گوجرانوالہ کے ساتھیو! اتنے بڑے استقبال کو دیکھ کر میں بہت خوش ہوں۔ یہ خوشی اس لیے بھی ہے کہ آپ میں سے اکثر کشمیری یعنی میری برادری ہی سے ہیں۔ مزید خوشی مجھے یہ دیکھ کر ہوئی ہے کہ گوجرانوالہ کے پہلوان حضرات بھی میرے استقبال کے لئے آئے ہوئے ہیں یاد رہے کہ ہمارا بھی پہلوانوں کا خاندان ہے میں تو جوانی تک خود بھی پہلوانی کرتا رہا ہوں اور میں نے ایک گُرز بھی خرید کر رکھا ہوا تھا اور پہلوانی کے سارے دائو پیج مجھے اب بھی یاد ہیں۔ میں نے جنرل مشرف کو دھوبی پٹڑا مارنے کی کوشش کی تھی لیکن اس نے کلاجنگ لگا کر مجھے بے بس کر دیا۔ اگر جنرل جیلانی نے مجھے وزیر خزانہ پنجاب بنا کر سیاست میں دھکا نہ دیا ہوتا تو میں اب تک رستم زماں بن چکا ہوتا۔ یہ جان کر اور بھی خوشی ہوئی ہے کہ میرے لیے تیار کی گئی ڈشنز میں چڑوں کی ڈش بھی شامل ہے۔ میں نے سنا ہے کہ آپ نے کھا کھا کر سارے کے سارے چڑے ختم کر دیئے ہیں اور اب بیوہ چڑیاں ہی باقی رہ گئی ہوں گی اس لیے خدشہ ہے کہ چڑیاں کھا کر میں بھی چوں چوں نہ کرتا پھروں‘ ہیں جی؟
آپ نے دیکھا کہ 70 سال سے ملک کے ساتھ مذاق ہو رہا ہے اور اس مذاق پر میں ہنس ہنس کر دوہرا ہو ہو جاتا ہوں کیونکہ مذاق پر نہ ہنسنا بھی بدذوقی کی نشانی ہے۔ نااہلی کے بعد مجھے اکثر سربراہان مملکت کے فون آئے۔ سبھی کہہ رہے تھے کہ ہم کیا کر سکتے ہیں۔ آپ کے کام ہی ایسے تھے۔ ہور چُوپو! میں حیران ہوں کہ یہ ہور چُوپو والا محاورہ انہیں کہاں سے معلوم ہوا یقیناً یہ ہمارے سفارت کاروں کی کارستانی ہے‘ میں پاکستان کا وفادار ہوں۔ کیا میں غدار ہوں؟ مودی صاحب کے ساتھ دوستی سے بڑھ کر اور حب الوطنی کیا ہو سکتی ہے۔ میں نے کونسی حرام کی کمائی کی؟ مجھے تو ساری تفصیل یاد نہیں‘ شاید آپ کو معلوم ہو۔ میں اور آپ تاریخ بدلنے کے لئے آئے ہیں۔ ابھی گھر جا کر لکھ لیں کہ آج اگست کی گیارہ تاریخ ہے میں آپ سے نااہلی کی وجہ پوچھتا ہوں‘ اگرچہ مجھے اچھی طرح سے پتا ہے لیکن پوچھنے میں کیا حرج ہے آخر آدمی پوچھ پوچھ کر ہی تجربہ حاصل کرتا ہے‘ نہ جانے کون لوگ ہیں جو مولوی کے پیچھے لگ جاتے ہیں‘ ایسا لگتا ہے کہ وہ میرے پیچھے لگ جانے والوں سے بھی گئے گزرے ہیں۔ کیا آپ میرا ساتھ دیں گے؟ چھ سات ماہ تک تو دے ہی سکتے ہیں جس کے بعد ریفرنسوں کا فیصلہ ہو جانا ہے اور پھر یہ آپ کے لئے ممکن ہی نہیں رہنا۔ کیا تم لوگوں نے فیصلہ قبول کیا ہے؟ اگر نہیں کیا تو پھر سپریم کورٹ یہاں سے کتنی دور ہے؟ نوازشریف گھر میں بیٹھنے والا نہیں ہے۔ لیکن ظالموں نے چند ماہ بعد مجھے گھر میں بھی کب بیٹھنے دینا ہے۔ میں پاکستان کی عزت اور وقار بحال کرنے آیا ہوں جس میں میں نے بے پناہ اضافہ کر رکھا تھا۔ مجھے اس لیے نکالا گیا کہ پاکستان ترقی کر رہا تھا جس کا اعتراف غیر ملکی اداروں نے بھی کیا ہے اور جس پر ہمارا کافی پیسہ بھی خرچ ہوا ہے کیونکہ کوئی مفت میں کسی کا اعتراف نہیں کرتا۔ ایک معصوم آدمی کو چند منٹوں میں فارغ کر دیا گیا۔ کیا میں شکل سے
معصوم نہیں لگتا؟ اور معصوم شکل بنانا بھی کوئی آسان کام نہیں بلکہ اس کے لیے طویل ریہرسل کرنی پڑتی ہے اور کافی محنت بھی۔ اور آپ جانتے ہیں کہ میں کافی محنت کرنے والا آدمی ہوں اور ماشاء اللہ اس قدر اثاثے محنت کے بغیر کیسے بنائے جا سکتے تھے۔ میں آپ کو اپنا پروگرام دوں گا۔ کیا اس پر چلو گے؟ اور یہ پروگرام بھی مجھے جلدی ہی دینا پڑے گا کیونکہ میرے پاس مہلت بھی کچھ زیادہ نہیں ہے۔ میرے پیغام کا انتظار کرنا اور یہ انتظار کچھ اتنا زیادہ بھی نہیں ہو گا۔ گوجرانوالہ کے ساتھیو! جب تک میں پاکستان کو اصلی پاکستان نہیں بنا دیتا چین سے نہیں بیٹھوں گا بلکہ اس وقت تک کھڑا رہوں گا مجھے بہت خوشی ہوئی ہے کہ مجھے قائد پاکستان کا خطاب دیا گیا ہے‘ قائداعظم ثانی تو میں پہلے ہی تھا جبکہ مجھ میں قائد عالم بننے کی صلاحیتیں بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہیں لیکن بھرتے وقت وہ کچھ زیادہ ہی کوٹ دی گئی تھیں اس لیے وہ اپنا اثر نہیں دکھا رہیں۔ بھائیو اور بہنو مجھ سے اچھی طرح بولا نہیں جا رہا کیونکہ چڑوں کے تصور میں میرے منہ میں پانی بھرا ہوا ہے اور مجھے بھوک نے بھی ستانا شروع کر دیا ہے۔ اس لیے خدا حافظ!
اور‘ اب آخر میں خانہ پُری کے طور پر یہ تازہ غزل :
آخر کسی جگہ پہ ٹھہرنا تو ہے مجھے
کیا جمع ہو رہا ہوں‘ بکھرنا تو ہے مجھے
اُس کو پُکارنا ہے‘ وہ سُنتا ہے یا نہیں
یہ میرا کام ہے‘ اسے کرنا تو ہے مجھے
میں جانتا ہوں یہ کہیں جاتے نہیں‘ مگر
بے نام راستوں سے گزرنا تو ہے مجھے
میرے کئے ہوئے کو جو بھرتا ہے کوئی اور
اووروں کا یہ کیا ہوا بھرنا تو ہے مجھے
میں تاکہ دیکھ پائوں مری اصلیت ہے کیا
اپنی بلندیوں سے اُترنا تو ہے مجھے
میں ڈوب ہی چکا ہوں‘ مگر سطح آب پر
ایک آدھ بار پھر بھی ابھرنا تو ہے مجھے
ڈرتے ہی ڈرتے کر لیا کرتا ہوں سارے کام
ڈر ہے مرے خمیر میں‘ ڈرنا تو ہے مجھے
جتنا بھی دل پسند ہوں دنیاکو ایک دن
اپنے کیے ہوئے سے مکرنا تو ہے مجھے
ناکام ہو گیا ہوں تو ہونا ہی تھا ظفرؔ
الزام اب کسی پہ یہ دھرنا تو ہے مجھے
آج کا مقطع
جلسہ ء ناز میں ظفر کیسے اکھڑ گئی ہوا
آپ ہی کچھ بتائیے‘ آپ تو سر کے بل گئے