تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     16-08-2017

نفس کے وار

انسانی نفس دنیا کا پیچیدہ ترین رویہ رکھتا ہے ۔ انسان وہ واحد جانور ہے ، جو مثبت الفاظ کو طنزیہ طور پر کہتے ہوئے منفی انداز میں چوٹ کرتا ہے ۔ گزشتہ روز عرض کیا تھا کہ بظاہر مختلف لوگ ایک جیسی صورتِ حال میں مختلف انداز میں ردّعمل دیتے ہیں لیکن درحقیقت انسانی نفس ایک جیسی صورتِ حال میں ایک ہی طرح کا ردّعمل ظاہر کرتاہے ۔ بظاہر جو مختلف روّیہ ہمیں نظر آتا ہے ، اس کی وجہ یہ ہے کہ منفرد نظر آنے کے لیے انسان اپنے اصل احساسات اور جذبات کو چھپاتا ہے ۔اپنی اصل کیفیات کو وہ concealکرتا ہے ، یہ ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ بہت بردبار ہے ۔ خود کو زیادہ قوتِ برداشت کا مالک ظاہر کرنے کے پسِ منظر میں یہ خواہش چھپی ہوتی ہے کہ لوگ اس کی تعریف کریں ۔ تعریف سے نفس کو انتہائی خوشی ملتی ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ نفس کے اندر اپنی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔ کوئی آپ کی تعریف کرے، آپ اسے نہیں بھول سکتے ۔ کوئی آپ کے اندر کیڑے نکالے ، آپ اس کو بھی نہیں بھول سکتے ۔ڈیل کارنیگی کی کتاب ''میٹھے بول کا جادو‘‘ اور ایسی دوسری تصانیف ، جس نے لاکھوں نہیں ، کروڑوں لوگوں کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی، ان سب کاماخذ نفس کی یہ خودپسندی کی عادات ہی تھیں ۔ ڈیل کارنیگی کو بخوبی طور پر علم تھا کہ انسانی عادات میں خود پسندی چھپی ہوئی ہے لیکن اس خودپسندی کی وجہ کیا ہے ، یہ اسے بھی معلوم نہیں تھا ۔ اس خودپسندی کی وجہ یہ ہے کہ اللہ نے نفس کے اندر آخری درجے کی خود غرضی رکھی ہے ۔ نفس ہر حال میں اپنی تسکین چاہتا ہے اور دوسروں کے لیے کچھ کرتے ہوئے اسے موت پڑتی ہے ۔ یہ نفس انسانوں میں نہیں بلکہ جانوروں میں بھی اسی طرح سے کام کرتاہے ۔ یہی وجہ تھی کہ جب فرشتے مٹی اور پانی سے بنے ہوئے گوشت پوست کے جانداروں کو دیکھتے تھے اور جب انہیں معلوم ہوا کہ ان میں سے ایک کو زمین پر خلافت دی جارہی ہے تو وہ حیرت زدہ ہو کر رہ گئے ۔ انہوں نے اپنا اعتراض خدا کے سامنے پیش بھی کیا کہ یہ لوگ تو ایک دوسرے کا خون بہاتے ہیں ۔ ان میں سے کوئی کیسے خدا کا نائب ہو سکتاہے ۔ انہیں اس بات کا علم ہی نہیں تھا کہ ابھی خدا نے ان میں سے ایک کو عقل دینی ہے ۔ پھر ہر چیز کو وہ ایک نام دے گا ۔ پھر اپنی عقل سے، علم سے کام لے کر وہ کائنات پر تبصرہ کرے گا ۔پھر خدا اسے کہے گا کہ اپنی خواہش اور میری رضا میں سے ایک کو اختیار کر ۔ پھر ان میں سے کچھ اپنی خواہش پر خدا کی رضا کو ترجیح دیں گے ۔ کیا خوبصورت صورتِ حال ہے ۔دل جھوم اٹھتا ہے ۔ 
بات دوسری طرف نکل گئی ۔نفس احساسِ عدم تحفظ کا مارا ہوا ہے ۔ ایک عورت کو اگر یہ پتہ چلتا ہے کہ اس کا شوہر دوسری شادی پر غور کر رہا ہے تو ہمیشہ وہ احساسِ عدم تحفظ کے تحت ہی ردّعمل دے گی ۔نفس کب یہ پسند کر تا ہے کہ اسے دو یا تین یا چار میں سے ایک کا درجہ دیا جائے ۔ وہ تو یہ چاہتا ہے کہ اسے سب سے منفرد والے کا درجہ دیا جائے بلکہ نفس تو یہ چاہتا ہے کہ انسان اسے اپنا خدا بنا لے اور اس کی پرستش کرے۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ یا تو انسان خدا کی پرستش کرتاہے یا پھر اپنے نفس کی ۔یا تیسری کوئی صورت ہے تو وہ جدوجہد کی ہے ۔ کسی یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو معلوم ہو کہ اس کی جگہ کسی دوسرے شخص کو اس کا منصب سونپا جا رہا ہے تو بالکل وہی ردّعمل آپ کو وہاں نظر آئے گا، جو کہ عورت کو دوسری شادی کا
سن کر ہوتا ہے ۔ بظاہر مختلف صورتِ حال میں مصیبت کا شکار دونوں مردو زن ایک ہی طرح سے اپنے جذبات کا اظہار کریں گے ۔ اکثر بچّوں کا جب نیا بھائی یا بہن دنیا میں آتی ہے اور جب والدین اسے زیادہ پیار دیتے ہیں تو اکثر ان میں حسد کا جذبہ پیدا ہوتاہے لیکن یہ جذبہ مختلف بچوں میں مختلف شدّت کا ہوتا ہے ۔ بعض ایسے بھی ہوتے ہیں کہ جن میں یہ نہ ہونے کے برابر ہوتاہے ۔ احساسات وجذبات کے اس فرق کے ذریعے خدا انسان کو آزماتا ہے ۔ انہی جذبات و احساسات میں انسان کی آزمائش چھپی ہوتی ہے ۔زیادہ نوٹ کرنے والی بات یہ ہے کہ آزمائش اسی چیز میں سے آتی ہے ، جو آپ کو زیادہ مختلف لگتی ہے ۔ جو آپ کے مزاج کے خلاف ہوتی ہے ۔ اس کے برعکس دوسرے بہت سے لوگوں کے لیے وہ مشکل کام، جو آپ آسانی سے کر سکتے ہیں ، اس میں سے عموماً آزمائش نہیں آتی ۔ یہ میرا ذاتی مشاہدہ (observation)ہے ، جو کہ محدود اور غلط بھی ہو سکتی ہے ۔ 
کہا جاتا ہے کہ کامیابی سے زیادہ گمراہ کرنے والی چیز کوئی نہیں ۔ نفس کا یہ روپ دیکھنا ہو تو ایک محفل میں کسی شخص پر چوٹ کر کے دیکھ لیں ، جس پر سب ہنس پڑیں ۔ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ ایسی صورت میں اپنی تذلیل پر نفس پلٹ کر وار نہ کرے ۔ اگر وہ پلٹ کر وار نہیں کرتا تو اس کی وجہ مجبوری ہو سکتی ہے ۔ مثلاً ایک شخص کا بہنوئی اس پر محفل میں چوٹ کرتاہے ، جس میں اس کی تضحیک ہوتی ہے ۔ اب اس صورتِ حال میں نفس زخمی ضرور ہوتاہے لیکن مجبوری کی وجہ سے ، اپنی بہن کی وجہ سے وہ پلٹ کر وار نہیں کرتا۔ پھر بھی اندر ہی اندر وہ زخمی ضرورہو جاتا ہے ۔ پھر اس مجبوری کی بھی محدودات ہوتی ہیں ۔ ایک خاص حد سے گزرنے کے بعد وہ اس مجبوری کو ایک طرف رکھ کر پلٹ کر وار کر دیتاہے ۔ہم دیکھ سکتے ہیں کہ بعض اوقات سالا بہنوئی سیاسی بحث میں ایک دوسرے سے لڑ پڑتے ہیں ۔ وجہ یہی ہے کہ انسان کا دنیا میں سب سے طاقتور کوئی حریف اگر ہے تو وہ اس کا اپنا نفس ہے ۔ اس کے بعد دوسرا طاقتور حریف حالات ہوتے ہیں ۔ بعض لوگ جو ان دونوں سے نہیں لڑ سکتے ، وہ اپنی جسمانی قوت سے دوسروں کو مرعوب کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اس میں بھی نفس کا فریب چھپا ہوتا ہے ۔ ہاں ، البتہ اگر مجبوری نہ ہونے کے باوجود ایک شخص اپنی تضحیک پر پلٹ کر وارنہیں کرتا تو اس کی وجہ یا تو اس کے مزاج میں انتہائی نیکی کا ہونا ہو سکتاہے یا پھر ممکن ہے کہ وہ علم کی دولت سے مالا مال ہو ۔ اس علم و عقل کی دولت سے ، جو خدا سے ہدایت یافتہ ہو ۔ 
محفل میں جب لوگ آپ کی بات پر ہنستے ہیں تو اس سے نفس میں سرشاری کی کیفیت پیدا ہوتی ہے ۔ مخصوص مادے (کیمیکلز) دماغ میں خارج ہوتے ہیں ۔ ایک قسم کے نشے کی حالت میں انسان چلا جاتاہے ۔ نفس اس صورت میں ضرورت سے زیادہ پراعتماد(overconfident)ہو جاتاہے ۔ وہ بار بار دوسروں کی تضحیک سے سب کو ہنسانے کی کوشش کرتاہے ۔ مسئلہ یہ ہے کہ جس شخص کی توہین ہو رہی ہوتی ہے ، اس کے سر میں بھی اسی طرح کا دماغ ہوتاہے ۔ وہ پلٹ کروار کرتاہے ۔ یوں ایک جنگ چھڑ جاتی ہے ۔ بعض صورتوں میں یہ ایک طویل جنگ پر بھی منتج ہو سکتی ہے ۔ نفس کا اگر کوئی علاج ہے تو وہ علم ہے ۔ یہی علم اسے خدا کی طرف لے جاتا ہے ۔ یہی اسے بہتر روّیہ سکھاتا ہے ۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved