قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ نے امت مسلمہ کے نظام حیات کے خدوخال واضح کیے ہیں اور حدیثِ رسولؐ میں نبی مکرم ﷺ نے اس کی مزید تشریح فرمائی اور عملاً ایک مسلم معاشرہ قائم کرکے دکھایا۔ آپؐ نے مسلم ریاست اور اس کے تمام شعبوں، سیاست، معیشت، تعلیم ومعاشرت، صلح اور جنگ غرض پوری زندگی کو ایک ماڈل کے طور پر پیش فرمادیا۔ اللہ اور اس کے رسول کے فرامین پر طائرانہ نظر ڈالنے سے ہی پورا نقشہ سامنے آجاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اس نے تمھارے لیے دین کا وہی طریقہ مقرر کیا ہے جس کا حکم اس نے نوحؑ کو دیا تھا، اور جسے (اے محمدؐ) اب تمھاری طرف ہم نے وحی کے ذریعے سے بھیجا ہے اور جس کی ہدایت ابراہیمؑ، موسیٰؑ اور عیسیٰؑ کو دے چکے ہیں، اس تاکید کے ساتھ کہ قائم کرو اس دین کو اور اس میں متفرق نہ ہوجاؤ۔ یہی بات ان مشرکین کو سخت ناگوار ہوئی ہے جس کی طرف (اے محمدؐ) تم انھیں دعوت دے رہے ہو۔ اللہ جسے چاہتا ہے اپنا کرلیتا ہے اور وہ اپنی طرف آنے کا راستہ اسی کو دکھاتا ہے جو اس کی طرف رجوع کرے۔‘‘(الشوریٰ۴۲:۱۳)
نظام زندگی کیا ہو؟ اللہ تعالیٰ نے واضح فرما دیا: ''اللہ کے نزدیک دین صرف اسلام ہے۔اس دین سے ہٹ کر جو مختلف طریقے ان لوگوں نے اختیار کیے جنھیں کتاب دی گئی تھی، ان کے اس طرز عمل کی کوئی وجہ اس کے سوا نہ تھی کہ انھوں نے علم آجانے کے بعد آپس میں ایک دوسرے پر زیادتی کرنے کے لیے ایسا کیا اور جو کوئی اللہ کے احکام وہدایات کی اطاعت سے انکار کردے، اللہ کو اس سے حساب لیتے کچھ دیر نہیں لگتی۔ ‘‘ (آلِ عمران۳:۱۹)۔ اس دین کے علاوہ دیگر ہر نظام اللہ کے ہاں مردود قرار پایا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''اس فرماں برداری (اسلام) کے سوا جو شخص کوئی اور طریقہ اختیار کرنا چاہے اُس کا وہ طریقہ ہر گز قبول نہ کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام ونامراد رہے گا۔ (آلِ عمران۳:۸۵)
پاکستان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔ اہلِ پاکستان کی غالب اکثریت اللہ کو اپنا الٰہ، محمد مصطفی ﷺ کو اپنا ہادی و رہبر اور اسلام کو اپنا دین قرار دیتی ہے۔ یہ عقیدہ بلاشبہ اللہ کی رحمت اور نجات اخروی کے ساتھ دنیا کی عارضی زندگی میں بھی انسان کی بھلائی کا ضامن ہے۔ البتہ اس کے لیے لازمی شرط یہ ہے کہ اس عقیدے اور ایمان کے تقاضوں کو ان کی تمام جزئیات کے ساتھ پورا کیا جائے۔ عمل کے بغیر ایمان محض ایک دعویٰ بن کر رہ جاتا ہے۔ اس دعوے کا ثبوت انسان کے اعمال اور زندگی کی ڈگر فراہم کرتی ہے۔ اعمال میں عبادات اور معاملات دونوں کی یکساں اہمیت ہے۔ بالفاظ دیگر اسلام حقوق اللہ اور حقوق العباد کی مکمل اور مخلصانہ ادائیگی کا نام ہے۔ آج بدقسمتی سے ملتِ اسلامیہ پاکستان بہت بڑی مصیبت اور ابتلا کا شکار ہے۔ اس کا بنیادی سبب اللہ سے دوری، نفس پرستی اور جذبۂ عمل کا فقدان ہے۔
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے ہر نعمت سے نوازا ہے۔ اگر پاکستانی قوم اور اس کے حکمران شکر گزاری کے راستے پر چلتے تو اللہ کی نعمتیں کئی گنا بڑھ جاتیں۔ بدقسمتی سے ہم نے اپنی قومی زندگی کے 70 سال اپنے دینی عقیدے اور نظریۂ پاکستان سے ہٹ کر بلکہ اس سے بغاوت کر کے گزارے ہیں۔ انفرادی و اجتماعی ہر میدان میں ہم اسلام سے دور ہٹ کر، جاہلیت اور گمراہی کی وادیوں میں بھٹکتے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا واضح ارشاد ہے: ''اور یاد رکھو تمھارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تمھیں اور نوازوں گا اور اگر کفرانِ نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے۔‘‘ (سورۃ ابراہیم: آیت 7)۔ آج ہمارے اوپر مسلط عذاب ہمارے اعمالِ بد کا نتیجہ ہے۔
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے قوم سبا کا جو نقشہ کھینچا ہے، اس پر ایک نظر ڈالیں تو یوں معلوم ہوتا ہے، جیسے پاکستانی قوم کی صورت میں وہی تاریخ پھر دہرائی جا رہی ہے۔ اللہ نے سورۃ سبا میں بیان فرمایا ہے کہ اس قوم کے لیے اللہ کی نعمتوں کے سب دروازے کھلے تھے مگر انھوں نے ناشکرے انسان بن کر ان نعمتوں کو ضائع کر دیا۔ قرآن مجید میں اس قوم کا نقشہ یوں کھینچا گیاہے: ''سبا کے لیے ان کے اپنے علاقے میں ایک نشانی موجود تھی۔ (ہر راستے پر) دائیں اور بائیں باغات ہی باغات تھے... عمدہ اور پاکیزہ وطن اور بخشش فرمانے والا پروردگار، مگر وہ منہ موڑ گئے۔‘‘ (سورئہ سبا: آیت ۱۵-۱۶) نتیجتاً اس قوم سے ساری نعمتیں چھن گئیں ا ور مصائب و عذاب ان کا مقدر بن گئے۔ اللہ تعالیٰ کی یہ سنت ثابتہ ہے کہ وہ قوموں کو ڈھیل دیتا ہے مگر یہ ڈھیل لامحدود نہیں ہوا کرتی۔ ہمارے لیے بھی اللہ نے جو مہلت مقرر کر رکھی ہے، وہ ختم ہوتی جا رہی ہے۔ کسی بڑی تباہی سے بچنے کے لیے ابھی سے فکر مند ہونے کی ضرورت ہے۔
فرقہ بندی اور عصبیت، لوٹ کھسوٹ اور بدعنوانی، ڈاکہ زنی، لاقانونیت اور بدامنی، دھماکے اور خود کش حملے، مہنگائی، افلاس اور بے روز گاری، سب کچھ ہمارے انفرادی و اجتماعی اعمال کا منطقی نتیجہ ہے۔ امت مسلمہ عالمی سطح پر اغیار کی سازشوںکی زد میں ہے۔ بیش تر مسلمان ممالک کے حصے بخرے کرنے کے لیے دشمن نے ان کو خانہ جنگی میں بری طرح پھنسا دیا ہے۔ شام ہو یا عراق، فلسطین ہویا لیبیا، یمن ہو یاصومالیہ وافغانستان ہر جگہ مسلمان کو مسلمان سے لڑا دیا گیا ہے۔ آنحضورؐ کا ارشاد ہے کہ جو شخص امت مسلمہ کے خلاف اسلحے سے اشارہ بھی کرے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ اب اشارہ تو دور کی بات ہے دشمن کے تیار کردہ مہلک ہتھیار مسلمان آپس میں ایک دوسرے کو قتل کرنے کے لیے بے دریغ استعمال کررہے ہیں۔ پاکستان کو بھی خانہ جنگی میں دھکیلنے کے لیے دشمن پورا نقشہ بنا چکا ہے۔ آج وطن عزیز میں سیاسی اختلافات میں اتنی تلخی اور شدت آچکی ہے کہ متحارب گروہ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نظر آتے ہیں۔ نفرتوں کا یہ طوفان آنے والی نسلوں کو تباہ کردے گا۔ خدا کے لیے یہ طرز عمل تبدیل کیجیے۔
صورت حال انتہائی سنگین ہے، مگر بددل ہوکر بیٹھ جانا شیوۂ ایمانی نہیں۔ ہر مخلص مسلمان کو ان اندھیروں میں اپنے اپنے حصے کا چراغ جلانے کا عزم کرنا ہوگا۔ اس صورتِ حال سے نکلنے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ سب سے پہلے اپنی اصلاح کا کام ہے۔ اللہ کی طرف رجوع ایک مستقل موضوع ہے، جس کا تذکرہ ہر مجلس اور ہر گھر میں ہونا چاہیے۔ آج کے اس بگڑے ہوئے معاشرے میں اسی بھولے ہوئے سبق کو یاد دلانے کے لیے ایک منظم اور بھرپور تحریک بعنوان رجوع الی اللہ مہم کی اشد ضرورت ہے۔ اس مہم کا مقصد اللہ کے دین سے بغاوت کو ختم کرنا، ہر سطح پر اسلامی اخلاق و آداب کو فروغ دینا اور پاکستان کو صحیح معنوں میں ایک اسلامی و فلاحی ریاست بنانے کی جدوجہد کرنا ہو۔ اصلاح کا یہ تصور اور اس کی جانب ہر بڑے اور چھوٹے کو دعوت دینا اپنی پوری قوم کی خیرخواہی پر مبنی ہے۔
پاکستان جس مقصد کے لیے حاصل کیا گیا تھا وہ اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ یہ ایک آزاد، اسلامی و فلاحی ریاست کا مکمل نمونہ ہوگا۔ بدقسمتی سے ہم ہر سطح پر اپنی اس منزل سے دور ہوتے چلے گئے، جس کے نتیجے میں نعمتوں کا زوال شروع ہو گیا۔ ہم پوری قوم اور ابنائے وطن کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ تمام تعصبات سے بالاتر ہو کر قرآن و سنت کے زندئہ جاوید پیغام کے احیاء کے لیے یک زبان اور یک رنگ ہو جائیں۔ حلقہ ہائے درسِ قرآن، مساجد کی آبادی، نمازوں کی پابندی، معاشرت، معیشت اور سیاست میں سے تمام غیراسلامی رسوم و اعمال کا اخراج اور باہمی محبت و اخوت کے اظہار کے ذریعے حقیقی اسلامی طرزِ زندگی اور اپنی اعلیٰ اخلاقی اقدار کی ترویج کے ساتھ امریکی غلامی سے نکلنے کا اہتمام کریں۔ اسی میں ہماری دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔
ہم ایک محفوظ، پرسکون، مضبوط اور قابل فخر وطن اپنی آنے والی نسلوں کو دے کر جانا چاہتے ہیں تو اس کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے باہمی افتراق وانتشار کا خاتمہ اور رجوع الی اللہ۔ پس آئیے سب مل کر ''سارعوا الی مفغرۃ من ربکم وجنۃ‘‘ کی تصویر بن جائیں۔ پاکستان دنیا کی واحد مسلمان ایٹمی ریاست ہے۔ اس ملک کا دستور اللہ تعالیٰ کی حاکمیتِ اعلیٰ کا دوٹوک اعلان کرتا ہے۔ دستور کو اس کی پوری روح کے ساتھ نافذ کیا جائے تو اسلامی نظام آسانی سے قائم ہوسکتا ہے۔ اس دستور کے تحت حلف اٹھانے والے سیاسی کارکنان وقائدین اور سول وفوجی افسران اگر دفعہ 62،63 پر پورے اتریں تو مکمل اسلامی نظام خود بخود قائم ہوجائے گا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس دستور سے ان دفعات کو خارج کرنے کی باتیں ہورہی ہیں جو اسے پوری دنیا کے دساتیرکے مقابلے میں فوقیت دیتی ہیں۔ ہر بیماری کا علاج رجوع الیٰ اللہ ہے۔