تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     13-08-2017

مذاق کی بھی حد ہوتی ہے!

نواز شریف صاحب کی تقریریں سن کر سوچتا ہوں‘ انسان کے سیکھنے اور بڑا ہونے کا عمل کب رکتا ہے؟ شاید اس وقت جب انسان کتاب نہیں پڑھتا؟
ایک ٹی وی چینل پر ٹکر چل رہا تھا: جہاں نواز شریف کے لیے درجنوں ڈشز کا انتظام کیا گیا ہے‘ وہیں ان کے کمرے میں چند کتابیں بھی رکھ دی گئی ہیں۔ انہوں نے وفاقی وزیر خرم دستگیر کے ہاں ٹھہرنا تھا۔ خرم دستگیر کتاب دوست لگتے ہیں۔ شاید انہوں نے سوچا ہو گا کہ انسان کمرے میں اکیلا ہو اور ٹی وی سے اکتا جائے تو پہلی نظر وہاں رکھی کتاب پر پڑتی ہے‘ اس لئے چند کتابیں رکھ دی جائیں۔ لندن میں ضیاالدین صاحب، ارشد شریف اور میں نے ایک سال رپورٹنگ کرتے گزارا۔ روزانہ نہیں تو ہر دوسرے تیسرے روز نواز شریف سے دفتر میں ملاقات ہو جاتی تھی۔ میں نے کبھی ان کے ہاتھ میں، میز پر یا پورے دفتر میں کوئی ناول، کسی بڑے حکمران یا سیاستدان کی تصنیف یا کوئی اور کتاب نہیں دیکھی۔ آکسفورڈ سٹریٹ میں واقع ان کے دفتر کے قریب ہی باڈرز اور واٹر سٹونز کی کتابوں کی بڑی بڑی دکانیں تھیں۔ مجال ہے کبھی نواز شریف صاحب کو کسی بک سٹور کا رخ کرتے دیکھا ہو۔ ہاں بینظیر بھٹو کے ہاتھ میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور نظر آتی تھی۔ اس لیے جب یہ پڑھا کہ نواز شریف صاحب کے کمرے میں چند کتابیں بھی رکھوائی گئی ہیں تو میں ان کے گوجرانوالہ میں میزبانوں کی حسِ مزاح کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔ 
میرے خیال میں نواز شریف کے نہ بدلنے اور بار بار غلطیاں دہرانے کی سب سے بڑی وجہ ایک ہی ہے کہ نہ وہ مشکل حالات سے سیکھتے ہیں اور نہ ہی کتابوں سے۔ مان لیتے ہیں آپ جینئس پیدا ہوئے۔ آپ کو دوسروں کے نظریات‘ خیالات جاننے کی ضرورت نہیں۔ آپ بغیر گہرا مطالعہ کیے ملک کے تیسری دفعہ وزیر اعظم بن گئے تو پھر کیا ضرورت ہے کسی ادیب کو یا تاریخ کو پڑھنے کی اور ذہنی طور پر بڑے ہونے کی کوشش کرنے کی۔ جب آپ سیکھتے نہیں تو یقین کریں ملک کا تیسری دفعہ وزیر اعظم بن جانے کے باوجود آپ بڑے نہیں ہوتے۔ اس کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ ہمارے ذہن کا نہ صرف ارتقا رک جاتا ہے بلکہ ہمارے اندر نئے خیالات کو قبول کرنے کی صلاحیت بھی مفقود ہو جاتی ہے۔ 
پچھلے دنوں لندن کے ایک انگریزی اخبار نے برطانیہ کے سیاستدانوں کی ایک فہرست چھاپی کہ اس موسم گرما میں کون سا سیاستدان کتنی اور کون سی کتابیں پڑھے گا۔ وزیر اعظم سے لے کر اپوزیشن لیڈر تک سب نے بتایا تھا کہ انہوں نے کون سی کتابیں خرید لی ہیں۔ ہمارے ہاں صورتحال مختلف ہو گی۔ ویسے کوئی صحافی کیمرہ لے کر پارلیمنٹ کے دورازے پر سیاستدانوں سے پوچھنا شروع کر دے کہ آپ آج کل کون سی کتاب پڑھ رہے ہیں یا پچھلے ماہ کون سے پڑھی تھی؟ تو کیسا شغل ہو گا۔ شاید چند سینیٹرز ہی بتا سکیں گے جن میں رضا ربانی، شیری رحمن، صغریٰ امام ، فرحت اللہ بابر، اعتزاز احسن، مشاہد حسین شامل ہیں کیونکہ وہ کتابیں پڑھتے ہیں‘ ورنہ قومی اسمبلی میں مطالعہ کے شوقین نام ڈھونڈنے کے لیے خاصی محنت کرنی پڑے گی۔ یہ سوال سن کر شاید بہت سے عوامی نمائندے کیمرے کو ہاتھ سے ایک طرف ہٹا کر گزر جائیں کہ کیا احمقانہ سوال ہے۔ وہ سیاستدان ہمارے ان صحافی بھائیوں سے پوچھ لیں کہ آپ خود آج کل کون سا ناول، بائیوگرافی یا نئے آئیڈیاز پر مبنی کتاب پڑھ رہے ہیں تو ایک اور تماشہ ہو گا۔
نواز شریف صاحب ہمارے اس کلچر کی اعلیٰ مثال ہیں‘ جو کتاب نہیں پڑھتا اور تیس برس کی سیاست اور تین دفعہ وزیر اعظم بننے کے بعد بھی وہ معصومانہ انداز میں لوگوں سے پوچھ رہا ہے: میرا قصور کیا ہے؟ ان کے اس بھولے پن پر داد دینی پڑتی ہے۔ انہیں نہیں پتا وہ کیا کر رہے تھے؟ کیا واقعی انسان اتنا بھولا ہو سکتا ہے یا دوسروں کو بھولا بنانے کی اس حد تک جا کر کوشش کر سکتا ہے؟ 
چلیں ہمیں چھوڑیں‘ ان کے اپنے لگائے گئے وزیر اعظم نے پچھلے چند دنوں میں جو فیصلے کیے‘ ان سے نواز شریف صاحب کو نہیں لگتا کہ وہ خود کتنی غلط راہ پر چل رہے تھے اور ان کے اپنے ہی بندے ان کے فیصلوں سے اتفاق نہیں کرتے تھے۔ باقی چھوڑیں کابینہ ہی غلط بنائی ہوئی تھی لہٰذا نئی کابینہ میں نئے وزرا لائے گئے اور کچھ کی وزارتیں تبدیل کی گئیں۔ شاہد خاقان عباسی نے جو بڑا فیصلہ کیا‘ یہ ہے کہ اسحاق ڈار سے کابینہ کی رکنیت کے بعد سب سے اہم کمیٹی اکنامک کوآرڈینیشن کی صدارت بھی واپس لے لی ہے۔ اس سے کیا اندازہ ہوتا ہے؟
یہ معمولی فیصلہ نہیں ہے کیونکہ ای سی سی وہ کمیٹی ہے جو سب سے اہم فیصلے کرتی ہے۔ اسحاق ڈار نے اس فورم کو خوب استعمال کیا اور اس حد تک کیا کہ ایک دن سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ثاقب نثار صاحب کو کہنا پڑ گیا کہ جناب جو فیصلے ای سی سی کر رہی ہے ان کی منظوری کابینہ سے لینا ضروری ہے۔ لیکن کیسی کابینہ اور کون سی منظوری؟ کیونکہ کابینہ کا اجلاس تو چھ چھ ماہ تک ہوتا ہی نہیں تھا۔ اسحاق ڈار ہی وزیر اعظم بنے ہوئے تھے۔ اب اسحاق ڈار کو ہٹانے سے یہ بات ثابت ہوئی ہے کہ شاہد خاقان عباسی کچھ ہٹ کر کرنا چاہتے ہیں۔ جس طرح کی حکومت اسحاق ڈار کر رہے تھے شاید وہ اب کھل کر نہ کر سکیں۔ یہ ڈار صاحب کا ہی کرشمہ تھا کہ انہوں نے اپنے وزیر خزانہ بننے کے بعد دو ہفتے کے اندر اندر آئی پی پیز کو 480 ارب روپے کی ادائیگی ایک فون کال پر کرائی‘ اور کوئی آڈٹ، یا بلوں کو چیک کرنے کی زحمت تک نہیں کی گئی۔ اس سے ملک کو 190 ارب روپے کا نقصان ہوا۔ وہی ڈار صاحب نیویارک سے پانچ سو ملین ڈالرز کا دنیا کا مہنگا ترین قرضہ لے کر آئے۔ ان پانچ سو ملین ڈالرز پر پاکستان چار سو دس ملین ڈالرز کا سود ادا کرے گا۔ وہی اسحاق ڈار چار برسوں میں 35 ارب ڈالرز کا قرضہ لے کر آئے۔ ایکسپورٹس بڑھانے اور پاکستانی ورکرز باہر بھیجنے کے بجائے ان سب نے قرضہ لینے کا کلچر متعارف کرایا۔ اور تو اور چین بھی ہمیں کمرشل مہنگے قرضے دیتا ہے اور اب تو رسک کے نام پر تین فیصد کے لگ بھگ مزید سود بھی لے رہا ہے۔ اسے خطرہ ہے کہ پاکستان کو قرضہ دینا رسک ہے لہٰذا سود میں رسک سود بھی ڈال دیا گیا ہے۔ڈار صاحب نے اکانومی کو جو نقصان پہنچایا‘ اس کا ہم سے زیادہ شاہد خاقان عباسی کو اندازہ ہو گیا‘ لہٰذا انہوں نے انہیں ای سی سی سے فارغ کر دیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا شاہد خاقان عباسی نے اسحاق ڈار سے ای سی سی کی سربراہی ملکی مفاد میں واپس لی ہے اور اب کارپوریٹ سیکٹر کے کامیاب برنس مین کی طرح خود انقلابی فیصلے کریں گے یا پھر وہ بھی وہیں سے شروع کریں گے جہاں سے ڈار صاحب نے ای سی سی کو چھوڑا تھا؟ وہ خود ابھی تک قوم کو قطر سے مہنگی ایل این جی اور کراچی میں ایل این جی ٹرمینل پر ہونے والی مشکوک ڈیل پر قوم کو مطمئن نہیں کر سکے۔ قوم ابھی تک سکتے کی حالت میں ہے کہ بھلا کیسے ایک پرائیویٹ کمپنی کو ایسی ڈیل دی جا سکتی ہے‘ جو کوئی کام بھی نہ کرے اور روزانہ اسے دو لاکھ بہتر ہزار ڈالر پاکستانی قوم کی جیب سے ادا کیے جاتے رہیں۔
باقی جہاں تک نواز شریف صاحب کے معصومانہ سوالوں کی بات ہے تو اس بارے میں یہی عرض ہے کہ انہیں تین دفعہ برطرف کیا گیا۔ پہلے صدر، پھر آرمی چیف اور اب عدلیہ نے گھر بھیجا ہے تو نواز شریف اور ان کے حواری دل چھوٹا نہ کریں‘ انہوں نے بھی ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ نواز شریف نے بھی دو صدور... غلام اسحاق خان اور فاروق لغاری... کو گھر بھیجا۔ آرمی چیف جنرل کرامت سے استعفا لیا اور جنرل مشرف کو برطرف کیا۔ علاوہ ازیں چیف جسٹس سجاد علی شاہ کو بھی گھر بھجوایا۔ اگر دیکھا جائے تو نواز شریف تین دفعہ برطرف ہوئے لیکن وہ بھی دو صدور، دو آرمی چیف، ایک چیف جسٹس کو گھر بھیج چکے ہیں۔ اس لیے دل چھوٹا نہ کریں، اس کھیل میں سکور آپ کا بھی کچھ کم نہیں ہے‘ بلکہ آپ دو پوائنٹس عدلیہ اور آرمی سے آگے ہیں۔
چھوڑیں ان سب باتوں کو، آئیں سب مل کر ایک دفعہ پھر گوجرانوالہ کے میزبان کے ''حس مزاح‘‘ کو داد دیں‘ جس نینواز شریف صاحب کے لیے دال گوشت، آلو گوشت، پائے، مٹن قورمہ، دیسی مرغی، چڑے، باربی کیو، کھیر، کسٹرڈ کے اہتمام کے ساتھ کمرے میں چندکتابیں بھی رکھوا دیں۔
لوگ بھی موقع محل دیکھے بغیر کیا کیا مذاق کر گزرتے ہیں۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved