تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     14-08-2017

انقلاب

انقلاب کا راگ میاں محمد نواز شریف کو گانے دیجئے۔ ہمیں زیادہ سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔
ایک بچہ بادشاہ کی بگھی تلے کچلا گیا تو انقلابِ فرانس کی نیو اٹھائی گئی۔ مراکش میں ایک خوانچہ فروش نے خود سوزی کی تو عرب بہار کی ہوا چلی۔ کیا لالہ موسیٰ کے بارہ سالہ حامد کی المناک موت سے پاکستان میں کوئی لہر اٹھ سکتی ہے؟۔
شاید نہیں‘ ہم حادثات کے خوگر ہیں۔ ہماری کھالیں موٹی ہیں۔ صدیوں سے ہم تماش بین چلے آتے ہیں... ٹی وی مباحثوں کے عادی ہو جانے کے بعد‘ شاید اب کچھ اور زیادہ۔
فرض کیجئے‘ یہ اندازہ غلط ہو۔ فرض کیجئے‘ اس طرح کے کچھ حادثات واقعی آگ بھڑکا دیں‘ تو اس سے کیا حاصل؟ انقلاب فرانس میں خون بہا اور برسوں بہتا رہا۔ فرانسیسی قوم کو اس سے کیا ملا؟ پچھلی صدی کے اوائل میں روس میں اشتراکی انقلاب برپا ہوا۔ کروڑوں زندگیاں‘ یہ انقلاب ہڑپ کر گیا۔ زار سے زیادہ اشتراکی حکمرانوں کے ہاتھوں‘ آدمیوں کو جو بھوسا سمجھتے تھے۔ پوری کی پوری آبادیاں اکھاڑ کر سائبیریا کے برف زار میں پھینک دی گئیں۔ وسطی ایشیا کی ریاستوں میں‘ کمیونسٹوں نے چلّو بھر بھر کر مسلمانوں کا خون پیا۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ خود روسیوں کی زندگی میں کیا تبدیلی آئی۔ صدیوں تک شہنشاہوں کی رعایا رہے‘ اب کون سی آزادیاں حاصل ہوئیں؟
ایک کروڑ انسان انقلابِ چین کی نذر ہوئے۔ ربع صدی تک‘ عوامی جمہوریہ چین غربت کی چکی میں پستا رہا۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیب نے اس پستی کو چھوا کہ آدمیت ہمیشہ ماتم کرتی رہے گی۔ ہم‘ پاکستانی‘ چین کو اپنا سب سے زیادہ قریبی دوست اور نفسیاتی سہارا سمجھتے ہیں۔ چینی معاشرے کا غیر جانبدارانہ تجزیہ ہم نے کبھی نہ کیا۔ اگر کوئی چین گیا بھی تو ہمارے تاجر۔ اہل علم نے کبھی اس دیار کا رخ نہ کیا۔ اب بھی ہمارے لئے وہ کہانیوں کی سرزمین ہے۔ اشتراکی پرچم تلے‘ چینی عوام آہنی گرفت میں جئے۔ خفیہ ایجنیسوں کا جال ایسا کہ پاکستان میں اس کا تصور بھی ممکن نہیں۔ آسودہ طبقات کی دولت اور جائیداد چھین لینے پر ہی اکتفا نہ کیا گیا۔ نفرت کی خو بھی بروئے کار رہی۔ ایسی کہ آدمی کی روح لرز اٹھتی ہے۔ چین کی معاشی ترقی کا آغاز‘ مائوزے تنگ کی موت کے بعد ڈنگ سیائو پنگ کے دور میں ہوا‘ بتدریج حق ملکیت جب بحال کیا گیا۔
انقلاب ایران کا غلغلہ ہمارے ہاں بہت تھا۔ ایران کے بعد‘ شاید سب سے زیادہ۔ اسلامی انقلاب اسے کہا گیا۔ 1979ء کے اواخر میں دنیا بھر کی اسلامی تحریکوں کے قائدین‘ جماعت اسلامی پاکستان کے امیر میاں طفیل محمد کی قیادت میں‘ تہران پہنچے۔ قم میں امام خمینی سے انہوں نے ملاقات کی اور ہر طرح کے تعاون کا یقین دلایا۔ ان ماہرین کا‘ فارس کے انقلابی‘ جس کی ضرورت محسوس کرتے۔ حسن ظن مدتوں قائم رہا اور اس کی وجوہات تھیں۔ ملوکیت کا خاتمہ‘ استعمار دشمنی اور خمینی کے بعض مثبت اقدامات۔ اس عالم میں انہوں نے اقتدار سنبھالا تھا کہ ایران کی تب اڑھائی کروڑ آبادی میں سے‘ بیس تیس لاکھ تہران کی سڑکوں پر امڈ آئے تھے۔ ردِّ انقلاب قوتوں نے مغرب کی مدد سے‘ انہیں اکھاڑ پھینکنے کی کوشش کی‘ چنانچہ عالم اسلام میں بہت سوں کی ہمدردیاں ان کے ساتھ تھیں۔ تشدد کی ہر لہر‘ خصوصاً ایرانی پارلیمنٹ کو عین اجلاس کے دوران دھماکے سے اڑا دینے والے المناک واقعہ کے بعد‘ ہمدردی میں اضافہ ہوتا رہا۔ صدام حسین کے حملے نے‘ جو ایک سفاک فرقہ پرست تھے‘ اس لہر کو اور بھی مہمیز کیا۔
ایک روز ملک کے منتخب سربراہ بنی صدر اچانک ملک سے فرار ہوئے تو شکوک و شبہات نے جنم لیا۔ مگرانقلاب کا بخار باقی تھا؛ چنانچہ‘ پاکستان کی حد تک حسن ظن میں کمی نہ آئی۔ رفتہ رفتہ مگر اس انقلاب کے نقاب اترتے گئے۔ آئے دن‘ پاکستان سے ایران کا رخ کرنے والوں میں سے‘ چند ایک نے کچھ سوالات اٹھائے۔ انقلاب کے حامی‘ جن کا جواب نہ دے سکے۔
مثال کے طور پر ''تکبیر‘‘ کے مرحوم دلاور مدیر صلاح الدین نے اعتراض کیا کہ عدالتی نظام ناقص ہے۔ عدل عطا کرنے کی استعداد سے یکسر محروم۔ بتدریج یہ کھلا کہ ایک ظالم حکمران طبقے کی جگہ جو بادشاہت کے طویل ادوار میں پروان چڑھا‘ ایک دوسرے گروہ نے لے لی ہے۔ نیچے سے اوپر تک‘ یہ گرفت ایسی مضبوط ہے کہ اختلاف کرنے والوں کیلئے سانس لینا بھی دوبھر ہے۔
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ عربوں نے‘ ان کے ساتھ زیادتی کی تھی‘ جو کسی ادنیٰ جواز کے بغیر‘ ایران پہ حملہ آور ہوئے اور اس کے نتیجے میں دونوں ملکوں کی معیشت کو کم از کم دو ہزار ارب ڈالر کا نقصان پہنچا۔ لاکھوں ہلاکتیں اس کے سوا تھیں‘ صدیوں سے چلی آتی‘ عرب ایران مخاصمت کو اور بھی گہرا کر دیا۔ اس کی فرقہ وارانہ جہت نے مشرق وسطیٰ کے تقریباً تمام ممالک میں بے چینی پیدا کی۔ شام‘ بحرین اور یمن میں‘ جس کے المناک اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ دونوں ہی قصوروار تھے‘ عرب شاید زیادہ کہ نسلی مخاصمت کے علاوہ‘ مغرب کی پشت پناہی سے‘ وہ اس انقلاب کے مخالف تھے۔ مگر خود ایرانیوں نے اپنے ساتھ کیا کیا؟ مذہبی طبقات کے سوا ہر آدمی مشکوک ٹھہرا۔ ساری دنیا سے کٹ جانے کی وجہ سے ایک طرف قدیم سے چلی آتی ایرانی قوم پرستی اور بھی شدت اختیار کر گئی۔ دوسری طرف غربت و فلاکت نے‘ ڈیرے ڈال دئیے۔ مغرب ہی نہیں‘ عالم اسلام سے بھی ایران کٹ کر رہ گیا۔ اسی بنا پر وہ بھارت‘ روس اور چین ایسے ممالک کی طرف متوجہ ہوا۔ ان کے ساتھ گہرے ربط و ضبط نے ایرانی سماج پر منفی اثرات ہی مرتب کئے۔ بدگمانی کی زندگی‘ کوئی زندگی نہیں ہوتی۔ یہ خود ترحمی پیدا کرتی‘ مایوسی میں مبتلا کرتی اور منفی انداز فکر کو راسخ کر دیتی ہے۔
مئی 2013ء میں ایران جانے کا موقعہ ملا تو حالات کو اندازوں سے کہیں زیادہ مایوس کن پایا۔ مذہبی طبقے کی اجارہ داری الگ‘ ایرانی قوم پرستی کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔ بول نہیں‘چیخ رہا تھا۔ خون ہی نہیں‘ ہڈیوں تک میں سرایت کر گیا ہے۔ مشہد سے پرے‘ جہاں امام رضاؒ کا روضہ مرجع عام ہے‘ شاہنامہ کے مصنف فردوسی کی آخری آرام گاہ تک ہم لے جائے گئے۔ مسافر کیلئے یہ خوابوں کی سرزمین تھی۔
امام غزالیؒ نے زندگی کے آخری برس یہاں بتائے تھے۔ وہ آدمی‘ جس نے تن تنہا‘ یونانی فلسفے کے چاروں طرف پھیلتے اثرات کا مقابلہ کیا۔ تہافتہ الفلسفہ اور احیاء العلوم کے عنوان سے‘ جس نے وہ کتابیں لکھیں‘ آج بھی اہل علم‘ جن کے محتاج ہیں۔ احیاء العلوم‘ فارسی زبان میں لکھی جانے والی‘ ان کی پہلی کتاب تھی۔ کہا جاتا ہے کہ اسلامی علوم کا تمام خزانہ‘ خدانخواستہ دریا برد ہو جائے تو اس کتاب کی مدد سے‘ اس کی تشکیل نو ممکن ہے۔ اعتراضات بھی ان پہ کئے جاتے ہیں اور کیوں نہ کئے جائیں۔ ایسا عظیم مفکر کہ ایک صدی تک جس کا علم لہراتا رہا‘ تنقیدی مطالعے کا مستحق بھی تھا۔ باایں ہمہ کسی بھی سرزمین کیلئے وہ باعث فخر ہوتا۔ مسلمان ہی نہیں‘ مغرب کے کسی ملک میں بھی پیدا ہوا ہوتا تو اس کی یادگاریں قائم کی جاتیں۔ اس کی شخصیت کے ایک ایک پہلو پر تحقیق کی جاتی۔ آخر وہی تو تھا‘ عشروں تک آکسفرڈ یونیورسٹی میں جو پڑھا گیا۔ مغرب کی نشاۃِ ثانیہ میں‘ جس کے کردار کا آج بھی اعتراف کیا جاتا ہے۔
مسافر حیرت زدہ رہ گیا‘ جب اس نے پایا کہ کسی بھی پڑھے لکھے ایرانی کو غزالیؒ کے مرقد کا پتہ معلوم نہیں۔ مرقد کیا‘ وہ اس کے نام ہی سے واقف نہ تھے۔ یاللعجب‘ ایرانی علماء کو دوسروں سے زیادہ تعلیم یافتہ مانا جاتا ہے۔ ملک میں ان کی حکومت ہے۔ اس حکومت کو مٹی اوڑھ کر سونے والے درویش سے اندیشہ کیا ہے؟
نہیں‘ انقلاب نہیں‘ قوموں اور معاشروں کو تعلیم کی ضرورت ہوتی ہے۔ اخلاقی تربیت‘ رواداری اور اداروں کی۔ ذہنی اور فکری بالیدگی کی۔ انقلاب کا راگ میاں محمد نواز شریف کو گانے دیجئے۔ ہمیں زیادہ سنجیدگی سے غوروفکر کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved