تحریر : امیر حمزہ تاریخ اشاعت     18-08-2017

قُل شریف کی برکات

''قُل‘‘ کا دو حرفی لفظ قرآن میں کوئی 331 مرتبہ آیا ہے۔ ویسے تو سارا قرآن ہی حضرت محمد کریم کی زبان مبارک سے ادا ہوا ہے مگر ''قُل‘‘ کا لفظ بتلاتا ہے کہ پیغام قدرے خصوصی ہے کہ اللہ تعالیٰ ''قُل‘‘ کہہ کر اپنے پیارے خلیل اور حبیب حضرت محمد کریمﷺ سے فرما رہے ہیں کہ میرا پیغام دنیا کے لوگوں کو سنا دو۔ 331میں سے جو آخری چار قرآنی قُل ہیں وہ امت میں بہت مشہور ہیں۔ آخری تین کی فضیلت بھی آئی ہے کہ حضرت محمد کریمﷺ صبح و شام کے اذکار میں تینوں قُل پڑھ کر اپنے مبارک ہاتھوں پر پھونکتے اور اپنے ماتھے مبارک سے لیکر جسم کے اگلے حصے پر پھیر لیتے۔ جو آخری دو قُل ہیں ان کو ''معوذتین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ان کے صبح و شام پڑھنے سے بندہ حاسدوں کے حسد، جادوگروں کے جادو اور شریروں کی شرارت سے محفوظ رہتا ہے۔ میاں نوازشریف صاحب نمازی آدمی ہیں جو صبح و شام قُل شریف بھی ضرور پڑھتے ہوں گے۔ میاں نوازشریف صاحب آج کل جس صورتحال سے دوچار ہیں وہ ان کے لئے انتہائی تکلیف دہ ہے۔ ویسے تو دنیا جہان کی نعمتیں ان کے پاس ہیں۔ سب سے بڑی نعمت انتہائی بزرگ والدہ کی موجودگی ہے۔ بیوی اور بچے اللہ نے دے رکھے ہیں، اللہ ان کی زندگی دراز کرے، سب ان کے پاس موجود ہیں۔ میاں صاحب کی صحت بھی بہت اچھی ہے۔ لال گلابی رنگ ہے، چوڑا چکلا معصوم سا چہرہ ہے۔ محلات اور دنیا بھر میں مال اموال کی کوئی کمی نہیں ہے۔ میں نے سوچا کہ اپنے موجودہ کالم میں میاں صاحب کو قرآن کے کسی ایک ''قُل‘‘ کا پیغام سنائوں۔ چنانچہ میں نے قُل پر مبنی 331آیات پر غور کیا تو مجھے میاں صاحب کے حسب حال ایک ''قُل‘‘ نظر آیا۔ قارئین کرام! آیئے... اس ''قُل‘‘ کا ترجمہ ملاحظہ کرتے ہیں۔ مولا کریم اپنے پیارے رسولؐ سے مخاطب ہوتے ہوئے تمام حکمرانوں کو ایک پیغام سناتے ہیں۔ بادشاہوں، صدروں، وزرائے اعظموں اور باقی چھوٹے موٹے حکمرانوں کو اپنے آخری رسول حضرت محمد کریمﷺ کے ذریعے اِک پیام دیتے ہیں!
''ان کو بتلا دو (حکمرانی ملنے یا چھن جانے پر اے حکمرانو! یوں کہا کرو) اے اللہ کریم! بادشاہوں کے بادشاہ آپ ہی ہیں۔ جس کو چاہتے ہیں حکمرانی عطا فرما دیتے ہیں، جس سے چاہتے ہیں چھین لیتے ہیں، جس کو چاہتے ہیں عزت سے سرفراز کر دیتے ہیں اور جس کو چاہتے ہیں رسوائی سے دوچار کر دیتے ہیں۔ بہتری آپ ہی کے ہاتھ میں ہے کیا شک ہے کہ ایسا اللہ ہر شے (کے ادل بدل پر) قدرت و طاقت رکھنے والا ہے۔(آل عمران)
میں نے اپنی زندگی میں بہت سارے حکمرانوں کو اقتدار سنبھالتے ہوئے دیکھا، حلف اٹھاتے ہوئے ٹی وی کی سکرین پر دیکھا اور پھر قوم سے خطاب کرتے ہوئے ایسا منظر دیکھا کہ قاری نے مندرجہ بالا آیت کی تلاوت کی اور پھر قومی ترانے کے بعد پاکستان کا حکمران برآمد ہوا اور عزت و افتخار کے سائبان تلے وہ خطاب کرنے لگا۔ پھر وہ سرکاری پروٹوکولز میں حکمرانی کے دمکتے چمکتے دائروں میں ایسا محو ہو جاتا ہے کہ حکمرانی چھن جانے کے الفاظ کو بھول ہی جاتا ہے۔ حالانکہ حکمرانی ملنے اور چھن جانے کے درمیان قرآن کا صرف ایک لفظ ''مَنْ‘‘ حائل ہے۔ یعنی کوئی اور شخص، یہ کوئی اور شخص کسی بھی وقت آ سکتا ہے اور آگے عزت و ذلت کی جو بات ہے وہ بتلا رہی ہے کہ کوئی حکمرانی چھن جانے پر بھی عزت سے محروم نہیں ہوتا اور کوئی اس عزت سے محروم ہو جاتا ہے۔ محترم میاں صاحب سے عرض کروں گا کہ میں نے آپ کے حسبِ حال مندرجہ بالا ''قُل‘‘ ہی کا انتخاب کیا ہے آپ جب بھی کرسی کے چھن جانے پر پریشان ہوں تو مندرجہ بالا ''قُل‘‘ پڑھنا شروع کر دیں، اس سے دل کو اطمینان ملے گا۔ کیا شک ہے اللہ کے قرآنی ذکر سے ہی دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ میرے بتائے ہوئے قل شریف سے میاں نوازشریف صاحب یقینا قدرے اطمینان کی نعمت پائیں گے۔ (ان شاء اللہ)
میاںصاحب کی خدمت میں میرا دوسرا مشورہ یہ ہے کہ شکوے نہ کیا کریں شکر کی بات بھی کیا کریں۔ آپ تین بار وزیراعظم بنے ہیں۔ یوں آپ پاکستان کے واحد ایسے وزیراعظم ہیں جو تین بار وزیراعظم ہی نہیں بنے بلکہ آپ کا عرصۂ اقتدار تمام وزرائے اعظموں سے زیادہ ہے۔ یہ عرصۂ اقتدار کوئی دس سال کے قریب بنتا ہے۔ پاکستان کی 70سالہ تاریخ میں صرف تین لوگوں نے دس دس سال کے قریب حکومت کی ہے۔ ان میں سے پہلے ایوب خان مرحوم ہیں دوسرے ضیاء الحق اور تیسرے پرویز مشرف صاحب ہیں، یوں آپ کا مجموعی عرصۂ اقتدار مندرجہ بالا تینوں سابق صدور کے برابر ہے یعنی ایوب خان، ضیاء الحق، پرویز مشرف اور میاں نوازشریف وہ چار شخصیات ہیں جنہوں نے سب سے لمبی مدت تک حکومت کی ہے اور سب کا عرصۂ اقتدار برابر برابر ہے۔ اور اگر آپ کی پنجاب میں ایک بار وزارت خزانہ اور دو بار وزارت اعلیٰ کے عرصۂ اقتدار کو بھی آپ کے عرصۂ اقتدار کے ساتھ نتھی کر دیا جائے تو آپ کا عرصۂ اقتدار ایوب خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے برابر ہو جائے گا۔ میاں صاحب ذرا مزید آگے بڑھیں، آپ کی وزارت عظمیٰ کے تیسرے اور آخری دور کا عرصۂ اقتدارچار سال اور دو تین ماہ کے قریب ہے کیونکہ اب آخری نو دس مہینے تو محض اگلے الیکشن کی تیاری اور نگران حکومت کے قیام کے ہیں۔ سوا چار سالوں کی کارکردگی کوپیش کرنے کے دن ہیں یعنی آپ نے جو کرنا تھا وہ کر لیا۔ اگلی بات یہ ہے کہ یہ جو دس مہینے باقی ہیں یہ اقتدار بھی بلاواسطہ نہ سہی مگر شاہد خاقان عباسی کے واسطے سے آپ ہی کا ہے۔ شاہد خاقان آپ کے پیروکار اور کارکن ہیں۔ آپ نے ان کو وزیراعظم بنایا ہے، کابینہ آپ نے تشکیل دی ہے۔ پنجاب میں شہباز شریف وزیراعلیٰ ہیں تو کشمیر کے وزیراعظم سردار فاروق حیدر اور صوبہ جی بی کے وزیراعلیٰ حافظ حفیظ الرحمن اور بلوچستان کے وزیراعلیٰ سردار ثناء اللہ زہری آپ کی ہی پارٹی کے ہیں، یوں پورے پاکستان پر ابھی آپ ہی کا حکم چل رہا ہے تو آپ کی حکمرانی کا دور تو جاری و ساری ہے۔ فرق اتنا پڑا ہے کہ وزیراعظم ہائوس سے احکامات صادر ہونے کے بجائے اب جاتی عمرہ سے احکامات صادر ہو رہے ہیں۔ لہٰذا محترم میاں صاحب شکوے ہی شکوے نہ کریں شکر بھی ادا کریں کہ ابھی تو اقتدار ہاتھ میں ہے۔ یہ بھی نہ فرمایا کریں کہ کسی وزیراعظم نے مدت پوری نہیں کی۔ یاددہانی کروا دوں جناب ذوالفقار علی بھٹو نے اپنے پانچ سالہ عرصۂ اقتدار کی مدت پوری کی ہے۔ ویسے بندہ ایسی چیز ہے کہ اللہ کے سامنے پیش ہو کر بھی یہی عذر کرے گا کہ اے اللہ مجھے تو دنیا میں وقت ہی تھوڑا ملا ہے لہٰذا مجھے اور ٹائم چاہیے۔ اللہ کے رسولﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے مدت مقرر فرما دی ہے۔ جو ساٹھ سال سے پہلے فوت ہو گا عذر کر سکتا ہے، ساٹھ سال کے بعد عذر قابلِ قبول نہیں... ویسے میاں صاحب! ایک اور انداز سے بھی غور فرمائیں، یہ جو آرمی چیفس ہیں ان کی مدت ملازمت تین سال ہے۔ جنرل راحیل شریف نے ایسے تین سال گزارے کہ تیرہ سالوں سے زائد مدت کا کام تین سالوں میں کر دیا اور یہ میری بات نہیں قوم کی گواہی ہے۔ میں جنرل قمر جاوید باجوہ کے انداز کار کو دیکھتا ہوں تو نظر آتا ہے کہ خاموشی سے تیز رفتاری بھی شاید کوئی ایسی ہی یا اس سے بھی بڑھ کر تاریخ رقم کر ڈالے۔
جی ہاں! بات یہ ہے کہ اگلے دس ماہ میں کوئی کارکردگی دکھائیں، اپنی دولت پاکستان میں لانے کا اعلان کریں۔ میں عرصہ سے عرض کر رہا ہوں، دیوانی اور فوجداری کیسوں کی کم از کم مدت مقرر کروائیں۔ اب آپ کو یہ بات کچھ کچھ یاد آتی ہے مگر دیر سے۔ سزائوں کو سرعام کرنے کا قانون بنائیں۔ خوشامدی، کم علم اور نادان مشیروں سے جان چھڑائیں۔ تنقید کرنے والے اہل علم کو قریب کریں، آپ کی قوت دینی رجحان رکھنے والا اور دائیں بازو کا لیڈر ہے۔ آپ نے سیکولر رجحان کا اظہار کر کے یہ قوت اور اساس ضائع کر دی ہے۔ جو لیڈر اور جماعت اپنی اساس اور بنیادی اصولوں سے ہٹ جائے اس کی زندگی تیزی سے زوال اور موت کی طرف جانا شروع کر دیتی ہے۔ آپ نے جمعہ کی چھٹی ختم کر دی۔ سود کو توسیع دے دی۔ مودی، جندال اور انڈیا سے ذاتی دوستی قائم کر لی۔ اداروں سے فاصلہ بنا لیا۔ کشمیر کی آزادی کے متوالوں کا مقدمہ اس طرح نہ اٹھایا جس طرح آپ سے توقع تھی۔ ملک کی پولیس، عدلیہ، پٹوار خانہ وغیرہ کی اصلاحات پر کوئی کام نہ کیا۔ میں سمجھتا ہوں، اب دس مہینے کا شاید ٹائم ہے۔ مقدمات منتظر ہیں اور آپ مہلت مانگے جا رہے ہیں۔ کوئی مالی قربانی کے اعلانات اور اقدامات ہی سہارا بن جائیں تو بن جائیں وگرنہ نظر یہی آتا ہے کہ مہلت کا وقت تو باقی نہیں رہا۔ باقی اللہ بہتر جانتے ہیں۔

 

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved