو ہمارا کا ورد کرتے۔ ننگ دھڑنگ ملامتی ملنگ کو زیرِ لب مسکراتا دیکھ کر کمرشل پیر کھسیانا ہو گیا۔
ملنگ سے کہنے لگا: تمہیں میرے جانثاروں کی وفا پر یقین نہیں؟ ملنگ بے نیازی سے بولا: مجھے چھوڑو تمھارے جانثاروں کو تم پر یقین نہیں ہے۔ بے نیاز ملنگ اور کمرشل پیر میں زوردار بحث چھڑ گئی۔ کمرشل پیر نے اعلان کیا کہ کل دربارِ عالیہ کے '' وصولیاتی‘‘ دروازہ پر‘ بڑے کڑاہ میں ہر مرید ایک ایک پیالہ خون کا ڈالے گا۔ کمرشل پیر کا جذباتی فیصلہ سن کر ملنگ پھر مسکرا دیا۔ کاروباری پیر نے وجہ پوچھی تو ملنگ کہنے لگا‘ اپنے جانثاروں کا اتنا بڑا امتحان نہ لو۔ ہر جانثار کل طلوعِ فجر سے پہلے کڑاہ میں ایک بالٹی خالص دودھ ڈال دے‘ یہی ثبوت کافی رہے گا۔ میں آپ کی پیری اور ساری کرامتیں مان لوں گا۔ یوں جی ٹی روڈ ریلی کی طرح کاروباری پیر اور نانگے فقیرکے مکالمے کا پہلا رائونڈ مکمل ہوا۔
دوسرے مرحلے میں اگلی صبح پہلا جانثار گھر سے نکلا۔ اُس کی بالٹی پانی سے بھری تھی۔ جانثار نے سوچا‘ اتنے بڑے کڑاہ میں ایک بالٹی پانی میں ڈال دوں تو کون مجھے پکڑ سکے گا۔ نمازِ فجر سے طلوعِ صبح تک لوگ بالٹیاں ڈالتے رہے۔ کنٹینر نما اُونچے چوبارے پر بیٹھ کر پیر خوش ہوتا رہا۔ دن کی روشنی میں کڑاہ دیکھا گیا تو پتہ چلا پورا کڑاہ پانی سے بھرا تھا۔ دودھ سے بالکل پاک۔
اب آئیے جی ٹی روڈ کی تاریخ کی طرف۔ اِس پر پہلا کارواں شیر شاہ سوری کا تھا‘ جس نے جرنیلی سڑک خود بنائی۔ کناروں پر کروڑوں درخت لگائے۔ مسافروں کیلئے مسافر خانے تعمیر کیے۔ پیغام رسانی کیلئے ڈاک بنگلے بنائے۔ پانی کی مفت فراہمی کیلئے باؤلیاں کھودیں۔ یوں مغلیہ طرزِ حکمرانی کو چند سالوں میں شرمندہ کرکے رکھ دیا۔ جی ٹی روڈ پر دوسرا مارچ مہاراجہ رنجیت سنگھ گجرانوالیہ کا تھا‘ جس نے افغان حملہ آور سے دہلی کی تین ہزار سے زیادہ قیدی خواتین کو دریائے جہلم کے کنارے پر لڑ کر زنجیروں سے آزاد کرایا۔ معصوم عورتوں کو شرفا کے گھروں سے اُٹھا کر‘ بھیڑ بکریوں کی طرح ہانک کر کابل لے جایا جا رہا تھا۔
جرنیلی سڑک پر تیسرا تاریخی مارچ‘ شیر کے نشان والی مسلم لیگ کے پہلے صدر خان قیوم خان کا 31 میل لمبا جلوس تھا۔ وہی مرحوم کے سیاسی تابوت میں آخری کیل ثابت ہوا۔ لوگ آج بھی کہتے ہیں 31 میل لمبے جلوس کے بعد 32 میل لمبا معافی نامہ لکھا گیا۔ چوتھا بڑا جی ٹی روڈ شو آلِ شریف کے سیاسی کزن بڑے جج صاحب کے زمانے میں برپا ہوا۔ نوکری واپس کرو مہم کو عدلیہ آزادی کا مارچ کہا گیا۔ نوکری واپس آ گئی۔ انصاف گم شدہ لوگوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔
چلئے نااہل وزیرِاعظم کے روڈ شو کی طرف‘ جس کی بنیاد سول اداروں کی بالادستی کا دلفریب نعرہ ہے۔ یادش بخیر، کل ہی کی بات ہے۔ میں ایوان صدر میں بیٹھا تھا۔ کہا گیا: فوج نے کہہ دیا‘ نواز شریف گوجرانوالہ سے آگے نہیں جائے گا۔ اس کا عدلیہ بچائو برگر مارچ‘ مڈنائٹ جیکال ثابت ہوا۔ سویلین بالادستی کی ایسی تاریخ بنانے والا نااہل وزیرِ اعظم ملک کے سب سے بڑے صوبے اور وفاق کی انتظامی مشینری‘ عوام کے ٹیکسوں اور فیڈرل فنڈ کے خزانے سے پٹواریوںکی طاقت کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ طاقت کے اس عظیم سویلین مظاہرے سے پہلے گاڈ فادر ٹو نے راولپنڈی کے ''خفیہ ہاتھوں‘‘ سـے دوسری خفیہ ملاقات کی۔
شہرِ اقتدار کے بے روزگار وہی کہتے ہیں جو گاڈ فادر ٹُو کی تعلیم یافتہ اہلیہ صاحبہ نے کہا۔ جیٹھ جی، خیر سے گھر کو لوٹ آئو۔ آتے ہی اپنے مشیروں کو فارغ کرو۔ سوال یہ ہے نااہل وزیر اعظم کو جی ٹی روڈ کے کھمبے پر چڑھانے والے ستاروں کے نام کیا ہیں؟ نام جانے دیجئے۔ بس اتنا سمجھ لیں شام ڈھلنے والی مشاورت کے طرہ امتیاز کی جوڑی ساتھ رانا صاحب نے مشاورت کی ٹرائیکا بنائی۔ سربراہی میانوالی والے بہت اچھے نیازی صاحب نے کی۔ مشیروں کا خیال تھا‘ نااہل قائد اعظم ثانی تو جرنیلی سڑک پر آکر باآسانی قائدِ عوام ثانی بن جائیں گے۔
ایک نے تو حد ہی کر دی۔ فرمایا: قوم آپ کو نیلسن منڈیلا سمجھتی ہے۔ جمہوریت کیلئے روڈ شو نیلسن منڈیلا والا ''لانگ واک ٹو فریڈمِ‘‘ ہو گا۔ جو مشیر پیچھے رہ گیا وہ سب سے آگے نکلا۔ کہنے لگا: چیئرمین مائوزے تنگ کی کرسی خالی ہے۔ عوام کو پکاریں چین کے لانگ مارچ کی تاریخ دہرا دیں۔ نااہل وزیرِ اعظم نااہلی کی وجوہات پر غور کرتے‘ تکبر سے توبہ کرتے۔ اپنے غرور کو ''رام‘‘ کرتے۔ انا کے کوہِ سیاہ سے نیچے اتر آتے۔ مظلومیت ڈرامہ کی بجائے اخلاص سے عجز کا اظہار ہوتا۔ سازش کرنے والوں کے نام لیتے۔
جو غلطی سے سیکھتے ہیں اسے دہرانے کی ضد نہیں کرتے، ان کے لیے قدرت معافی کا در کھول رکھتی ہے۔ جی ٹی روڈ پر یومِ اوّل کا اختتام۔ تھکے ہارے ہوئے جواری کی منہ بولتی ویڈیو انٹرنیٹ پر وائرل ہے۔ ہلتے ہاتھ، کپکپاہٹ، چہرے پر مایوسی کا تسلط ہے۔ نصف شب کے بعد قائدِ عوام ثانی، نیلسن منڈیلا اور چیئرمین مائو کی تاریخ بدل گیا۔ بم پروف ایئرکنڈیشنڈ کنٹینر چھینی ہوئی کرسی کی واپسی کے لیے منمناتی ہوئی آواز سے بولا: کنٹینر سیاست کا خاتمہ کرنے والا، کنٹینر میں قلعہ بند۔ بازاری سیاست روکنے کے لیے برسرِ بازار رقص۔ وزیروں نے قوم کی سیاسی تربیت ان لفظوں میں کی۔ پہلا بولا: یہاں کوئی ناچنے والی نہیں۔ دوسرے نے ایک کہا: تم نے جن جگا دیا۔ تیسرے نے گرہ لگائی‘ شیر سو رہا تھا‘ سپریم کورٹ کے فیصلے نے جگا کو دیا۔ آخری تو آخری حد سے بھی گزر گیا۔ اس نے اپنے آئیکون مرحب کو پکارا۔ محسنِ انسانیتﷺ کا ابوجہل جیسا دشمن۔ جو یثرب سے صنعا کی وادی تک اسلام کو بے دخل کرنا چاہتا تھا۔ اللہ کی تلوار حیدرِ کّرارکے ہاتھوں قتل ہونے والا بدبختِ اعظم۔
مامو ں جی کو مرحب اپوزیشن یا میڈیا نے نہیں بنایا۔ ریلی میڈیا رپورٹروں اور کیمرہ مینوں کی وجہ سے ناکام نہیں ہوئی۔ کوئی ریلی، صحافیوں کی پٹائی کر کے کامیاب نہیں ہو سکتی۔ ایک کی گاڑی ٹوٹی۔ دوسرے کا گریبان چاک۔ تیسرے کے چہرے پر مکوّں کی بارش۔ جی ٹی روڈ ویسا ہی راستہ ہے جیسا موسیٰ اور فرعون والا۔ راہ میں بپھرے پانی نے موسیٰ کے لیے راستہ چھوڑ دیا تھا۔ اسی راستے پر چلنے والے فرعون کے تکبر کی لاش آج بھی میوزیم میں غرور کا سر جھکنے کا اعلان کر رہی ہے۔
راستہ ایک ہو کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اصل بات رہنما کی ہے۔ بے چارہ گم کردہ راہ وی آئی پی جہازوں سے اترا جی ٹی روڈ پر آ گیا۔