تحریر : حسن نثار تاریخ اشاعت     26-02-2013

تبدیلی

اس بار چند دن کے لیے ایسی سردی پڑی اور شب و روز ایسے میلے میلے اور ملگجے ہوئے کہ زندگی میں پہلی بار مجھے یہ سمجھنا بہت سہل ہو گیا کہ سکینڈے نیویا کے ملکوں میں لوگ موسم کی وجہ سے خودکشی کیوں کرتے ہیں۔ سچ یہ ہے کہ خود ایک آدھ بار میرا اپنا جی چاہا کہ اپنا مائوزر کنپٹی پر رکھ کر ٹریگر دبا دوں کہ یہ کیا بکواس ہے۔ گھنٹوں نہیں دنوں میں اپنے کمرے سے نہیں نکلتا۔ موسم وارے میں ہو تو اور بات کہ لمبی واک مجھے بہت پسند ہے لیکن موسم ایسا بیہودہ ہو تو میں صرف کھڑکی کے رستے ہی اس سے رابطہ رکھتا ہوں ورنہ کمرے کے اندر ہی ایکسر سائز کا بندوبست لیکن درختوں، پودوں کی پژمردگی تو کھڑکی سے بھی صاف دکھائی دیتی تھی۔ پژمردگی تو لفظ ہی کوئی نہیں۔ ہنستے کھیلتے ہرے بھرے درخت، پودے، بیلیں، جھاڑیاں کہرے کے سبب باقاعدہ جل گئے تھے۔ یہی زندگی ہے کہ بہار کے لیے خزاں کی قیمت بھگتنی اور چکانی ہی پڑتی ہے۔ جپسم سے لے کر قدرتی کھاد تک ہم نجانے کتنے حربے استعمال کرتے ہیں کہ لان کی گھاس کو جلنے ’مرنے‘ پیلا ہونے سے بچا سکیں لیکن کہاں تک؟ پورا زور لگانے کے بعد بھی اک عجیب اجاڑ سا دکھائی دیتا ہے جسے دیکھ کر مجھے ’’بن حر‘‘ کے ہیرو کا گھر یاد آتا ہے کہ جب ’’ٹرائیبیون‘‘ کی سازش کے نتیجہ میں ’’بن حر‘‘ کی ماں اور بہن کو قیدی بنا کر خود بن حر کو غلام کے طور پر فروخت کر دیا جاتا ہے تو بن حر مختلف مشکلات، مہمات اور مراحل سے گزر کر اعلیٰ منصب حاصل کرکے مدتوں بعد اپنے گھر لوٹتا ہے تو فواروں سے مرصع عالیشان حویلی کی جگہ اک کھنڈر نما ڈھانچہ اس کا استقبال کرتا ہے۔ اجاڑ پن کا یہ احساس عمارت نہیں اس کے لاوارث لان کو دیکھ کر جنم لیتا ہے۔ کوئی بھی گھر کتنا ہی خوبصورت کیوں نہ ہو اس کا اصل تعارف اس کا لان اور لینڈ سکیپنگ کا معیار ہوتا ہے اور یہ تب تک ممکن نہیں جب تک اہل خانہ کو خود درختوں، پودوں، جھاڑیوں اور بیلوں سے والہانہ محبت نہ ہو۔ پودے اور بچے پالنے میں گہری مماثلت ہے۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے کہ کسان کے اپنے قدم دنیا کی قیمتی ترین کھاد سے بھی بہتر ہوتے ہیں یعنی اصل کہا نی پھر وہی ذاتی توجہ۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے آج سے تقریباً پندرہ برس پہلے جب میں نے ’’بیلی پور‘‘ کے ویرانے المعروص ’’بنجر قدیم‘‘ پر قدم رکھا تو ملک معراج خالد مرحوم بھی تشریف لائے۔ دھرتی کے کھرے بیٹے تھے۔ اِدھر اُدھر کی گپ شپ کے بعد دھیمے دھیرے لہجے میں بولے… ’’مرشد! پھنس گئے ہو‘‘ میں نے پوچھا ’’وہ کیسے؟‘‘ تو کہا ’’کلراٹھی زمین ہے اور جانے کب سے بے آباد‘‘ میں نے عرض کیا ’’حضرت! کلراٹھی زمین کا مطلب یہ ہوا کہ ہے تو زمین ہی ناں، یہ ریت بھی ہوتی تو میں اسے سبزہ زار میں تبدیل کر دیتا۔ محبت انسانوں کے لیے ہی نہیں زمینوں کے لیے بھی فاتح عالم ہے۔ محبت اور محنت کبھی رائیگاں نہیں جاتی۔‘‘ ملک صاحب نے اتفاق کرتے ہوئے کہا… ’’بے شک لیکن کیا اتنا وقت نکال سکو گے؟‘‘ اگر اسے سنوارنا سجانا ہے تو وقت نکالنا ہوگا‘‘ اور پھر میں اپنی تمام تر ناتجربہ کاری اور اناڑی پن کے ساتھ ویرانے کو آباد کرنے میں مشغول ہو گیا۔ عقل اور تجربے کی ہی نہیں وسائل کی بھی کمی تھی لیکن کمٹمنٹ بے حساب اور بے تحاشہ تھی جس کا نتیجہ یہ ہے کہ وحشی ترین سردی اور جلا دینے والے کہرے کے باوجود ہمارے درخت، پودے، جھاڑیاں، بیلیں سینہ تان کر کھڑی اور موسم کی شدت کو شکست دینے میں کامیاب ہو جاتی ہیں۔ جونہی سردی کا زور ذرا کم ہوتا ہے… ہریالی زور پکڑنے لگتی ہے اور منظر تیزی سے تبدیل ہونے لگتا ہے سو ہمارے سہمے سڑے باغ میں بھرپور تبدیلی شروع ہو چکی ہے۔ مرجھائی، مری گھاس انگڑائی لے کر پھر بیدار ہو چکی، ننگ دھڑنگ درخت کومل کومل پاکیزہ کونپلیں نکال رہے ہیں، پھولوں نے خزاں کے خلاف بغاوت کر دی ہے اور میں سوچ رہا ہوں کہ اگر ایک اناڑی آدمی ایک بیکار قطعۂ اراضی کو اپنی محبت و محنت سے اس قابل بنا سکتا ہے تو پاکستان نامی اس قطعۂ اراضی کو بھی اگر کوئی ’’اپنا گھر‘‘ سمجھ لیتا، اسے بھی بھرپور محبت اور محنت مہیا کر دی جاتی تو اول یہ ملک کبھی دولخت نہ ہوتا اور اگر ہو بھی جاتا تو کم از کم بچے کھچے پاکستان کو ہی خوبصورتی سے سنبھال لیا جاتا لیکن یہاں تو بھیڑیا گیا تو باگھ آ گیا، باگھ گیا تو ریچھ آ گیا، ریچھ رخصت ہوا تو کوئی بدمست ہاتھی آ گیا اور وہ گیا تو کسی وحشی سانڈ نے ملک کو سینگوں پر اٹھا لیا اور یہ بھیانک کھیل اب تک جاری ہے۔ کیا اس ملک کے اہل خانہ واقعی اس ملک میں کسی ’’تبدیلی‘‘ کے خواہشمند نہیں؟ کیا پاکستان نامی اس گھر کے رہائشی قسم کھائے بیٹھے ہیں کہ انہوں نے اسی طرح مجبوریوں اور مفادات کی زنجیریں پہنے گھر کی بربادی کا آخری تماشہ دیکھنا ہے… نہ اس گھر کی عمارت بچانے کے لیے کچھ کرنا ہے نہ اس گھر کے درختوں، پودوں، جھاڑیوں، بیلوں اور گھاس میں خزاں کے خلاف کوئی مزاحمت پیدا کرنی ہے؟ پاکستان آئینوں کی دکان جیسا نازک، حساس اور فریجائیل ہو چکا ہے… ہو سکے تو اس الیکشن میں بدمست ہاتھیوں اور وحشی جنگلی سانڈوں کو یہاں سے نکال باہر پھینکو ورنہ کرچیاں سمیٹنے کی فرصت اور مہلت بھی نصیب نہ ہوگی، سب مجبوریاں اور مفادات مکافات کی بھینٹ چڑھ جائیں گے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved