تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     15-08-2017

جلد گھر آ رہا ہوں !

ارض پاکستان کا گمنام بیٹا رات گئے جب اپنی اہلیہ اور دو ننھے منے بچوں سے جلد گھر آنے کا وعدہ کرنے کے بعد اپنی ٹیم کے ہمراہ مالا کنڈ کے ان پہاڑوں کی طرف روانہ ہو ا تو ان میں سے کسی کو بھی امید نہیں تھی کہ وہ واپس بھی آ سکیں گے یا نہیں۔ موت کو اپنے ساتھ ساتھ چلتا ہوا دیکھنے والے گمنام مجاہدوں کو اپنی نہیں اس ملک کی فکر تھی جس کے تحفظ کی انہوں نے قسم کھائی تھی۔ ان کا مقصد اپنی جان دے کر ملک کی سالمیت اور وطن عزیز کے کسی بھی حصے کسی بھی رنگ اور نسل کے لوگوں کی جانب بڑھنے والے ان دہشت گردوں کو تباہ کرنا تھا تاکہ ارض پاک میں رہنے والوں کی زندگیاں اور جان و مال محفوظ رہیں۔ اس رات جب ہم سب اپنے اپنے گھروں اور بستروں میں آرام سے سو رہے تھے تو ملٹری انٹیلی جنس کے میجر علی سلمان اپنے تین ساتھیوں کے ہمراہ کہیں پر چلتے ہوئے تو کہیں ان نوکیلے اور کھردرے پہاڑوں پر رینگتے ہوئے انتہائی حساس آلات اور اسلحے کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے انہیں یہ تو اطلاعات مل چکی تھیں کہ دہشت گرد تیمر گرہ مالا کنڈ کے ان پہاڑوں میں کسی بہت بڑی کارروائی کیلئے موجود ہیں اور ان میں سے تین خود کش بمباروں کو ان کے سہولت کار آج رات کسی بھی وقت پاکستان کے مختلف حصوں میں منتقل کرنے والے ہیں۔جیسے ہی انہیں دوسری اطلاع ملی کے یہاں موجود تین خطرناک خود کش بمبار وں کو پشاور سمیت ملک کے دوسرے حصوں کی جانب روانہ کیا جانے والا ہے تو میجر علی سلمان اور اس کے ساتھیوں کے جسموں میں بجلی سی بھر گئی اور وہ اپنے ٹارگٹ کی نشاندہی کیلئے اپنے تمام ذرائع اور دستیاب وسائل استعمال کرنا شروع ہو گئے کیونکہ وہ جانتے تھے کہ اگر انہیں دیر ہو گئی تو ان کے یہ ٹارگٹ ملک میں نہ جانے کہاں کہاں تباہی اور
بربادی پھیلانے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ ساری رات میجر علی سلمان اپنی ٹیم کے ہمراہ ملا کنڈ کے پہاڑوں میں رینگتے ہوئے ان کی سن گن لیتے رہے اور پھر اپنی جاں توڑ کوششوں کے بعد اس مصدقہ اطلاع کی نشاندہی کرنے میں کامیاب ہو گئے کہ انتہائی خطرناک دہشت گردوں کا تربیت یافتہ گروہ ان کے دائیں ہاتھ موجود کھائی میں بنائے گئے کمپائونڈ میں بنائے گئے مورچوں میں موجود ہے ۔کسی پہاڑ پر موجود ٹارگٹ کی جب بات کی جاتی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں ہوتاکہ جیسے ہی پہاڑ پر پہنچیں گے تو سامنے ہی آپ کا ٹارگٹ کھڑا ہوا یا بیٹھا ہوا نظر آ جا ئے گا۔ ملک کے شمالی حصوں، بلوچستان، افغانستان اور وزیرستان کے پہاڑوں کو قریب سے دیکھنے والے ہی اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان پہاڑوں میں چھپے ہوئے کسی بھی دہشت گرد تک پہنچنا کس قدر مشکل ہو تا ہے اور جب آپ کا سامنا دنیا کے خطرناک ترین دہشت گردوں اور خود کش بمباروں سے ہو جو ان پہاڑوں کے ایک ایک حصے میں موجود کھائیوں، غاروں اوروادیوں سے واقف ہو نے کی وجہ سے کسی ایسی جگہ مورچہ زن ہوں کہ وہاں تک کسی کا جھانکنا بھی نا ممکن ہو تو پھر آپ اندازہ کر سکتے کہ ایسے لوگوں کی سرکوبی کیلئے یہ مشن وہی لوگ اپنے ہاتھوں میں لیتے ہیں جن کے بارے میں کہا گیاہے ...بے خطر کود پڑا آتش نمرود میں عشق ۔۔۔عقل حیران ہے محو تماشائے لب بام ابھی ۔ جیسے ہی میجر علی سلمان کو اپنے ٹارگٹ کی مکمل نشاندہی ہو گئی تو اﷲ کے یہ مجاہد اس آتش فشاں میں کود گئے جہاں اپنے جسموں پر تباہ کن خود جیکٹس پہنے ہوئے دہشت گرد چھپے بیٹھے ہوئے تھے۔
ان دہشت گردوں کو دیکھنے کے بعد ایک لمحے کی بھی تاخیر کئے بغیر میجر علی سلمان نے چھلانگ لگاتے ہوئے ایک دہشت گرد کو قابو کر لیا تو ساتھ ہی ان کی ٹیم کے حوالدار غلام عزیز نے چیتے کی سی پھرتی سے کمپائونڈ میں موجود دوسرے دہشت گرد کو قابو کر لیا۔ رات کی تاریکی نے جیسے ہی پہاڑوں میں گونجنے والی ان آوازوں کو بکھیرا تو ان دہشت گردوں کے تیسرے ساتھی نے جو خود کش جیکٹ پہنے اس کمپائونڈ کے دوسری جانب کھڑا کسی کی آمد کا انتظار کر رہا تھا، ان آوازوں کو سنتے ہی تیزی سے میجر علی سلمان کی جانب بڑھتے ہوئے میجر علی سلمان اور اس کی ٹیم کے ساتھ خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
آج کل سوشل میڈیا پر ملکی سالمیت کو قائم رکھنے والے اداروں کے خلاف دشنام طرازیاں ہو رہی ہیں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ان میں اکثریت بھارتی ہائی کمیشن میں بیٹھے ہوئے ان کی خفیہ ایجنسیوں کے لوگوں کی ہے جو خود کو لبرل کہنے والوں کو استعمال کرتے ہوئے فوج اور عوام میں دوریاں پیدا کرنے کی نا کام کوششیں کر رہے ہیں۔۔۔۔وطن دشمنوں کے ہاتھوں استعمال ہونے والے ان بد بختوں سے پوچھئے جب میجر علی سلمان، حوالدار اختر، حوالدار غلام عزیز اور سپاہی عبد الکریم خود کش جیکٹیں پہنے ان دہشت گردوں کے کمپائونڈ میں کودنے کیلئے اپنے خیموں سے نکلے تھے اس وقت ان کی آنکھوں کے سامنے ان کے بوڑھے ماں باپ، پیارے پیارے معصوم صورت بچوں اور بہن بھائیوں کی شکلیں سامنے نہیں آئی ہوں گی میجر علی سلمان تو چندلمحے پہلے ہی اپنی اہلیہ بوڑھے ماں باپ اور دو ننھے فرشتوں سے وعدہ کر کے خیمے سے نکلے تھے کہ میں جلد گھر آکر آپ سے کھیلوں گا ۔۔۔کیا ان کے قدموں میں کوئی جنبش یا کپکپی آئی کیا ان کے ارادے متزلزل ہوئے ؟نہیں بلکہ وہ ان خود کش بم باروں کو ان کے ساتھیوں سمیت تباہ کرنے کیلئے موت کی وادی کی جانب پہلے سے زیا دہ تیزی سے بڑھے تاکہ اپنے بچوں اور خاندانوں سمیت محفوظ کئے جا سکیں ،ان کے کاروبار اور جان و مال کی حفاظت کی جا سکے ۔۔۔سوچئے اس سے زیا دہ آپ اپنی فوج سے اور کیا توقع رکھنا چاہتے ہیں کہ آپ کا دشمن آپ تک نہ پہنچ سکے ؟
بارہ اگست کی رات کوئٹہ پشین روڈ پر جب پاک فوج کے ٹرک پر خود کش دھماکہ ہوا جس میں آٹھ فوجی جوان اور سات شہری شہید ہوگئے تو اس کی خبر میاں نواز شریف اور ان کے بالکل ساتھ بیٹھے ہوئے وزیر اعلیٰ بلوچستان سردار ثنا اﷲ زہری کو مل چکی تھی لیکن اس کے با وجود نعرے لگوائے جاتے رہے ۔۔۔اور جب میاں صاحب تقریر ختم کر کے جانے لگے تو انہیں کہا گیا کہ کوئٹہ دھماکے کا ذکر کردیں اور جس لہجے اور زبان میں انہوں نے یہ ذکر کیا وہ سب کے سامنے ہے۔۔۔بالکل اسی طرح جیسے انہوں نے گجرات میں بارہ سال حامد کے اپنی گاڑی تلے کچلے جانے پر کیا تھا۔۔۔اگر آپ غور سے گوجرانوالہ میں ان کے خطاب کیے بالکل آخری لمحوں کی ویڈیو دیکھیں۔۔۔تو جیسے ہی وہ جانے لگتے ہیں ایک شخص ان کے کان میں بچے کا ذکر کرنے کو کہتا ہے جس پر وہ اس بچے کی موت پر افسوس ظاہر کرتے ہیں۔
میجر علی سلمان شہید گیارہ اگست کو اپنے بڑے بیٹے سے کئے گئے وعدے کے مطابق اپنے گھر پہنچ تو گئے لیکن قومی پرچم میں لپٹے ہوئے ۔خدا ان کی قبروں پر شبنم افشانی کرے۔۔۔ آیئے ہم سب اپنے اپنے ہاتھ اٹھاتے ہوئے اﷲ کی بار گاہ میں ان کے بلند درجات اور اہل و عیال کیلئے صبر جمیل کی دعا کریں!!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved