تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     11-08-2017

کہاں ڈوبا ہے غیرت کا سفینہ؟

معاشرتی رویّوں میں تیزی سے رونما ہوتی ہوئی تبدیلی یعنی پستی کا عالم یہ ہے کہ احساس جس چڑیا کا نام تھا وہ اب فضاء میں کہیں بھی پَر پھیلاتی، اڑان بھرتی نظر نہیں آتی۔ معاملات بے حِسی کی منزل سے بھی بہت آگے جاتے دکھائی دے رہے ہیں۔ گزرتا وقت زندگی کے ہر معاملے کو زیادہ سے زیادہ گیا گزرا بنانے پر تُلا ہوا ہے۔ انسان نے شاید طے کرلیا ہے کہ کسی بھی معاملے میں جس قدر بھی گھٹیا پن کا سوچا جاسکتا ہے زمانے کو اُس سے ایک قدم آگے جاکر دکھانا ہے۔ 
کسی بھی مہذب معاشرے پر لگنے والے بڑے دھبّوں میں ''غیر مطلوب‘‘ اور ''اَن چاہے‘‘ بچے بھی شامل ہیں۔ شادی کے بندھن (wedlock) کو یکسر نظر انداز کرنے کی صورت میں جو بچے اِس دنیا میں آتے ہیں اُنہیں اصطلاحاً love-child کہتے ہیں یعنی ''پیار کا نتیجہ‘‘ مگر لطیفہ یہ ہے کہ ایسے بچوں کے لیے اُن کے biological parents میں حقیقی محبت برائے نام پائی جاتی ہے! 
سوال یہ ہے کہ شادی کے بندھن سے باہر پیدا ہونے والا بچہ اگر love-child ہے تو کیا باضابطہ ازواجی بندھن میں بندھنے پر تولد ہونے والا بچہ، خدا ناخواستہ، hate-child کہلائے گا! ایسا لگتا ہے کہ love-child کی اصطلاح کے ذریعے شیطانی قوتوں نے دنیا کو یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ محبت شادی سے پہلے یا بعد کا معاملہ ہے ... اور شادی کیا ہے؟ محض رسمی کارروائی، خانہ پُری! 
ترقی یافتہ معاشروں میں شادی کے بندھن میں بندھے بغیر ساتھ رہنے کے لیے ''پارٹنر شپ‘‘ کی اصطلاح مروّج ہے۔ جو مرد و زن میاں بیوی بنے بغیر ساتھ ساتھ رہتے ہیں وہ پارٹنرز کہلاتے ہیں۔ بہت حد تک ممکن ہے کہ کل کو اِس پارٹنر شپ کی رجسٹریشن عدالت کے بجائے چیمبر آف کامرس یا پھر اسٹاک ایکسچینج میں کرائی جانے لگے! 
شادی کی صورت میں چند ایک مجبوریاں دامن گیر رہتی ہیں۔ پارٹنر شپ کا راستہ اِس لیے چُنا گیا کہ جب جی بھر جائے تو ع 
چلو اِک بار پھر سے اجنبی بن جائیں ہم دونوں 
کا راگ الاپتے ہوئے اپنی اپنی راہ لی جائے یعنی کوئی کسی کا کسی معاملے میں مکلّف نہیں۔ رات گئی، بات گئی۔ 
شادی ایسے مقدس بندھن کو بالائے طاق رکھ کر اگر ساتھ ساتھ رہنا گوارا کر بھی لیا جائے تو سوال یہ ہے کہ پارٹنر شپ کی انکم اسٹیٹمنٹ کے آخر میں دکھائی دینے والے ''نقصان‘‘ کا کیا بنے گا! پروین شاکر نے کہا تھا ؎ 
وہ تو خوشبو ہے، ہواؤں میں بکھر جائے گا 
مسئلہ پھول کا ہے، پھول کِدھر جائے گا! 
ترقی یافتہ معاشروں نے خوشبو کے بکھر جانے کی صورت میں پھول کے تحفظ کو یقینی بنانے کا یہ راستہ نکالا ہے کہ پھول کی حفاظت اور نگہداشت کے لیے باغبان کا کردار ریاست کے حوالے کردیا ہے۔ اب وہاں غیر مطلوب بچے کچھ خاص غیر مطلوب نہیں رہے۔ جائز و ناجائز کی بحث کو skip کردیا گیا ہے۔ شادی کے بغیر مرد و زن کی مخلوط رہائش اُس وقت بُری سمجھی جاتی ہے جب ایسا کرنا exceptional ہو۔ جس چیز کا چلن عام ہو جائے وہ بُری بھی ہو تو بُری نہیں رہتی۔ جب شادی کے بغیر مخلوط رہائش کا چمن بُرا نہیں رہا تو اِس میں کِھلنے والے پُھول کیوں بدبو دار محسوس ہوں! 
اِدھر پس ماندہ معاشروں کی حالت یہ ہے کہ بُرائیوں کے گڑھے میں گِرے ہوئے بھی ہیں اور اچھائیوں کو یاد کرکے روتے بھی رہتے ہیں۔ ترقی یافتہ معاشروں میں غیر مطلوب یا اَن چاہے بچے بدنامی کا سبب نہیں بنتے اس لیے اُن سے جان چُھڑانے کا بھی نہیں سوچا جاتا۔ یہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ غیر اخلاقی تعلقات میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی۔ ہاں، اِن تعلقات کے نتائج قبول کرنے کی ہمت پیدا ہوسکی ہے نہ خواہش۔ 
تین دن پہلے کی بات ہے۔ بھارتی ریاست گجرات میں، جہاں سیلاب آیا ہوا ہے، ایک نو زائیدہ بچی کو لکڑی کے صندوق میں ڈال کر دریا کی لہروں کے سپرد کردیا گیا۔ بچی خوش نصیب تھی کہ صندوق دریائے شترنجی کی بپھری ہوئی لہروں پر چار کلو میٹر تک بہنے کے بعد لوگوںکی نظروں میں آیا اور وہ بچالی گئی۔ یہ واقعہ ضلع امریلی کے تعلقہ لاٹھی دام نگر کے گاؤں تیج پور کا ہے۔ خدا ہی جانے کہ لوگوں کے پاس ایسا جگرا کہاں سے آتا ہے کہ پُھول سے بچوں کو دریا کی لہروں کے سپرد کردیتے ہیں، کسی ویران جگہ آوارہ کتوں کی خوراک بننے کے لیے رکھ دیتے ہیں یا پھر مارنے کے بعد کچرا کنڈی میں پھینک دیتے ہیں۔ کوئی بتائے کہ ضمیر کو اِس حد تک سُلا دینے والی گولی کہاں ملتی ہے! 
اَن چاہی اولاد سے جان چُھڑانے کا ایک اور واقعہ کلکتہ کے ہاؤڑا ریلوے اسٹیشن کا ہے۔ دس بارہ دن قبل ضمیر سے عاری کسی مرد یا عورت نے نو زائیدہ بچی کو کپڑے میں لپیٹ کر اسٹیشن کے ایک ایسے حصے میں رکھ دیا جہاں سے عوام کا گزر کم ہوتا ہے۔ ہاں، اُس جگہ آوارہ کتے بڑی تعداد میں ضرور پائے جاتے ہیں۔ جس کے سینے میں دل نہیں تھا وہ انسان تو بچی کو کپڑے میں لپیٹ کر رکھ گیا مگر جن کے سینے میں دل تھے اُن کتوں اور کتیاؤں نے بچی کو بھنبھوڑ کر اپنا پیٹ بھرنے کے بجائے مل جل کر ایسی جگہ تک پہنچایا جہاں لوگ اُسے دیکھ سکیں! یہ منظر دیکھ کر اسٹیشن پر ہنگامہ برپا ہوگیا۔ منظر یہ تھا کہ بچی کو آٹھ کتوں، کتیاؤں نے حفاظتی حصار میں لے رکھا تھا یعنی انسان تو مرنے کے لیے چھوڑ گیا تھا اور کتوں نے اُسے بچانے کی ٹھان لی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سینکڑوں افراد جمع ہوگئے۔ ریلوے کے عملے کو اطلاع ملی تو اُس نے بچی کو اسپتال پہنچایا۔ اگلے دن بچی لاوارث بچوں کی نگہداشت کے ایک ادارے کی تحویل میں دے دی گئی۔ 
غیرت، ظرف اور ضمیر کی اِس معرکہ آرائی میں کتے فاتح ٹھہرے! انسان کا سفر جاری ہے۔ اکیسویں صدی کے ''تقاضوں‘‘ کو نبھاتے نبھاتے وہ پتہ نہیں کہاں سے کہاں جا نکلنے کے موڈ میں ہے۔ غیرت، ضمیر، ظرف، محبت، وفا، خلوص اور دیگر بہت سے اوصافِ حمیدہ کو خیرباد کہتے ہوئے وہ زیادہ سے زیادہ جسمانی آسودگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ روحانی آسودگی اور ذہنی بالیدگی کے بارے میں سوچنے کا وقت اور موقع اب اُس کے پاس نہیں رہا۔ 
اکیسویں صدی کے جانوروں کو دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ وہ اب تک ہزاروں سال پہلے کے ماحول میں جی رہے ہیں۔ اپنے اصول ترک کرنے پر وہ آج بھی آمادہ نہیں۔ جنگلی حیات کے حوالے سے بنائی جانے والی دستاویزی فلمیں دیکھیے، حیوانات آج بھی اپنی اولاد کو حالات کے رحم و کرم پر چھوڑ کر آگے نہیں بڑھ جاتے۔ کوئی بھی جانور، کسی بھی صورتِ حال میں، اپنی اولاد کو نظر انداز کرکے صرف اپنے مفاد کی نگہبانی کا طوق اپنی گردن میں نہیں ڈالتا۔ اولاد کو بچانے کے لیے جنگل میں جانور آخری دم تک لڑتے ہیں اور اپنی جان بھی داؤ پر لگانے سے گریز نہیں کرتے۔ 
ترقی کے سفر میں یہ قیامت خیزی، یہ بھاگ دوڑ بھی خوب ہے مگر وقت اور دانش کا تقاضا ہے کہ انسان ذرا دم لے اور حیوانات کے معمولات کا جائزہ لے کر اُن سے کچھ حاصل کرے، کچھ سیکھے۔ کیا پتہ حیوانی دنیا سے کچھ سیکھ کر انسانی دنیا کسی کام کی ہو جائے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved