تحریر : مفتی منیب الرحمٰن تاریخ اشاعت     14-08-2017

ہم کہ آزاد قوم ہیں

الحمد للہ علیٰ احسانہٖ! ہم ایک آزاد قوم ہیں ،اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک آزاد اور خود مختار وطن کی نعمت سے نوازا ہے۔ ہمارا اپنا ایک دستور اورایک نظام ریاست وحکومت ہے ۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے ہمارے وطنِ عزیز کو ایک غیر معمولی محلِّ وقوع سے نوازا ہے،اس لیے دنیا کی بڑی طاقتیں پاکستان کو یکسر نظر انداز نہیں کرسکتیں ۔ہم دنیا کی ساتویں اور مسلم ممالک کی پہلی ایٹمی قوت ہیں ۔ ہمارے مایہ ناز ایٹمی سائنسدان جناب ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دعویٰ ہے کہ ہماری ایٹمی اور میزائل ٹیکنالوجی ہمارے حریف ملک بھارت سے بہتر اور برتر ہے ۔ہم کافی حد تک اپنے لیے دفاعی سامانِ حرب تیار کر رہے ہیں اور برآمد بھی کر رہے ہیں ۔ہم نے چین کے اشتراک سے JF17تھنڈر فائٹر جیٹ بنایا۔ہم نے ''الخالد‘‘ اور'' الضرار‘‘ٹینک بھی بنایا ہے۔پاکستانی فوج افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں ساتویں نمبر پر ہے اور ہمارا دعویٰ ہے کہ پیشہ ورانہ تربیت ،عزم وحوصلے ،جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت کے اعتبار سے ہم اپنے حریف ملک کے مقابلے میں بہت آگے ہیں ۔ ہماری قوم ذہانت کے اعتبار سے بھی مسلّم ہے ،امریکی اور مغربی ممالک میں ہمارے اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگ باعزت شعبوں سے وابستہ ہیں ،ہمارے نوجوان عزم ، ولولہ اور ذہانت سے معمور ہیں ۔
ہمارے وطنِ عزیز میں موسموں ،پھلوں ،زرعی اجناس، ریگستانوں ، زرخیزنہری وبارانی زمینوںاور بلندوبالا پہاڑوں کے اعتبار سے کافی تنوُّع ہے۔پاکستان میں اگر مکمل امن وامان قائم ہوجائے اورآمد ورفت کے ذرائع ترقی یافتہ ممالک کے معیار پر آجائیں ،ہوٹلنگ کی صنعت ترقی یافتہ ہوجائے، تو ہمارے ملک کے بہت سے علاقے بالخصوص سوات، ہزارہ ، آزاد کشمیر اور شمالی علاقہ جات سیاحوں کے لیے انتہائی پرکشش ہیں ۔ہمارا نہری نظام بہت اچھا ہے، ہمارے زرعی اجناس بالخصوص کپاس ،چاول اور پھلوں کو جدید طریقوں سے پروسیس کر کے ویلیو ایڈیڈبنایا جائے ، تو ہم کافی زرِ مبادلہ کما سکتے ہیں ۔ ہمارے ہاں موسم اورزمینی حالات مویشی بانی کے لیے بہت سازگار ہیں،ہم اپنی داخلی ضرورت پوری کر کے بڑے پیمانے پر برآمد بھی کرسکتے ہیں، برآمد کنندہ کو مویشی فراہم کرنے والے ایک تاجر نے بتایا کہ مشرقِ وسطیٰ ،ایران اور افغانستان میں ہمارا گوشت زیادہ پسند کیا جاتا ہے۔ اگر ان شعبوں کو ریاستی اور حکومتی سرپرستی حاصل ہو تو ہم کافی ترقی کرسکتے ہیں،کیونکہ اب یورپی ممالک میں کیمیاوی غذائوں کے سبب انڈوں میں بھی کیڑے نکل رہے ہیں۔ ہمارے حریف ملک بھارت نے کمپیوٹر کی سافٹ ویئر انڈسٹری کو کافی ترقی دی ہے ،بالخصوص بنگلوراس کا بہت بڑا مرکز ہے ، اگر ہمارے نوجوانوں کو جدید کمپیوٹر وسافٹ ویئر کی تربیت دی جائے، سہولتیں فراہم کی جائیں تو ان شعبوں میں بھی ہم کافی ترقی کرسکتے ہیں،نادراسافٹ ویئراسی شعبے میں ہماری مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ترقی پذیر ممالک میں موٹرویز کے اعتبار سے اب ہم کافی آگے نکل چکے ہیں اور سی پیک کی تکمیل کے بعدشایدسرِ فہرست آجائیں۔الغرض پاکستان میں امکانی استعداداور مواقع بہت ہیں۔کاش کہ ہم ان سے پوری استعداد کے مطابق فائدہ اٹھاسکیں۔ 
ہمارے منفی پہلو بھی بہت ہیں ،ہم اگرچہ جسمانی اور جغرافیائی طور پر آزاد ہیں، لیکن ذہنی و فکری آزادی اور معاشی خود کفالت کی معراج تاحال حاصل نہیں کر پائے۔ہمارے ہاں دستوری وجمہوری نظام کا تسلسل نہیں رہا ،ہم ہمیشہ شکست وریخت سے دوچار رہتے ہیں ،ہم وقفے وقفے سے فوجی حکمرانی اور جمہوریت کے تجربات کرتے رہتے ہیں ،لیکن بحیثیت قوم ہمارے مزاج میں قرار وسکون اور استقلال نہیں ہے ،ہم چند سال میں ایک طرح کے نظام سے بیزار ہوجاتے ہیں ، تبدیلی کی خواہش کرنے لگتے ہیں اور پھر اس تبدیل شدہ ڈھانچے سے بھی جلد اکتا جاتے ہیں ۔اس کا نتیجہ یہ ہے کہ دنیا کے لیے ہم پر اعتماد کرنا دشوار ہے ،دنیا کو پتا نہیں کہ ہمارا آنے والا کل کیسا ہوگا ،لہٰذا ہم سے دیرپامعاملات کرنے میںانہیں دشواری ہے۔ہم نے امریکہ اوریورپ کو شروع ہی سے دوست بنایا، سیٹواورسینٹوایسے معاہدات میں امریکہ کے طفیلی بن گئے ،اس کے نتیجے میں ہم امکانات سے پورے فوائد نہ اٹھاسکے اور امریکہ اور مغرب پر انحصار نے ہمیں مکمل خود کفالت سے محروم رکھا۔اب بھی ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اتحادی اور نیٹو کے غیر رکن حلیف ہیں ۔لیکن حال یہ ہے کہ نہ امریکہ اور اہلِ مغرب کو ہم پر اور نہ ہمیں ان پر اعتماد ہے ،لہٰذا اقوام عالم کے ساتھ اپنی قُربتوں اور دوستیوں کو نباہنے کے لیے ہم بے اعتمادی کی تنی ہوئی نازک رسّی پر چل رہے ہیں ۔کبھی وہ ہمیں پیار چمکارسے نوازتے ہیں اور کبھی اپنی اطاعت سے روگردانی کی صورت میں دھونس ، دھمکی اور بدتر نتائج سے ڈراتے ہیں۔
بھارت تو ہمارا روزِ اول سے دشمن ہے، کشمیر کا تنازع دونوں کے درمیان دائمی وجہِ نزاع ہے اور اُس کے فوجی حل کے بظاہر آثار نہیں ہیں اور پرامن حل کے لیے کسی قیمت پر بھارت تیار نہیں ہے ۔ ماضی میں بھارت امریکہ سے دوراور سوویت یونین کے نہایت قریب تھا ۔ بحیثیت مجموعی بھارت کا اسلحہ روسی ساخت کا تھا ،جزوی طور پر مغربی اسلحہ بھی اس کے ذخیرے میں رہا ۔لیکن اب چین کا حریف ، بڑی معیشت اوربڑی مارکیٹ ہونے کی وجہ سے وہ امریکہ اور مغرب کا منظورِ نظر ہے۔امریکہ ہمارا حلیف ہونے کے باوجود ہمیں F16 جیٹ فائٹر اور دیگر جدید اسلحہ دینے پر تیار نہیں ہے ،جب کہ بھارت کو وہ یہی اور اس سے بھی جدید اسلحہ ٹیکنالوجی سمیت فروخت کرنے کے لیے تیار ہے۔طالبان کے دور کے علاوہ افغانستان سے ہمارے تعلقات کبھی خوشگوار نہیں رہے ،اس کا جھکائو ہمیشہ بھارت کی طرف رہا ہے ۔ایران سے بھی ہمارے اقتصادی تعلقات کبھی اعلیٰ سطح کے نہیں رہے اور نہ ہی دوطرفہ تجارت کا حجم مُعتَد بہ سطح تک پہنچ پایا ،لیکن اب ہم ایران کے ساتھ تنائو اور بے اعتمادی کے دور سے گزر رہے ہیں اور متحدہ عرب امارات سے بھی پہلے جیسے تعلقات نہیں ہیں۔
مشرقِ وُسطیٰ میں سعودی عرب کا ایران وشام اور اب قطر کے ساتھ تنائو انتہائی حدوں کو چھورہا ہے اور اس کی وجہ سے ہماری پوزیشن ڈانواں ڈول ہے،جب کہ بھارت بیک وقت باہم متصادِم اور محاذ آراء اِن ممالک کے ساتھ اپنے تعلقات کو اعلیٰ سطح پر قائم رکھے ہوئے ہے۔اس کے برعکس سعودی عرب کاہم سے عَلانیہ یا غیر عَلانیہ مطالبہ ہے کہ ایران کو چھوڑ کر ہمارے کیمپ میں آجائو ، جبکہ ہم اس مطالبے پر پورا اترنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں،کیونکہ ایران ہمارا قریب ترین ہمسایہ ہے اور اُسے ہم پر اعتماد بھی نہیں ہے۔علامہ اقبال نے اپنی نظم ''فریادِ امت‘‘میں جو کچھ لکھا ہے،آج ہم اس کا مصداق ہیں:
رند کہتا ہے ولی مجھ کو ، ولی ، رند مجھے
سن کے ان دونوں کی تقریر کو حیراں ہوں میں
زاہدِ تنگ نظر نے مجھے کافر جانا
اور کافر یہ سمجھتا ہے مسلماں ہوں میں
کوئی کہتا ہے کہ اقبال ہے صوفی مَشرَب
کوئی سمجھا ہے کہ شیدائے حَسیناں ہوں میں
ظاہری ٹھہرائو کے باوجود داخلی طور پر ہم معاشی عدمِ استحکام ،سیاسی افراتفری اور اضطراب کے دور سے گزر رہے ہیں۔ہمارے جمہوری نظام میں شامل سیاسی رہنمائوں کے درمیان نفرتیں انتہا پر ہیں ،ایک دوسرے کی بے توقیری اور تحقیر وتضحیک اُن کا من پسند مشغلہ ہے ،ہر ایک جزوی طور پر اقتدار میں حصہ داربھی ہے اور اختلاف کے دبدبے سے بھی لطف اندوز ہورہا ہے ، ریاستی اداروں کے درمیان باہمی اعتماد کافقدان ہے اور ہم یہ سوچ کر حیران ہیں کہ انہیں حالات کی نزاکت اور گردوپیش کی حسّاسیت کا ادراک کیوں نہیں ہے ،ان حالات میں میر تقی میر کے یہ اشعار ہمارے سیاستدانوں کے حسبِ حال ہیں:
پتاپتا، بوٹابوٹا، حال ہمارا جانے ہے 
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے 
مہر و وفا و لطف و عنایت، ایک سے واقف اِن میں نہیں 
اور توسب کچھ طنز و کنایہ رَمز و اشارہ جانے ہے
وزارتِ عظمیٰ سے معزولی کے بعد جنابِ نواز شریف نے سیاستدانوں کے درمیان قومی امور پر ''وسیع تر مکالمے ‘‘ کی بات کی ہے ،لیکن اب اس کا وقت گزر چکا ہے ،وہ اگرچہ تاحال ایک مقبول سیاسی رہنما ہیں ،تاہم سیاستدانوں کے درمیان قابلِ قبول نہیں ہیں ، ان کے سیاسی حریف تو موقعے سے فائدہ اٹھانے کے لیے بیتاب ہیں،داغ دہلوی نے کہا تھا:
پھرے راہ سے وہ، یہاں آتے آتے
اَجَل مر رہی تو کہاں آتے آتے
نہ جانا کہ دنیا سے جاتا ہے کوئی
بہت دیر کی مہرباں آتے آتے
جنابِ نواز شریف کے لیے وسیع تر مکالمے کا بہترین موقع وہ تھا ، جب وہ برسرِ اقتدار تھے ،اپنے پندارِ نفس کے حصار سے باہر آتے اور خود چل کر ناراض سیاستدانوں کے پاس جاتے ،گوہرِ مقصود ہاتھ آتا یا نہ آتا ،ان کے بڑے پن کا ایک مظاہرہ قوم یقینا دیکھ لیتی، شیخ مصلح الدین سعدی شیرازی نے کہا ہے:
فروتن بود ہوشمندِ گزیں
نہد شاخِ پُر میوہ ، سر بر زمین
ترجمہ:''دانا شخص عاجزی کا مظاہرہ کرتا ہے اور درخت کی جو شاخ پھلوں سے لدی ہو،وہ زمین تک جھکی ہوتی ہے‘‘۔ الغرض انہوں نے اس کا موقع گنوادیا ۔شاید یہ ہمارا قومی مزاج ہے کہ عقل اسی وقت ٹھکانے آتی ہے ،جب ابتلا سے دوچار ہوتے ہیں۔یہی وجہ ہے کہ جب دو بڑی جماعتوں کے درمیان ''میثاقِ جمہوریت ‘‘طے پایا ،اُس وقت وہ دونوں ابتلا میں تھیں ،مگر جب محترمہ بے نظیر بھٹو کو موقع ملا تو انہوں نے دوسرے فریق کو اعتماد میں لیے بغیر این آراو کردیااورپھر پیپلز پارٹی کے دورِ حکومت میں جنابِ نواز شریف نے بھی میموگیٹ اور جنابِ سید یوسف رضا گیلانی کی نا اہلی کے موقع پر ایسی ہی بے اعتدالی کا مظاہرہ کیاتھا، وہ آج اس پر ندامت کا اظہار کر رہے ہیں ،لیکن وقت گزر چکا ہے،وقت کسی کے لیے رکتا نہیں ہے، میر حسن دہلوی نے خوب کہا ہے:
سداعیش دوراں دکھاتا نہیں
گیا وقت پھر ہاتھ آتا نہیں
ہوسکتا ہے کہ آج جو سیاسی رہنما جنابِ نواز شریف کی معزولی سے لطف اندوز ہورہے ہیں ،وہ بھی بعد میں اس پیشکش کو ٹھکرانے پر پچھتائیں، مشہورکہاوت ہے:'' اب پچھتائے کیا ہَووت، جب چِڑیاں چُگ گئیں کھیت‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved