تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     17-08-2017

پیپلز پارٹی کہاں کھڑی ہے

1993 میں پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک امتحانی صورتحال کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ یہ صورتحال صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نواز شریف کے درمیان چپقلش کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ بدقسمتی سے اس امتحان میں پیپلز پارٹی بری طرح فیل ہو گئی تھی کیونکہ اس نے اس چپقلش کو دو اداروںکی دیرینہ لڑائی کا تسلسل سمجھنے کے بجائے دونوں اصحاب کی ذاتی لڑائی سمجھا اور وزیر اعظم کے مقابلے میں صدر کا ساتھ دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں بلوچستان سے قوم پرست جماعتوں نے بہتر سیاسی شعور کا مظاہرہ کرتے ہوئے نواز شریف کو سپورٹ کیا تھا۔ نواز شریف کے مقابلے میں غلام اسحاق خان کا ساتھ دے کر پیپلز پارٹی نے ایسی غلطی کی جس کا اسے اب تک خمیازہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ پنجاب میں اس کے قدم اگر ابھی تک نہیں جم پا رہے تو اس کی ایک بڑی وجہ وہی فیصلہ تھا جس کی بنیاد کسی نظریے پر نہیں بلکہ صریحاً سیاسی موقعہ پرستی پر رکھی گئی۔ اس وقت بھی پیپلز پارٹی کے کچھ رہنما اس فیصلے کے خلاف تھے اور چاہتے تھے کہ پارٹی غلام اسحاق خان کے بجائے وزیر اعظم کا ساتھ دے‘ کیونکہ معاملہ اصولی طور پر عوامی حاکمیت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان کشمکش سے متعلق تھا۔ جو لوگ اس کھینچا تانی میں پیپلز پارٹی کا وزن وزیر اعظم نواز شریف کے پلڑے میں ڈالنا چاہتے تھے‘ ان میں پارٹی کے ایک ممتاز رہنما سینیٹر فرحت اللہ بابر بھی شامل تھے۔ آ ج پاناما کیس کے فیصلے کے بعد کی صورت حال میں بھی ان کا موقف پارٹی کے دیگر دو ممتاز رہنمائوں‘ سینیٹ میں قائدِ حزب اختلاف سینیٹر اعتزاز احسن اور پیپلز پارٹی پنجاب کے صدر قمر زمان کائرہ سے مختلف ہے۔ سینیٹ میں اپنی تقریر میں 1988 سے 2011 تک پیپلز پارٹی کے خلاف نواز شریف کی سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا ذکر کرنے کے بعد انہوں نے کہا کہ ان تمام زیادتیوں کے باوجود ''میں پاناما کیس کے فیصلے اور وزیر اعظم کی نااہلی کو ویلکم نہیں کر سکتا‘‘۔ فرحت اللہ بابر کے علاوہ پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی ایک اور رکن سینیٹ کریم خواجہ نے بھی کم و بیش ایسے ہی خیالات کا اظہار کیا‘ لیکن اعتزاز احسن اور قمر زمان کائرہ کی طرف سے نواز شریف پر حملے‘ تحریک انصاف کی یلغار سے مختلف نہیں۔ انہوں نے نہ صرف پاناما لیکس کیس کی تفتیش کرنے والی جے آئی ٹی کے طریقہ کار کی حمایت کی اور سپریم کورٹ کے پانچ ججوں کے فیصلے کو تاریخی قرار دیا‘ بلکہ پاکستان کے سیاسی نظام میں سویلین اور عسکری قوتوں میں عدم توازن دور کرکے اول الذکر کی بالادستی کے قیام کے لئے نواز شریف کی کال سے بھی لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔ سابق وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی نے نواز شریف کی اس تجویز سے اتفاق کیا ہے کہ 2006 میں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کے درمیان طے پانے والے چارٹر آف ڈیموکریسی کو مزید بہتر بنانے کے لئے دونوں پارٹیاں پھر مل بیٹھ سکتی ہیں‘ لیکن اعتزاز احسن اور کائرہ صاحب نے اس مرحلے پر مسلم لیگ ن کے ساتھ کسی قسم کے ڈائیلاگ کے امکانات کو مسترد کر دیا ہے۔ ان کا استدلال ہے کہ نواز شریف کی طرف سے اس قسم کی تجاویز پاناما کیس سے پیدا ہونے والی مشکلات سے نکلنے کے لئے پیش کی جا رہی ہیں؛ چنانچہ ان کی جانب سے کسی بھی کال کی طرف کوئی توجہ نہیں دیں گے۔ ان مسائل پر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا موقف اور بھی سخت ہے۔ اپنے ایک بیان میں انہوں نے کہا کہ کسی معاملے پر مسلم لیگ ن سے کوئی رابطہ نہیں ہوا اور نہ ہی کسی قسم کا رابطہ قائم کرنے کا ارادہ ہے۔ ان کا استدلال بھی یہی ہے کہ ماضی میں مسلم لیگ ن کبھی پیپلز پارٹی کے کام نہیں آئی‘ بلکہ جب موقعہ ملا‘ مسلم لیگ ن نے پیپلز پارٹی کے خلاف سازشیں کیں‘ اور نواز شریف اس وقت چارٹر آف ڈیموکریسی کا جائزہ لے کر اسے مزید بہتر بنانے یا سویلین بالا دستی قائم کرنے کی جو باتیںکر رہے ہیں‘ ان کا مقصد محض موجودہ مشکل حالات سے نجات حاصل کرنا ہے۔ انہوں نے چیئرمین سینیٹ کی طرف سے انتظامیہ‘ عدلیہ اور فوج کے درمیان آئین کی حدود کے اندر اپنے اختیارات استعمال کرنے کے لئے ڈائیلاگ کی بھی مخالفت کی ہے۔
جہاں تک ماضی کا تعلق ہے تو مسلم لیگ ن کے ہاتھوں پیپلز پارٹی کی مختلف حکومتوں اور رہنمائوں نے جو نقصانات اٹھائے‘ وہ تاریخ کا حصہ ہیں۔ ان سے کوئی انکار نہیں کر سکتا‘ لیکن اس عرصے میں پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا ہے۔ تاریخی عمل کا حصہ ہونے کی بنا پر افراد اور سیاسی پارٹیاں بھی ارتقائی مراحل سے گزرتی ہیں اور تجربات کی روشنی میں اپنے نظریات ایڈجسٹ کرتی ہیں۔ جنرل مشرف کے ہاتھوں معزول ہونے اور جلا وطنی کی صعوبتیں سہنے کے بعد نواز شریف کے خیالات میں تبدیلی پیدا ہوئی‘ جس کا ثبوت 2007 کے بعد ملک کی داخلہ اور خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے بیانات ہیں۔ قائد اعظم محمد علی جناح سویلین بالادستی کے سب سے بڑے چیمپئن تھے۔ ان کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے کوشش کی اور اس کوشش میں جان دے دی۔ گزشتہ پندرہ برس میں نواز شریف نے تسلسل کے ساتھ اس اصول کے حق میں آواز بلند کی ہے۔ اس لئے یہ دعویٰ کہ سابق وزیر اعظم اس وقت سویلین بالادستی کی بات محض اس لئے کر رہے ہیں کہ وہ پاناما کیس کے بھنور سے باہر آنا چاہتے ہیں‘ حقائق کے منافی ہے۔ جہاں تک چارٹر آف ڈیموکریسی کے نکات پر عمل درآمد کا تعلق ہے تو اس میں ناکامی کی ذمہ داری دونوں سیاسی جماعتوں پر عائد ہوتی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ جن اصولوں کی بنیاد پر چارٹر آف ڈیموکریسی کی صورت میں دونوں جماعتوں کے درمیان اتفاق ہوا تھا‘ وہ آج بھی ریلیونٹ ہیں اور آنے والے دنوں میں ان کی ریلیونس (Relevence) میں اور بھی اضافہ ہو جائے گا‘ کیونکہ ملک کے اندر جمہوریت آہستہ آہستہ جڑیں پکڑ رہی ہے۔ لوگوں میں اپنے حقوق کے بارے میں آگاہی بڑھ رہی ہے۔ جو باتیں پہلے لوگ سرگوشیوں میں کرتے تھے‘ اب برملا کہہ رہے ہیں۔ اگر ان کا جواب نہ دیا گیا تو یہ آوازیں احتجاجی نعروں کی شکل اختیار کر سکتی ہیں کیونکہ لوگ اپنی آنکھوں کے سامنے ہسپتالوں کی حالت بد سے بدتر ہوتی دیکھ رہے ہیں‘ تعلیم کا شعبہ خصوصاً سرکاری سکولوں اور کالجوں میں درس و تدریس کا نظام تباہ ہو چکا ہے۔ حالات کو بہتر بنانے کے لئے جس حکومت کو وہ منتخب کرتے ہیں اس کی راہ میں طرح طر ح کے روڑے اٹکائے جاتے ہیں۔ لوگ بجا طور پر پوچھتے ہیں کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ ملک سے باہر خصوصاً ہماری ہمسائیگی میں حالات جو رخ اختیار کر رہے ہیں وہ پاکستان کے لئے سازگار نہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ابھی تک افغانستان کے بارے میں نئی حکمت عملی کا اعلان نہیں کیا‘ لیکن اس کے بارے میں جو ابتدائی معلومات حاصل ہو رہی ہیں‘ ان سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کو اپنی مغربی سرحدوں پر سخت چیلنجوں کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مشرقی سرحدوں پر حالات پہلے ہی لائن آف کنٹرول پر آئے دن کی جھڑپوں کی وجہ سے مخدوش ہیں۔ میرے خیال میں ایسی صورتحال میں ملک کی سیاسی قیادت کو عوام کی امنگوں اور قومی مفادات کے مطابق فیصلے کرنے کا مکمل اختیار ہونا چاہئے اور یہ تبھی ممکن ہے جب ملک میں جمہوری سیاسی عمل کے تسلسل کی ضمانت ہو۔ اگر یہ ضمانت حاصل کرنے کے لئے تمام سیاسی پارٹیاں کسی ایک لائحہ عمل پر متفق ہو جائیں تو یہ قوم اور ملک کی بہت بڑی خدمت ہو گی‘ کیونکہ جمہوری‘ سیاسی عمل کے تسلسل اور پائیداری کی ضمانت نہ ہونے کی وجہ سے کوئی بھی سیاسی پارٹی‘ خواہ وہ انتخابات میں کامیابی حاصل کرکے حکومت ہی کیوں نہ بنا لے‘ پوری توجہ اور توانائی کے ساتھ اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد نہیں کر سکے گی۔ جب کوئی پارٹی اکثریت کی حمایت سے انتخابات میں کامیابی حاصل کرتی ہے‘ تو اس کا مطلب یہی ہوتا ہے کہ اس کے ایجنڈے کو نہ صرف اکثریت کی حمایت حاصل ہوتی ہے بلکہ اکثریت کی خواہش ہے کہ اس پارٹی کی حکومت اپنے ایجنڈے پر عمل درآمد بھی کرے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ عالم ہے کہ سیاسی حکومت بنتے ہی اسے گرانے کی کوششیں شروع ہو جاتی ہیں۔ گزشتہ ستر برس سے ملک میں یہی ہو رہا ہے‘ لیکن جیسا کہ سابق وزیر اعظم نے کہا کہ اب یہ تماشا ختم ہو جانا چاہئے۔ میرے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی پر بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس مقصد کے حصول کے لئے مسلم لیگ ن کا ساتھ دے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved