تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     18-08-2017

بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے!

روئے زمین کو متنوع مخلوق کا ٹھکانہ بنایا گیا ہے اور سچ تو یہ ہے کہ انسانوں میں بھی کئی طرح کی مخلوق پائی جاتی ہے! دیگر انواع یا اقسام کی بحث میں تو ہم نہیں پڑنا چاہتے مگر ہاں، انسانوں کی بہت واضح درجہ بندی کام کے حوالے سے ضرور اور آسانی سے کی جاسکتی ہے۔ یعنی ایک طرف کام کرنے والے ہیں اور دوسری طرف وہ جو کام کے نام سے چِڑتے یا بھاگتے ہیں۔ یہ درجہ بندی ایسی بھرپور اور جامع ہے کہ ''پھر اِس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی‘‘ والی کیفیت برپا کردیتی ہے۔ 
شعراء کے بارے میں عام طور پر یہ خیال پایا جاتا ہے کہ وہ کوئی کام نہیں کرتے۔ کسی شاعر سے ایک صاحب نے خیریت دریافت کی اور گزر بسر کے حوالے سے استفسار کیا تو وہ بولا ''حضور، شعر کہتا ہوں۔‘‘ 
اُن صاحب نے کہا ''شعر تو آپ ضرور کہتے ہوں گے مگر یہ تو بتائیے کرتے کیا ہیں!‘‘ 
جونؔ ایلیا کا بھی ''نظریہ‘‘ یہی تھا کہ اگر کوئی شعر کہتا ہے تو پھر وہ کچھ اور کیوں کرے کیونکہ شعر کہنا بجائے خود اعلیٰ درجے کی مصروفیت ہے! غالبؔ کے زمانے میں بھی معاملہ یہی تھا۔ وہ بھی دن رات اپنی طبع کو آزماتے رہتے اور پھر طبع کے نتائج کے حوالے سے لوگوں کو آزماتے تھے! شعر کہنا اُن کے لیے اِتنی بڑی مصروفیت تھی کہ اُنہیں بھی عدیم الفرصتی کا رونا روتے ہوئے کہنا پڑا تھا ؎ 
جی ڈھونڈتا ہے پھر وہی فرصت کہ رات دن 
بیٹھے رہیں تصوّرِ جاناں کیے ہوئے 
حق تو یہ ہے کہ تصوّرِ جاناں کیے ہوئے بیٹھے رہنے کے لیے فرصت کے رات دن ڈھونڈنے پڑتے ہیں نہ اُن کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ جنہوں نے طے کرلیا ہو کہ مصروفیت کے سمندر میں سکون سے تیرنا ہے وہ علامہ اقبالؔ کے کہے پر عمل کرتے ہوئے اپنی دنیا آپ پیدا کرتے ہیں! 
سماجیات اور معاشیات کے ماہرین لاکھ بحث کریں، حقیقت یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں صرف دو طبقات ہیں۔ ایک طرف وہ ہیں جنہیں کام سے محبت ہے اور دوسری طرف وہ ہیں جو آرام کے رسیا ہیں۔ جنہیں اللہ نے کام کرنے کی توفیق دی ہے وہ دن رات صرف کام سے کام رکھتے ہیں اور اُنہیں بظاہر اِس بات سے کچھ غرض نہیں ہوتی کہ کون کیا نہیں کر رہا۔ وہ صرف یہ دیکھتے ہیں کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں! اور دوسری طرف اللہ کے وہ بندے ہیں جو دراصل عدمِ مصروفیت کی پرستش کرتے ہیں۔ کام سے وہ یوں دور بھاگتے ہیں جیسے یہ کوئی جان لیوا بیماری ہو! 
اللہ نے کائنات میں کوئی بھی مخلوق بے مصرف پیدا نہیں کی۔ سب کے ذمے کچھ نہ کچھ کام ہے، کوئی نہ کوئی مقصدِ حیات ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ انسانوں کے سوا تمام مخلوق کی ذمہ داریوں کا تعین اللہ نے کردیا ہے اور انسان کو کام کرنے یا نہ کرنے کے حوالے سے پوری آزادی دی گئی ہے۔ انسان کے سوا تمام مخلوق ایک دائرے میں رہتے ہوئے اپنے حصے کا کام کرتے رہنے کی پابند ہے۔ معمولی سے معمولی اور بڑے، طاقتور جانوروں کے معمولات پر نظر دوڑائیے تو اندازہ ہوگا کہ اللہ نے اُنہیں کوئی نہ کوئی کام سونپ رکھا ہے اور وہ کام ہوکر رہتا ہے۔ ماحول کو متوازن رکھنے کے حوالے سے ہر مخلوق کچھ نہ کچھ کرتی ہے اور یوں اللہ کی نظر میں سرخروئی سے سرفراز ہوتی ہے۔ 
انسان کا معاملہ بہت ہی پیچیدہ ہے۔ اُسے جو سانسیں عطا کی گئی ہیں یعنی جو وقت دیا گیا ہے اُس کا ایک معقول حصہ کام سے بچنے کے طریقے سوچنے اور ہڈ حرامی کو شعار بنائے رکھنے کی کوششوں پر صرف ہوتا ہے! انسانوں میں ایسے کم ہی ہیں جو اچھی زندگی بسر کرنے کے وسائل میسر ہونے پر بھی کام کرتے رہنے کو ترجیح دیں۔ عام مشاہدہ ہے کہ مصروفیت سے بچنے کی معمولی سی بھی سبیل نکلنے کی صورت میں انسان کام سے یوں بچتا ہے جیسے جنگل میں سفر کے دوران کوئی درندہ سامنے آگیا ہو! 
پاکستانی معاشرہ کام کے معاملے میں انتہائی عجیب واقع ہوا ہے۔ اللہ نے ہمیں قدرتی وسائل ہی سے نہیں نوازا بلکہ انتہائی باصلاحیت افرادی قوت بھی عطا کی ہے۔ اس باصلاحیت افرادی قوت کو کماحقہ کام پر لگایا جائے یعنی عمدگی سے بروئے کار لایا جائے تو ملک و قوم کا عمومی معیار بلند کرنے کے حوالے سے بہت کچھ ممکن ہے مگر افسوس کہ ایسا ہو نہیں پاتا۔ 
انسان کو اللہ نے اختیار کے ساتھ پیدا کیا ہے۔ وہ اپنی مرضی کے مطابق کوئی بھی راستہ منتخب کرسکتا ہے اور اُس پر اپنی مرضی ہی کے مطابق چل بھی سکتا ہے۔ اور انسان نے واقعی ثابت کیا ہے کہ اُسے اپنے اختیارات سے کام لینا آتا ہے یعنی یہ کہ جہاں بھی اُسے عمل سے بچنے کا موقع ملتا ہے وہ عمل سے دور رہتے ہوئے ایک طرف بیٹھ کر تماشا دیکھتے رہنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے! دیگر مخلوق کو اللہ نے یہ اختیار دیا ہی نہیں۔ اِس کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ بے چاری کسی نہ کسی حوالے سے مصروف رہتی ہے یا اُسے مصروف رہنا پڑتا ہے۔ اُس کے لیے اچھے یا بُرے مُوڈ کا کوئی سوال ہی نہیں اٹھتا۔ ع 
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگِ مفاجات 
دیگر مخلوق میں سے جو انسان کے ہتھے چڑھ جائے اُس کا انجام بھی آپ نے دیکھا ہی ہوگا۔ بندر کا دل چاہے کہ نہ چاہے، مداری جب بھی ڈگڈگی بجائے گا اُسے ناچنا ہی پڑے گا! گدھے کو اگر مالک نے گاڑی میں جوت دیا ہے تو کسی بیماری میں مبتلا ہونے پر بھی اُسے وزن تو اٹھانا ہی پڑے گا۔ انسان کی چالاکی یہ ہے کہ وہ اپنے حصے کا بوجھ اٹھانے سے بچنے کا ہر ممکن راستہ نکالنے کے لیے کچھ بھی کر گزرتا ہے اور راستہ نکالنے کے بعد ہی سکون کا سانس لیتا ہے! 
یہ بھی انسان ہی کا ''کمال‘‘ ہے کہ روئے زمین پر اللہ کی ہر مخلوق کو کسی نہ کسی مصروفیت کے دائرے میں دیکھ کر بھی مصروفیت سے بچ نکلنے کے بہانے اور طریقے سوچتا رہتا ہے اور اِس میں بہت حد تک کامیاب بھی رہتا ہے۔ پورے کا پورا ماحول عمل اور عمل پسندی سے مزیّن ہو تب بھی انسان بے عملی کو گلے لگانے کے فراق میں رہتا ہے۔ 
عمل اور محنت پر یقین رکھنے والوں کے لیے یہ صورتِ حال بہت عجیب ہے۔ اُن کی سمجھ میں نہیں آتا کہ بغیر کچھ کیے کوئی کب تک رہ سکتا ہے اور کیونکر پُرسکون زندگی بسر کرسکتا ہے۔ عمل پر یقین رکھنے والے ذرا سی فرصت ملنے پر پریشان ہو اُٹھتے ہیں کہ چند لمحاتِ فراغت کو کیونکر ٹھکانے لگائیں! اور دوسری طرف یاروں کا یہ حال ہے کہ پوری زندگی کی فراغت بھی میسر ہو تو اُن کا جی نہ بھرے! وہ رات دن تصوّرِ جاناں کیے ہوئے بیٹھے رہنے پر یقین رکھتے ہیں اور اِس حقیقت پر غور کرنے کی زحمت کبھی گوارا نہیں کرتے کہ ایسا کرنے سے زندگی کا سارا حُسن غارت ہو جاتا ہے۔ زندگی کا حُسن غارت ہوتا ہے تو ہوتا رہے، اُن کی بلا جانے۔ 
فراغت ڈھونڈنے والوں کی تعداد بڑھ جائے تو معاشرے غیر متوازن اور غیر مستحکم ہو جاتے ہیں اور پاکستانی معاشرہ اِس وقت ''فراغت پسندی‘‘ کے رجحان کا اسیر ہوتا جارہا ہے۔ ایسے میں دعا بھی ضروری ہے مگر دعا سے کہیں بڑھ کر عمل پسندی لازم ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved