تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     14-08-2017

خیمے کا ٹکڑا

لاہور کے مقامی مجسٹریٹ چوہدری قادر بخش کی عدالت میں ایک عجیب و غریب مقدمے کی پیشی تھی‘ ضلع کچہری میں دھوم مچی ہوئی تھی۔ لوگوں کی کثیرتعداد اس مقدمے کی کارروائی سننے کی بجائے اس عورت اور مرد کو دیکھنے کیلئے ٹو ٹ پڑی تھی جنہوں نے اپنے جسموں کے گرد خیمے کا کپڑا لپیٹا ہوا تھا اور اسی خیمے کے کپڑے کی چوری کے مقدمے میں پولیس والٹن کے مہاجر کیمپ سے گرفتار کرنے کے بعد انہیں عدالت لے کر آ رہی تھی۔یہ مرد اور عورت جو میاں بیوی تھے‘ لاہور کے والٹن مہاجر کیمپ میں قیام پذیر تھے۔ ان کا کوئی بھی وکیل نہیں تھا۔ ہوتا بھی کیسے ان کے پاس تو پھوٹی کوڑی تک نہ تھی۔ چوہدری قادر بخش مجسٹریٹ نے اس جوڑے سے پوچھا کہ جو خیمہ حکومت پاکستان نے آپ کو رہنے کیلئے دیا تھا‘ آپ اسے کاٹ کاٹ کر اپنا لباس بناتے ہوئے چوری کے کیوں مرتکب ہوئے؟ اس مہاجر جوڑے نے ہاتھ جوڑ کر‘ آنسو بہاتے ہوئے کہا‘ حضور والا اگست 1947میں جب ہم دلی سے لٹے پٹے گھروں سے نکلے تو ہمارے پاس تھوڑا بہت سامان تھا جیسے جیسے ہم پاکستان کی جانب بڑھتے گئے ہم پر دن میں کئی بار ہندو اور سکھ جتھوں نے حملے کیے اور ہمارے بیٹے شہید کر دیئے‘ جب ہم اٹاری کے قریب آئے تو آخری حملے میں ہم دونوں کے سواخاندان کا کوئی بھی فرد زندہ نہ بچ سکا۔ گرتے پڑتے ہم پاکستان میں داخل ہوئے تو ہمیں والٹن کیمپ میں پہنچا دیا گیا۔ والٹن پہنچنے تک ہمارے تن پر پہنے کپڑوں کے سوا کچھ نہ بچا‘ وہ کپڑے بھی پھٹ چکے تھے۔ ہم دونوں ایک پڑھے لکھے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں ہمارا زیا دہ بڑا نہیں توکوئی معمولی کاروبار بھی نہیں تھا لیکن پاکستان کی خاطر ہم نے گھر بار‘ کاروبار بلکہ پورا خاندان قربان کردیا اور سال بھر سے اس مہاجر کیمپ میں بے یار و مدد گار پڑے ہیں۔ لباس قابل استعمال نہ رہا تو ہم نے مجسمے سے کپڑا کاٹ لیا کہ سترپوشی کر سکیں۔ اس پر ہمیں گرفتار کر کے تھانے میں بند کر دیا گیا اور آج ہم بھری عدالت میں تماشہ بنے کھڑے ہیں۔ قبل اس کے کہ پولیس ان کی جانب بڑھتی وہ خاتون چیختے ہوئے بولی آج ہم آپ لوگوں کے سامنے تما شا بنے ہیں تو اس کی وجہ بتاتے ہوئے بھی شرم آ رہی ہے کہ بوسیدہ ہونے اور بار بار دھونے
کی وجہ سے ہمارے اس قدر چیتھڑوں میں تبدیل ہوگئے تھے کہ ہمارے لیے سترپوشی مشکل ہوگئی تھی۔ خیمے کے اندر ہمیں ایک دوسرے کی جانب دیکھتے ہوئے شرم آتی‘ نوبت یہاں تک جا پہنچی کہ اس برہنگی کی وجہ سے خیمے سے نکل کر قطار میں لگ کر اپنا راشن لینا بھی ہمارے لئے مشکل ہو گیا۔ دو دن گزرنے کے بعد ہماری حالت یہ ہو گئی کہ بھوک نے ہمیں چلنے پھرنے سے بھی معذور کر دیا۔ لگتا تھا کہ پانی ا ور غذا نہ ملنے سے کسی بھی لمحے ہماری جان چلی جائے گی جس پر مجبور ہو کر ہم نے خیمے کا کپڑا کاٹ لیا‘ جسے اس سخت ترین گرمی میں اپنے گرد لپیٹ کر باری باری راشن لینے کیلئے باہر نکلنا شروع ہو گئے‘ نہ جانے کس
نے شکایت کر دی کہ ہم نے خیمے کا کپڑا کاٹ کر چوری کرنے کی کوشش کی ہے جس پر پولیس نے کل ہمیں گرفتار کر لیا اور آج آپ کے سامنے پیش کر دیا ہے‘ حضور ہم چور نہیں صرف مجبور ہیں۔ 
آج کی نسل جو یوم آزادی پر ون ویلنگ کرتے ہوئے اپنی اور سب کی جانوں سے کھیل رہی ہے شائد نہیں جانتی کہ قیام پاکستان کے13 ماہ بعد جب لاہور میں مہاجروں سے اٹا ہوا والٹن کیمپ ختم کیا گیا تو یہاں پر19 ہزار نئی قبریں وجود میں آ چکی تھیں جنہیں کچھ عرصہ بعد کونسلروں‘ دوسرے طاقت ور لوگوں اور سرکاری اہل کاروں نے تجاوزات کے بہانے برا برکرانے کے بعد یہاں پر قبضے کر لئے اور یہ قبریں جن پر آج پلازے، کوٹھیاں اور بڑے بڑے گھر بنے ہوئے ہیں ان مہاجرین کی تھیں جو مشرقی پنجاب اور ہندوستان کے دوسرے علا قوں سے ہجرت کر کے پاکستان پہنچنے میں کامیاب تو ہو گئے تھے لیکن مسلسل تھکاوٹ، زخموں،خستہ حالی اور طرح طرح کی بیماریوں کی وجہ سے انہی کیمپوں میں جاں بحق ہو گئے۔ بد قسمتی کہہ لیں کہ قائد اعظم محمد علی جناح ، لیاقت علی خان اور عبدالرب نشتر جیسی ہستیوں کے بعدیہاں مسلم لیگ کے نام سے ایسے لوگ قابض ہوتے رہے جنہوں نے اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنا شروع کردیا۔ پی پی پی میں جو لوگ شامل ہوئے ان میں بھی وہی مسلم لیگی تھے جنہوںنے اس ملک کو جی بھر کے لوٹا اور ابھی تک لوٹ رہے ہیں۔ انہیں کیا خبر کہ ہندوستان سے پاکستان کی جانب بڑھتی ہوئی ریل گاڑیوں کے انجنوں اور بوگیوں کے اندر اور باہر ایک ایک انچ پر کیڑوں مکوڑوں کی طرح چمٹے ہوئے مرد و خواتین کے مناظر مجھ سمیت اس ملک کے لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں لوگوں نے نہ جانے کتنی بار اخبارات اور ٹیلی ویژن کی سکرینوں پر دیکھے ہیں۔ قوم کو وہ منا ظر بھی اکثر دیکھنے کو ملتے رہے جن میں پیدل‘ ننگے پائوں اور بیل گاڑیوں پر سوار لٹے پٹے قافلے لاہور میں واہگہ اور قصور کے گنڈا سنگھ کی جانب سے امڈتے ہوئے چلے آ رہے تھے اور پھروہ ریل گاڑیاں بھی دیکھی ہیں جن میں مردوں عورتوں اور بچوں کو تلواروں، کرپانوں اور چھریوں سے کاٹ کاٹ کر پھینک دیا گیا‘ وہ عورتیں بھی دیکھیں جن کے پیٹ چاک کر دیئے گئے۔ وہ چند ماہ کے بچے بھی دیکھے جنہیں نیزوں اور تلواروں سے پرویا گیا تھا۔۔۔۔اور دو
لاکھ سے زائد ان خواتین کی کہانیوں کے بارے میں بھی کسی کو بتانے کی ضرورت نہیں جنہیں اغوا کرنے کے بعد زبردستی اپنے گھروں میں رکھ لیا گیا تھا۔ وہ منا ظر بھی دیکھے کہ یہ لٹے پٹے لوگ کئی کئی ماہ تک خیموں میں صدقے اور زکوٰۃ کے نام پر ملنے والے چند لقموں کیلئے گرمیوں میں تپتے اور سردیوں میں ٹھٹھرتے رہے۔ نہانے کیلئے پانی تھا نہ ہی پیاس بجھانے کیلئے آزادی مناتے وقت جہاں ان پانچ لاکھ سے زائد مرد و خواتین کی شہا دتوں کو یا دکرنا ہے وہاں اس ملک کو دونوں ہاتھوں سے لوٹنے والے ان سیا سی دہشت گردوں کا احتساب بھی کرنا ہوگا جنہوں نے وطن عزیز کے حسن کو چھین لیاہے ۔
قوم کو وہ منا ظر بھی اکثر دیکھنے کو ملتے رہے جن میں پیدل‘ ننگے پائوں اور بیل گاڑیوں پر سوار لٹے پٹے قافلے لاہور میں واہگہ اور قصور کے گنڈا سنگھ کی جانب سے امڈتے ہوئے چلے آ رہے تھے اور پھروہ ریل گاڑیاں بھی دیکھی ہیں جن میں مردوں عورتوں اور بچوں کو تلواروں، کرپانوں اور چھریوں سے کاٹ کاٹ کر پھینک دیا گیا‘ وہ عورتیں بھی دیکھیں جن کے پیٹ چاک کر دیئے گئے۔ وہ چند ماہ کے بچے بھی دیکھے جنہیں نیزوں اور تلواروں سے پرویا گیا تھا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved