کسی بھی معاشرے کے لیے وہ لوگ سخت ناپسندیدہ ہوتے ہیں جو قانون کی راہ سے ہٹ کر چلتے ہوئے اپنے لیے آسانیاں اور دوسروں کے لیے مشکلات پیدا کرنے پر یقین رکھتے ہیں۔ ایسے لوگ جرائم پیشہ کہلاتے ہیں۔ یہ ''جرائم پیشہ‘‘ کی اصطلاح بھی خوب ہے۔ معاشرے میں سو طرح کے پیشے پائے جاتے ہیں۔ ایسے میں جرائم بھی پیشوں میں شمار کرلیے گئے ہیں یعنی قانون کی راہ سے ہٹ کر چلیے تو یہ بھی ایک پیشہ ہے اور جو لوگ جرائم کو اپنا پیٹ بھرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں انہیں جرائم پیشہ کہیے۔
کام کرے یا نہ کرے یہ الگ بحث ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ ہمارے ہاں پولیس کے پاس کام بہت زیادہ ہے۔ شہر ہوں یا قصبے یا پھر دیہات، جرائم کی راہ پر چلنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔ بات سیدھی سی ہے، اگر بہت کچھ بہت آسانی سے مل رہا ہو تو لوگ کیوں ایسا نہ کرنا چاہیں گے؟ معاشرہ ترقی یافتہ ہو یا یکسر غیر ترقی یافتہ، قانونی طریقے سے زندگی بسر کرنے والوں کے لیے زندگی آسان نہیں ہوتی۔ انہیں کمانے کے لیے بہت محنت کرنا پڑتی ہے۔ دن رات ایک کرکے اپنے کے لیے کچھ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ایسے میں وہ لوگ زیادہ مزے میں دکھائی دیتے ہیں جو قانون کی دھجیاں اڑاتے ہوئے زندگی بسر کر رہے ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ ہی مزے میں دکھائی دیتے ہیں جن کی زندگی میں قانون نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی اور جو دن رات زیادہ سے زیادہ دَھن اکٹھا کرنے کی دُھن میں حرام و حلال کے فرق کو بالائے طاق رکھتے ہوئے وہ سب کچھ کر رہے ہوتے ہیں جو کسی بھی طور نہیں کیا جانا چاہیے۔
مگر خیر، یہ بھی ''مقامِ شکر‘‘ ہے کہ ہماری پولیس کے پاس کرنے کو کچھ ہے تو سہی۔ کئی ترقی یافتہ معاشرے اِس وقت ایسے حالات پیدا کر رہے ہیں کہ پولیس اور قانون نافذ کرنے والے دیگر اداروں کے لیے شدید نفسی نوعیت کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ بعض معاشروں میں جرائم کی شرح اس قدر کم رہ گئی ہے کہ پولیس اور دیگر متعلقہ ادارے دن رات اِسی اُدھیڑ بُن میں رہتے ہیں کہ کریں تو کیا کریں، وقت کیسے کاٹیں۔ کسی نے خوب کہا ہے ؎
کروں گا کیا جو محبت میں ہوگیا ناکام
مجھے تو اور کوئی کام بھی نہیں آتا!
اِس شعر میں ناکامی کا رونا رویا گیا ہے اور ترقی یافتہ معاشروں میں کامیابی نے خرابیاں پیدا کی ہیں۔ کئی ترقی یافتہ معاشروں کی پولیس کے پاس اب کرنے کو کچھ رہا نہیں۔ حکومت بھی سمجھ نہیں پارہی کہ ایسے میں ایسا کیا کرے جس سے قانون نافذ کرنے والوں کے ذہن بے کاری کے ہاتھوں الجھنے سے محفوظ رہیں۔ اہل مسئلہ یہ بھی ہے کہ قانون نافذ کرنے کے نام پر بھرتی کیے جانے والوں کو اور کوئی کام بھی نہیں آتا اس لیے اُنہیں فارغ کرنا بھی دشوار ہے۔ بے کاری نے قانون نافذ کرنے والوں کو مختلف ذہنی الجھنوں سے دوچار کر رکھا ہے۔
سنگاپور ہی کی مثال لیجیے۔ وہاں پولیس کے لیے کام بہت دشوار ہوگیا ہے۔ دشوار اس لیے کہ کرنے کو کچھ ہے ہی نہیں۔ جرائم کا گراف صفر کو چھو رہا ہے۔ پولیس ایک زمانے سے بے کار بیٹھی ہوئی ہے۔ اور یوں صلاحیتوں کو زنگ لگ رہا ہے۔ دو ہفتوں سے سنگاپور کی پولیس کے پاس صرف ایک کام ہے۔ کسی مسافر نے ایک بس میں سیٹ پر تین چار ٹوتھ پک لگادی تھیں۔ یہ کام شرارتاً کیا گیا تھا تاکہ وہ ٹوتھ پکس کسی کو چُبھیں۔ شہر کی پولیس تفتیش میں لگ گئی ہے۔ سی سی ٹی وی فوٹیج اور بس کے ٹکٹوں کا ریکارڈ کھنگال کر اُس شخص تک پہنچنے کی کوشش کی جارہی ہے جس نے یہ حرکت کی ہے۔ اگر جرم ثابت ہو جائے تو دو سال تک کی سزا ہوسکتی ہے۔
اِدھر سزا پر غور کیا جارہا ہے اور ہم یہ سوچ رہے ہیں کہ جس نے بس کی سیٹ پر ٹوتھ پکس لگائی ہیں اُس شخص کو تو انعام ملنا چاہیے کہ اُس نے پولیس کے لیے کوئی کام تو نکالا، فارغ بیٹھی ہوئی پولیس کے لیے مصروفیت کا بہانہ تو ڈھونڈا! جرائم پیشہ افراد اوروں کے محسن ہوں نہ ہوں، پولیس کے تو بہت بڑے محسن ہوتے ہیں کہ اُسے مصروف رکھتے ہیں، تنخواہ حلال کرنے کی راہ ہموار کرتے ہیں! اور بس کی سیٹ پر ٹوتھ پکس نہ لگائی جاتیں تو سنگاپور کی پولیس کیا کرتی؟ ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہتی، مفت کی روٹیاں توڑتی رہتی۔ اور سنگاپور کی پولیس خاصی مدت سے فارغ ہی ہے۔ بات یہ ہے کہ جرائم کی شرح بہت گِر گئی ہے جس کے نتیجے میں فراغت کا وقفہ بڑھ گیا ہے۔ خالی ذہن شیطان کا کارخانہ ہوتا ہے۔ انسان اگر کچھ نہ کر رہا ہو تو الٹا سیدھا سوچتا رہتا ہے۔ سنگاپور اور دیگر ترقی یافتہ معاشروں کی پولیس کیلئے بھی فراغت ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ کرنے کو کچھ نہ ہو تو انسان انٹ شنٹ سوچتا رہتا ہے اور جو کچھ سوچتا ہے اس پر عمل بھی کر گزرتا ہے۔
سنگاپور کی پولیس کو خاصے طویل وقفے کے بعد کچھ کام ملا ہے۔ ڈھائی سال قبل ایک شخص نے فلیٹ کی کھڑکی سے سگریٹ کے ٹوٹے پھینک دیئے تھے۔ اس پر کئی ماہ تک تفتیش کی جاتی رہی۔ کئی کمیٹیاں تشکیل دی گئیں۔ کئی زاویوں سے بنائی گئی سی سی ٹی وی فوٹیج کا جائزہ لیا گیا تاکہ مجرم تک پہنچا جاسکے۔ کئی ماہ کی دوڑ دھوپ کے بعد ''مجرم‘‘ کا سراغ لگایا گیا۔ ہمارے خیال میں اتنی ساری محنت ''مجرم‘‘ کا سراغ لگانے سے زیادہ اس بات کے لیے تھی کہ پولیس کے محکمے کا جواز پیش کیا جاسکے!
یورپ میں کئی معاشروں میں جرائم کی شرح ''قابلِ رحم‘‘ حد تک کم ہے۔ اسکینڈینیوین ممالک کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ وہاں چوریاں ہوتی ہیں نہ ڈاکے ڈالے جاتے ہیں۔ اور قتل کو تو بھول ہی جائیے۔ ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ جن معاشروں میں جرائم نہیں ہوتے وہاں لوگ کیا کرتے ہیں اور اِس سے بڑھ کر یہ کہ پولیس کیا کرتی ہے!
ترقی یافتہ معاشروں میں تحقیق کی بیماری کچھ زیادہ پھیلی ہوئی ہے۔ لطیفہ یہ ہے کہ اب اِن معاشروں میںکام کم اور تحقیق زیادہ کی جارہی ہے! وہ وقت زیادہ دور نہیں جب پولیس کے جواز و عدم جواز کے حوالے سے تحقیق کا بازار بھی گرم ہوگا اور اس امر پر زیادہ تحقیق کی جائے کہ فارغ بیٹھی ہوئی پولیس فورس میں کس نوعیت کی نفسی پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہیں اور اِن پیچیدگیوں کو کس طور دور کیا جاسکتا ہے! اور یہ بھی ممکن ہے کہ ماہرین فارغ بیٹھی ہوئی پولیس فورس کو مختلف نفسی پیچیدگیوں سے بچانے کے لیے جرائم کا گراف بلند کرنے کرنے کی تجویز پیش کریں! ایسے میں ہمیں اپنے معاشرے میں پائے جانے والے جرائم پیشہ افراد کو دعا دینی چاہیے کہ انہوں نے پولیس فورس کو مصروف رکھ کر بہت سی ذہنی الجھنوں سے بچا رکھا ہے!