عوام کی خدمت مشن‘ ہر رکاوٹ دور کریں گے : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''عوام کی خدمت مشن ہے اور ہم ہر رکاوٹ دور کریں گے‘‘ اگرچہ اتنی خدمت اب تک اکٹھی ہو چکی ہے کہ سنبھالی ہی نہیں جا رہی اور اصولی طور پر مزید خدمت کی ضرورت ہی نہیں ہے لیکن یہ خدمت ایسی چیز ہے کہ اس کی حرص میں اضافہ ہی ہوتا رہتا ہے اور جہاں تک رکاوٹوں کا تعلق ہے تو اُنہیں اس طرح دُور کریں گے کہ میثاق جمہوریت کے اہم فریق‘ پیپلز پارٹی کے ساتھ اس اشتراک کو پھر زندہ کیا جائے گا اور اُسے اگلی باری دے کر دُشمن کے دانت کھٹے کر دیئے جائیں گے کیونکہ حسب روایت اگلی بار پھر ہماری باری آ جائے گی‘ ویسے بھی ہم دونوں مل کر ہی عمران خان کو ہرا سکتے ہیں اور اس سے زیادہ نیچرل الائنس اور کوئی ہو ہی نہیں سکتا‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز جاتی امراء میں ایک غیر رسمی مشاورتی اجلاس کی صدارت کر رہے تھے۔
مسلم لیگ کی حکومت نے کرپشن فری کلچر دیا : شہبازشریف
خادم اعلیٰ شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''مسلم لیگ کی حکومت نے کرپشن فری کلچر دیا مخالفین بھی ہم پر انگلی نہیں اُٹھا سکتے‘‘ اگرچہ ابھی کل ہی میں یہ کہہ رہا تھا کہ ملک میں ہر خرابی کی اصل وجہ کرپشن ہے اور میرے سمیت تمام اشرافیہ اس وقت کٹہرے میں کھڑ ی ہے‘ تاہم اس بیان کو چوبیس گھنٹے سے زیادہ ہو چکے ہیں اس لیے میں اپنے اس سابقہ بیان کی طرف رجوع کرنا ہوں کہ ملک سے کرپشن کو جڑ سے اکھاڑ دیا ہے اور اس کا بُت پاش پاش کر دیا ہے‘ تاہم میں کرپشن کے بڑھتے ہوئے ناسور کے خلاف تازہ بیان جاری کرنے کا حق محفوظ رکھتا ہوں کیونکہ عوام میرے دونوں طرح کے بیانات کو فوراً تسلیم کر لیتے ہیں چنانچہ فی الحال یعنی میرے اگلے بیان تک ملک کو کرپشن فری ہی سمجھا جائے۔ آپ لاہور میں موبائل لیبارٹریز کا معائنہ کر رہے تھے۔
جانتا ہوں کہ سپریم کورٹ نے نوازشریف کو کیوں نکالا : گورنر سندھ
گورنر سندھ محمد زبیر نے کہا ہے کہ میں جانتا ہوں کہ ''سپریم کورٹ نے نوازشریف کو کیوں نکالا‘‘ اور چونکہ نوازشریف کو یہ بات معلوم ہی نہیں ہے اور وہ ہر جگہ اور بار بار یہی پوچھتے پھر رہے ہیں کہ مجھے سپریم کورٹ نے کیوں نکالا تو مجھے فون کر کے بھی پوچھ سکتے تھے جو انہوں نے اس لیے غیر محفوظ سمجھا کہ آج کل فون ٹیپ بھی کئے جا رہے ہیں‘ اس لیے اس کارخیر کے لیے مجھے ہی لاہور کا سفر طے کرنا پڑے گا تاکہ اس سربستہ راز سے اُنہیں آگاہ کر سکوں اور اُنہیں آئندہ ہر شخص سے یہ نہ پوچھنا پڑے کہ انہیں سپریم کورٹ نے کیوں نکالا ہے کیونکہ پورے پنجاب میں اور کوئی نہیں ہے کہ اس گھُتی کو سُلجھا سکے اور نوازشریف کی یہ پریشانی دُور کر سکے اور میں بھی اپنے گورنر بنائے جانے کا کچھ معاوضہ تو ادا کر سکوں‘ اور مجھے اُمید ہے کہ آئندہ بھی اس طرح کی خدمات سرانجام دیتا رہوں گا‘ کیونکہ اِدھر سندھ میں مجھے اور تو کوئی کام ہے ہی نہیں۔ آپ اگلے روز کراچی میں ایک بیان جاری کر رہے تھے۔
نوازشریف کا آج کوئی متبادل نہیں ہے : راجہ ظفر الحق
مسلم لیگ نون کے رہنما راجہ ظفر الحق نے کہا ہے کہ ''آج نوازشریف کا کوئی متبادل نہیں ہے‘‘ البتہ کل اور پرسوں کے بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ کوئی متبادل کہیں سے پیدا ہو جائے جبکہ خاکسار کے بارے میں بھی یہ گمان کیا جا سکتا ہے اور اس وقت پارٹی میں بدمزگی کے لحاظ سے بھی میرا کوئی ہمسر نہیں ہے کہ تجربے کا تو کوئی نعم البدل ہے ہی نہیں جسے میری نوے سالہ زندگی کا نچوڑ کہا جا سکتا ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹی وی چینل پر اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
عرفان ستار اور زاہد مسعود کی آمد
چند روز پہلے عرفان ستار جو کینیڈا سے آئے ہوئے تھے‘ زاہد مسعود کے ہمراہ ان کی تشریف آوری ہوئی۔ عرفان ستار پہلے کراچی میں ہوا کرتے تھے۔ دو شعری مجموعے شائع ہو چکے ہیں‘ اب ان دونوں کا ایک انتخاب شائع کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ دونوں حضرات کی ایک ایک غزل موبائل پر ریکارڈ کی تھی جو مبہم اور ناقابل مطالعہ نکلیں۔ زاہد مسعود ''چھوٹی چھوٹی نظمیں‘‘ کے عنوان سے اپنا مجموعہ عنایت کر گئے تھے جس میں سے چند نظمیں ملاحظہ ہوں :
مُفت چیزوں کی تجارت زیادہ منافع بخش ہے
ہوا تو مُفت ہوا کرتی تھی؍لیکن اب ٹھنڈی ہوا؍ اور گرم ہوا کا بل آتا ہے؍ پانی مفت ملا کرتا تھا؍لیکن گٹروں نے ان کو آلودہ کر رکھا ہے؍پینے کے پانی کی بوتل؍پچاس روپے میں ملتی ہے؍ کچھ بھی مفت نہیں؍ یاد آیا کہ ؍ مرغا سب سے سستا ہے؍ لیکن مُفت نہیں ہے۔
وہ نظم جس کا عنوان بچے سوچیں گے
بچو؍ تم کو اپنی خاطر؍ خود ہی نظمیں کہنی ہوں گی؍ ٹوٹ بٹوٹ اور؍ گائے ؍ فرصت کی باتیں تھیں ؍ اب شاعر مصروف بہت ہیں؍ روٹی روزی کی فکروں میں!!
ترقی کے فوائد سب کے لیے نہیں ہوتے
موٹر وے سے؍ نیچے اتریں؍ پانچ کلومیٹر پہ؍ وہی پرانے رستے ہیں؍ فارغ بیٹھے؍ خاک بسر؍ چوری کے گنے چُوستے لوگ ملیں گے ؍ اور؍ اجنبیوں پر بھونکتے کتے!!
سب سے اہم مسئلہ انٹرٹینمنٹ ہے
کیا منظر ہے؍ ٹاک شو کو چھوڑ کے آئے ؍ ٹاک شو؍ میں؍ آ بیٹھے ہیں؍ کوئی کسی کی سُنتا کب ہے؍ سارے بول رہے ہیں!
ہوا کا جُرم کیا کم ہے کہ یہ موسم بدلتی ہے
ویلنٹائن ڈے پہ؍ سُرخ غبارے بیچنے والا جیل میں؍ بسنت منانے والے کو؍ بھی لاکھ روپے جرمانہ؍ رقص گناہ‘ موسیقی بدعت؍ پر؍ ہم سُرخ گلابوں کو؍ کھلنے سے کیسے روکیں؍ مست ہوا ؍ کے اندر چلنے کی خواہش کا کیا کریں گے ہم
آج کا مقطع
فصیل شوق اُٹھانا‘ ظفرؔ‘ ضرور‘ مگر
کسی طرف سے نکلنے کا راستہ رکھنا