مقدار اور معیار کی لڑائی ختم ہوئی ہے نہ ہوگی۔ زندگی کا ہر معاملہ اِن دو تصوّرات کے گرد گھوم رہا ہے۔ عمومی روش یہ ہے کہ زیادہ سے زیادہ کا حصول یقینی بنایا جائے یعنی زور مقدار پر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زندگی میں معنویت پیدا ہوتی ہے تو معیار سے، مقدار سے نہیں۔ ہم زندگی بھر زیادہ سے زیادہ کے حصول کے لیے سرگرداں رہتے ہیں۔ کوشش یہ ہوتی ہے کہ مقدار کے معاملے میں سب کو پیچھے چھوڑ دیا جائے۔ مگر پھر بھی زندگی ادھوری سی رہتی ہے۔ سیدھی سی بات ہے، بہت کچھ پانے سے زیادہ اہمیت اِس بات کی ہے کہ جو کچھ پایا ہے اُس کا معیار کیا ہے۔
جب بھی کسی بزرگ سے دعا کی استدعا کیجیے تو اُن کے منہ سے بے ساختہ نکلتا ہے اللہ لمبی عمر عطا فرمائے۔ زندگی اللہ کی نعمت ہے۔ ہر انسان اِس دنیا میں زیادہ سے زیادہ عرصے تک رہنا چاہتا ہے۔ یہ فطری بات ہے اور اللہ کے شکر کا ایک اچھا طریقہ یہ بھی ہے کہ موت کی آرزو نہ کی جائے یعنی زندگی سے پیار کیا جائے۔ ایسے میں بزرگوں کا لمبی عمر کی دعا دینا حیرت انگیز نہیں۔ مگر سوال صرف زندگی کی طوالت کا نہیں، معیار کا بھی ہے۔ زندگی محض جیے جانے کا نام نہیں۔ عمر خواہ کتنی ہو، ایک دن مکمل ہو جاتی ہے مگر دیکھا گیا ہے کہ زندگی ادھوری ہی رہتی ہے! لوگ خوب جیتے ہیں، جیے ہی جاتے ہیں مگر اُن کے وجود سے کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔ کنور مہندر سنگھ بیدی سحرؔ نے کہا ہے ؎
ہوا جو تیرِ نظر نیم کش تو کیا حاصل؟
مزا تو جب ہے کہ سینے کے آر پار چلے!
محض جیے جانے سے کیا ہوتا ہے؟ مزا تو جب ہے کہ جینا بامعنی اور بامقصد ہو۔ کچھ ایسا کرکے اِس دنیا کو رخصتی سلام کیا جائے جس کے نتیجے میں لوگ یاد رکھیں۔
گزشتہ روز ہم نے چین کے ایک حکیم لی چنگ بوئن کے بارے میں پڑھا کہ اُس نے (کرائم رپورٹرز کی زبان میں کہیے تو ''مبینہ‘‘ طور پر) 256 سال کی عمر پائی! 1933 میں اس دنیا سے رخصت ہونے والے لی چنگ بوئن کا کہنا تھا کہ وہ 1736 میں پیدا ہوئے تھے۔ مگر چین کی مینگو یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کی تحقیق بتاتی ہے کہ لی چنگ بوئن کی ولادت 1677 میں ہوئی تھی! چین کی قدیم دستاویزات سے معلوم ہوتا ہے کہ شاہی خاندان نے لی چنگ بوئن کو 150 اور پھر 200 سال کا ہونے پر مبارک باد دی تھی!
لی چنگ بوئن مارشل آرٹس کے ماسٹر تھے۔ زندگی بھر جڑی بوٹیوں کی خرید و فروخت سے وابستہ رہے۔ 23 بیویاں تھیں جن سے 200 بچے پیدا ہوئے۔
لی چنگ بوئن نے طویل عرصے تک زندہ رہنے کا راز ایک ایسے شخص سے پایا تھا جو 500 سال روئے زمین پر رہا تھا!
طویل عمر کا ایک راز فطرت سے ہم آہنگ ہونا بھی ہے۔ جو لوگ تمباکو نوشی نہیں کرتے، زیادہ نہیں کھاتے اور زیادہ نہیں سوتے وہ زیادہ زندہ رہتے ہیں۔ چین اور جاپان میں لوگ بالعموم فطرت سے ہم آہنگ رہتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں۔ شراب اور دیگر نشیلی اشیاء کا استعمال کم ہے۔ لوگ کھانے پینے کے معاملات میں بھی بہت محتاط رہتے ہیں۔ زیادہ مسالے دار چیزیں نہیں کھاتے۔ غذا میں تیل، گھی، مکھن، پنیر وغیرہ کم ہی استعمال کرتے ہیں۔ ٹھنڈے پانی سے بھی بالعموم دور رہتے ہیں۔ زندگی کے دیگر معاملات میں بھی سادہ ہیں یعنی ہڑبونگ دکھائی نہیں دیتی۔ راتوں کو تادیر جاگنا چین، جاپان اور مشرق بعید کے دیگر معاشروں کا رواج نہیں۔ بلا مقصد مل بیٹھنا بھی عام نہیں۔ رات کو جلد سونا اور علی الصبح بیدار ہونا اِن معاشروں کی عمومی روش ہے۔
500 سال (ظاہر ہے، مبینہ طور پر!) جینے والے شخص نے لی چنگ بوئن کو طویل عمر یقینی بنانے کے لیے ہدایت کی تھی کہ کچھوے کی طرح بیٹھو، کبوتر کی سطح چلو اور کتوں کی طرح نیند پوری کرو۔ ساتھ ہی ساتھ مراقبہ بھی ناگزیر ہے تاکہ دل پُرسکون رہے۔ خود لی چنگ بوئن بھی پورا پورا دن مراقبے میں رہا کرتے تھے۔
دیکھا آپ نے؟ طویل عمر کے لیے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ سب سے بڑی الجھن تو یہی ہے کہ مسلسل جینا پڑتا ہے! اور پھر 500 سال جینے والے صاحب کا کہنا تھا کہ طویل عمر کے لیے وہ سب کچھ کرو جس کا انسانوں سے کوئی تعلق نہیں۔ بیٹھنے کے لیے اگر کسی کو نمونہ بناؤ تو کسے؟ کچھوے کو۔ چلنا ہو تو کبوتر کی طرح تھوڑا تھوڑا خم ٹھونک کر، جم جم کر قدم رکھتے ہوئے چلا کرو۔ اور نیند پوری کرنے کے لیے محترم نے کس کی تقلید کرنے کو کہا ہے؟ کتوں کی! جنہیں اس دنیا میں تادیر رہنا ہے اُنہیں تقلید کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اور تقلید بھی کس کی؟ حیوانات کی۔ کیا طویل عمر پانے کے لیے کسی انسان کو نمونہ بناکر اُس کی تقلید نہیں کی جاسکتی؟
مرزا تنقید بیگ کو بھی اِس بات سے چڑ ہے کہ بزرگ طویل عمر کی دعا دے تو دیتے ہیں مگر یہ نہیں سوچتے کہ دعا قبول ہوجائے تو متعلقہ فرد پر کیا گزرتی ہے! مرزا کا استدلال ہے کہ طویل عمر کی دعا تو وہاں کی جانی چاہیے جہاں جینے کا مزا ہو، زمانے بھر کی سہولتیں میسر ہوں، زندگی آرام اور سکون سے گزر رہی ہوں، الجھنیں برائے نام ہوں اور کوئی کسی کے لیے پریشانی کا باعث نہ بن رہا ہو۔ ہم جس معاشرے کا حصہ ہیں اُس میں تو اوسط عمر بھی ڈھنگ پوری کرنا دردِ سر ہو جاتا ہے۔ ایسے ماحول میں اگر طویل عمر کے لیے دی جانے والی دعا قبول ہو جائے تو اِنسان جیتے جی مر جاتا ہے! مرزا کہتے ہیں جہاں پینے کے لیے صاف پانی میسر ہے نہ ہی بجلی ضرورت کے مطابق دستیاب ہے، صفائی ستھرائی کا انتظام بھی گیا گزرا ہے، کام پر جانے اور گھر واپس آنے میں جسم ہی نہیں روح بھی ہلکان ہو جاتی ہے وہاں بہت جی کر کوئی کیا کرے گا؟ لی چنگ بوئن کے اُستاد کہتے ہیں طویل عمر کے لیے کچھوے کی طرح بیٹھو۔ کچھوا ڈیڑھ پونے دو سو سال بھی زندہ رہتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ اِتنا جی کر وہ کرتا کیا ہے؟ جیے جاتا ہے، بس۔ اور کبوتر کی طرح چلنے کا کیا مطلب ہے؟ یہ کبوترانہ چال ہی تو بِلّی کو پسند ہے! اور ہاں، نیند پوری کرنے کے لیے کتوں کو نمونہ بنانے کا مشورہ کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ طویل عمر پانے والوں سے اگر ہم یہ کہیںکہ نیند کے معاملے میں وہ لی چنگ بوئن کے استاد کی ہدایت پر عمل کر رہے ہیں تو شاید (اور شاید کیا، یقیناً) بُرا مان جائیں گے!
لی چنگ بوئن کہتے ہیں کہ دل اگر پُرسکون ہو تو انسان 100 سال آرام سے جی سکتا ہے۔ یہاں ماحول ایسا ہے کہ اگر کبھی دو چار دن بھی آرام اور سُکون سے گزر جائیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے جیسے 100 سال جی لیے! جہاں پورا معاشرتی ڈھانچا ہی شور و غل سے عبارت ہو وہاں کوئی ذہنی اور قلبی سُکون کیسے پائے؟ پاکستان میں اوسط عمر اِتنی نہیں کہ انسان اپنے مقدر پر رشک کرے۔ مگر اِس پر بھی اللہ شکر ہی ادا کرنا چاہیے ورنہ آثار تو ایسے ہیں کہ اوسط عمر گھٹتی ہی جائے گی۔ لی چنگ بوئن اور اُن کے استاد کی ہدایات اپنی جگہ اور ہمارا معاشرہ اپنی جگہ۔ بہت زیادہ جینے کی آرزو کیا؟ ایسے ماحول میں تو جو کچھ ملی ہے وہ عمر بھی ڈھنگ سے گزر جائے تو غنیمت جانیے۔ کچھ کر گزرنے کا عزم ہو تو چار دن کی زندگی بھی صدیوں کو شرمائے۔ اور ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا ہے تو پچاس سال اور پچاس ہزار سال جینے میں کوئی فرق نہیں!