تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     15-08-2017

Hogra نامنظور۔ نامنظور

یہ سطور پڑھنے والے تمام لوگوں نے اُوپر عنوان میں لکھا ہوا لفظ غالباً پہلی بار پڑھا ہوگا۔ یہ نامانوس لفظ آج کے کالم کا عنوان بنا تو کیونکر؟ اس سوال کا جواب دھیان سے پڑھیے گا۔ Hogra شمال مغربی افریقہ کے ملک مراکش میں بولی جانے والی عربی کا لفظ ہے۔ معانی ہیں۔ عوام دُشمن حکومت کے ہاتھوں عوام کی تذلیل۔ ڈیڑھ صدی تک مراکش پر فرانس نے حکومت کی اور اُسی طرح کی جس طرح غیر ملکی سامراجی اور استعماری حکومتیں کرتی ہیں۔ ایک طرف تعلیم اور صحت کی سہولیات اور امن عامہ کی فراہمی اور دُوسری طرف ہر قسم کے جبر و تشدد اور ظلم و ستم کے بل بوتے پر عوام کو رعایا بلکہ بھیڑ بکریاں بنانا۔ انگریزوں نے دو صدیوں تک یہی کام ہندوستان اور اپنی درجنوں دُوسری نو آبادیات میں کیا۔ ستمِ ظریفی یہ ہے کہ سفید فام حاکم چلے گئے تو اُن کی جگہ کالے رنگ کے نقلی اور جعلی مگر اتنے ہی عوام دُشمن صاحبوں نے سنبھال لی۔
اس کالم نگار کے عمر بھر کے مطالعہ کا نچوڑ یہ ہے کہ جو قوم ایک لمبے عرصہ تک غلام رہے اور اپنی غلامی کو ذہنی طور پر قبول کر لے وہ کبھی آزاد نہیں ہو سکتی۔ وزنی سے وزنی زنجیر توڑی جا سکتی ہے مگر غلامانہ ذہنیت کو بدلا نہیں جا سکتا۔ ویت نام، افغانستان، چین اور ترکی کی مثالیں آپ کے سامنے ہیں۔ یہ ممالک کبھی کسی کے غلام نہیں بنے۔ اُنہیں آج تک کسی نے فتح نہیں کیا۔ وہ ایک جنگ ہاریں تو دُوسری جنگ لڑتے ہیں اور دُوسری کے بعد تیسری ۔ رُوسی ناول نگار ٹالسٹائی نے کتنی حکمت کی بات کہی کہ اگر جیل خانہ میں قیدوں کو جیلر منتخب کرنے کا حق دے دیاجائے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ آزاد ہو گئے۔
اقبال کے الفاظ میں اُس کا رواںکی فا تحہ پڑھ لینا چاہئے جو پہلے اپنی نالائقی یا بزدلی سے اپنی متاع غرور کا سودا کر بیٹھے اور پھر اُس کے راکھ بھرے دل سے احساس زیاںبھی جاتا رہے۔ جب یہ مرحلہ آجائے تو سمجھیں کہ وہ قوم محض برائے نام آزاد ہے۔ وہ اپنی تاریخ بھول جاتی ہے۔ اُسے اپنی شناخت اور اپنا حدود اربعہ کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ وہ اپنی مادری اور قومی زبان نہیں بول سکتی۔ وہ شیشہ گرانِ فرنگ کے احسان اُٹھاتی ہے۔ وہ اپنی مٹی سے مینا وجام تو کیا عام برتن بھی نہیں بنا سکتی۔ میں پھر اقبال کا حوالہ دیتا ہوں۔ ہمارے ہاں ایک پرانا مٹکا ہے تو کیا ہوا۔ ہم اُس پر فخر کیوں نہیں کرسکتے؟ اُس نے ہماری صدیوں پرانی پیاس بجھائی ہے۔ مانا کہ دیسی مال کے مقابلے میں مغربی برتن بلوریں ہیں اور بڑی چمک دمک رکھتے ہیں مگر یاد رکھیں کہ وہ ہمارے نہیں۔ پرائے ہیں۔ اغیار کی اقدار۔طور طریق اور خیالات و نظریات کو من و عن اپنانا، طاقتور مغربی ممالک کی معاشرتی اور معاشی نقل کرنا، سیاسی آزادی اور حریت فکر کے ایک سجدہ کو گراں سمجھنا۔ سامراجی قوموں کے سامنے ہزاروں بار اپنا ماتھا رگڑنے سے نجات حاصل نہ کرنا۔ یہ ہے وہ المیہ جس پر اقبال خون کے آنسو روتے روتے دُنیا سے رخصت ہوئے۔ فرانز فناں نے اُفتادگان خاک ( The Wretched of the earth) لکھی اور لاکھوں افراد کے شعور کی سطح کو بلند کیا، حسرت موہانی، عبید اللہ سندھی اور جمال الدین افغانی سے لے کر اقبال، فیض احمد فیض اور سبط حسن نے آگہی اور بصیرت کے وہ چراغ روشن کئے جو آنے والے وقت میں ہمارے دلوں میں ولولہ پیدا کریں گے اور ہمارے لئے روشنی کے مینار ثابت ہوں گے۔ ساری بات Hogra سے چلی تھی اور چلتے چلتے کہاں جا پہنچی؟ آیئے واپس مراکش چلتے ہیں۔ میں تو وہاں جانے کے برسوں سے خواب دیکھتا چلا آرہا ہوں۔ دیکھیں وہ مبارک گھڑی کب آتی ہے جب میں اپنے محترم دوست میرزا اشتیاق بیگ (جو پاکستان میں مراکش کے اعزازی قونصل جنرل ہیں) کی دعوت پر مراکش جائوں گا اور وہاں دُنیا کی سب سے پرانی یونیورسٹی (جو فیض نامی شہرمیں ہے) کی زیارت کروں گااور فیض کی صدیوں پرُانی مسجد میں نفل ادا کروں گا۔
آٹھ ماہ سے چلنے والی جس احتجاجی تحریک نے شمالی مراکش کے در و دیوار کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وہ نہ صرف استقامت اور مستقل مزاجی بلکہ ذہنی اُپج اور غیر رواجی انداز کی وجہ سے غیر معمولی توجہ اور تعریف کی مستحق ہے۔ ایک بڑے شہر میں ہونے والے بڑے احتجاجی مظاہرہ پر پولیس نے دھاوا بول دیا ۔ مظاہرین کو بدترین لاٹھی چارج کا نشانہ بنایا تو وہ ساحل سمندر کی طرف لپکے اور سمندر میں نہانے کا لباس پہن کر تیرنے کے ساتھ ساتھ حملہ آور پولیس کو سمندری پانی سے شرابور کرنے لگے۔
یہ ہنگامہ شروع کس طرح ہوا؟ (اس سال کے اکتوبر میں Al Hoceima نامی بندرگاہ میں کوڑا کرکٹ اُٹھانے والے ایک ٹرک نے فکری نامی نوجوان مچھلی فروش کو کچل کر مار ڈالا۔ فکری مچھلیوں کے اُس انبار کی بازیابی کی کوشش کر رہا تھا جو حکومت نے قوانین کی خلاف ورزنی کرنے والوں کو سزا دینے کے لئے ضبط کر لیا تھا۔ اس بندرگاہ کو RIF نامی پہاڑی سلسلہ نے اپنی آغوش میں لیا ہوا ہے۔ وہاں کے مردان کہستان شروع دن سے باغیانہ مزاج رکھتے ہیں۔ اُنہوں نے فکری سے کئے جانے والے ذلت آمیز برتائو کو Hogra (حکومت کے ہاتھوں عوام کی بدترین تذلیل) کا ایک اورمظاہرہ سمجھ کر احتجاج کرنے کے لئے کمر کس لی۔ میرے قارئین کو یاد ہوگا کہ سات سال پہلے تیونس میں بھی اس طرح کی ایک چھوٹی سی سرکاری غنڈہ گردی ایک بڑی انقلابی تحریک کا باعث بنی تھی ۔
احتجاجی تحریک کا لاوا ایک بار بہہ نکلے تو پھر اُسے کوئی طاقت نہیں روک سکتی۔ چاہے وہ تحریک بھٹو صاحب کی انتخابی دھاندلی کے خلاف ہو یا شاہ ایران کی آمریت اور مغرب نوازی کے خلاف۔
آپ کو شاید یقین نہ آئے مگر سچ جانئے کہ مراکشی حکومت نے ملک کے ایک حصہ میں کئے جانے والے Hogra کو وحشیانہ طاقت کے بل بوتے پر کچلنے کے لئے مزید Hogra کا بے دریغ استعمال کیا۔ تحریک کے راہنما Nasser Zefzafi اور دوسرے عوامی راہنمائوں کو گرفتار کر لیا گیا۔ تحریک چلتے چلتے مراکش کے دارالحکومت رباط تک جا پہنچی جہاں گیارہ جون کو مراکش کی تاریخ کا سب سے بڑا عوامی مظاہرہ ہوا ۔ جب حکومت نے دیکھا کہ ڈنڈے کا استعمال موثر ثابت نہیں ہو رہا تو وہ مراعات دینے پر اُتر آئی۔ وزیراعظم سعد الدین عثمانی نے ہر حربہ آزمایا مگر عوام کی نظر میں اُن کی حکومت بلکہ مراکش کی ہر حکومت نہ صرف بددیانت۔ کرپشن کی ماہر اور پرلے درجہ کی نالائق بلکہ عوام دُشمن ہے ۔
کمال کی بات یہ ہے کہ مظاہرین کی اکثریت اب بھی وہاں کے بادشاہ کو پسند کرتی ہے۔ ساٹھ سال پہلے موجودہ بادشاہ کے والد نے RIF پہاڑوں پر آباد مقامی Ber Ber قبیلہ کی بغاوت کو آہنی ہاتھوں سے کچل دیا تھا۔ موجودہ بادشاہ نے سختی کی بجائے نرمی کی پالیسی اپنائی اور شمالی علاقوں کی سماجی ترقی کے لئے بھاری رقوم خرچ کرنا شروع کردیں۔ مظاہرین کے مطالبات کی لمبی فہرست پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ حکومت نے ان پہاڑی علاقوں کی Ber Ber آبادی کو کتنے لمبے عرصہ سے نظر انداز کر رکھا تھا۔ میرے چھوٹے بھائی ڈاکٹر خالد رانجھا کے بقول Ber Ber لوگوں کا سرکار کے کاغذات میں سرے سے نام ہی نہیں تھا۔ مراکش کے دیہات نمایاں طور پر غریب ہیں یا غربت کے بہت قریب۔ پچھلے دس سال میں مراکش میں مجموعی طور پر غربت کم ہوئی ہے مگر ہر دس میں سے ایک شخص بے روزگار ہے۔ ملازمت اور کاروبار کے محدود امکانات ہونے کی وجہ سے۔حکومت ،مذکورہ بالا ہنگاموں کے باوجود مضبوط اور مستحکم ہے۔ وجہ؟ صدیوں پرانی مملکت۔ عوام دوست سربراہ مملکت بادشاہ ہونے کے باوجود عوام میں مقبول ،زندہ و تابندہ رائے عامہ۔ صحرائی اور کوہستانی بندوں کی اتنی بڑی تعداد کہ وہ سرکاری جبرو تشدد کے خلاف چلنے والی ہر تحریک کی ریڑھ کی ہڈی بن جائیں۔ جو آواز مراکش کے صحرائوں اور پہاڑوں میں بلند ہوئی اُس کی گونج ہزاروں میل دُور پاکستان میں بھی سنائی دیتی ہے اور وہ آواز یہ ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved