تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-08-2017

یہ پاکستان ہے ‘کوئی کھلونا نہیں!

جی ٹی روڈ پر سابق وزیراعظم نواز شریف نے جو کچھ کہا وہ پوری قوم نے سنا۔ انہوں نے اداروں کے خلاف جو زبان استعمال کی وہ کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ میری نظر میں اس جرم میں وہ بھی برابر کے شریک ٹھہرتے ہیں جو نواز شریف صاحب کو پروٹوکول دے رہے تھے اور انہیں اس طرح کے شدید نوعیت کے بیانات دیتے ہوئے دیکھ رہے تھے اور ان کی حفاظت پر مامور تھے چنانچہ مجھے یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ وزیر اعظم کے پرنسپل سیکرٹری، پنجاب کے چیف سیکرٹری اور انسپکٹر جنرل پولیس سمیت اسلام آباد، راولپنڈی، گوجرانوالہ اور لاہور کے کمشنرز، ڈپٹی کمشنرز اور سی سی پی او سمیت تمام آر پی اوز اس جرم میں کچھ نہ کچھ حصہ دارہیں اور سابق وزیراعظم اور ان تمام افسران کے خلاف ملک کی سلامتی اور اداروں کے خلاف نفرت پھیلانے، عوام کو ملک کے ان دونوں اداروں کے خلاف کسی انتہائی ا قدام کیلئے تیار کرنے کے الزام میں سپریم کورٹ آف پاکستان کو فوری طور پر ایکشن لیتے ہوئے مقدمات کے اندراج کا حکم دینا چاہیے اور لاہور ہائیکورٹ کے چیف جسٹس کی نگرانی میں اس مقدمے کی سماعت کیلئے 30 دن کی مدت مقرر کر دینی چاہئے کیونکہ جی ٹی روڈ سے لاہور تک ان تمام اہلکاروں نے سرکاری وسائل استعمال کرتے ہوئے ایسے افراد کو لانے لے جانے میں مدد کی ہے‘ ان کو سمری ٹرائل کے ذریعے قرار واقعی سزا دیتے ہوئے ان کے عہدوں سے فوری طور پر بر طرف کر دینا چاہئے تاکہ آئندہ کسی کو عدلیہ کے خلاف نعرے بازی کرنے اس کی تضحیک کرنے اور عوام کو ان کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کی کوشش کرنے کی ہمت نہ ہو سکے ۔ 
اسلام آباد سے لاہور تک پولیس اور انتظامیہ کی گاڑیوں میں لوگوں کو بھر بھر کر لانے کے نا ابل تردید ثبوت میڈیا کے علا وہ کچھ 
دوسرے اداروں کے پاس محفوظ اور موجود ہیں۔ ان گاڑیوں کے رجسٹریشن نمبر صاف دیکھے جا سکتے ہیں کہ یہ کن کن محکمہ جات سے متعلق ہیں، ان کیلئے کس قدر پٹرول حاصل کیا گیا، ان کو کھانا اور سافٹ ڈرنکس کن کے کھاتوں سے مہیا کی گئیں، تمام رستے میں پندرہ کے قریب جو ڈائس اور سٹیج تیار کئے گئے وہ اخراجات کس نے ادا کئے اور کن اداروں نے ان کو تیار کیا؟ پولیس کے ان ٹرکوں اور بسوں کی تصاویر میڈیا کے پاس محفوظ ہیں جنہیں ان مقدمات کی سماعت کے دوران دیکھا جا سکتا ہے۔ اسلام آباد سے لاہور تک کئے جانے والے ایک ارب روپے کے قریب ان اخراجات کا ذمہ دار کون ہے؟۔یہ سب اخراجات میاں نواز شریف یا مسلم لیگ نواز کے کسی رکن کی جیب سے اداکئے گئے ہیں اور اگر یہ سب عوام کے ٹیکسوں سے جمع کئے گئے قومی خزانے سے اد اکئے گئے ہیں تو اس خیانت مجرمانہ کے مرتکب افراد کو قانون کے کٹہرے میں لایا جا نا چاہئے؟۔
سپریم کورٹ کو یہ حکم بھی جاری کر ناچاہیے کہ اسلام آباد سے لاہور تک ان تمام سی سی پی اوز اور ایس ایس پی حضرات کو اس وقت تک افسر بکار خاص بنا دیا جائے جب تک اس مقدمے کا فیصلہ نہیں ہو جاتا۔۔۔کیونکہ ملک کے اداروں کے خلاف نفرت انگیز مہم چلانے میں یہ سب مدد گار بنے رہے اور خدشہ ہے کہ اگر نواز شریف جنہوں نے سانحہ مشرقی پاکستان کے طرز کی بنیاد رکھنے کیلئے اس شہر لاہور کا انتخاب کیا، اس اقبال پارک کا انتخاب کرتے ہوئے اس کے سا منے کھڑے ہو کر مبینہ طور پر اس کھیل کا آغاز کیا گیا جو شیخ مجیب الرحمان نے مشرقی پاکستان سے شروع کیا تھا اور یہ تو کسی کو بتانے کی ضرورت ہی نہیں کہ یہ اقبال پارک وہی ہے جہاں قرار داد پاکستان منظور کی گئی تھی۔لاہور کی ریلی کے ایک دن کے وقفے کے بعد مزار اقبالؒ
پر کھڑے ہو کرسانحہ مشرقی پاکستان کا حوالہ دیتے ہوئے نہ جانے کس کو خصوصی پیغام دیتے ہوئے کہنا کہ اس وقت بھی عوامی مینڈیٹ کا حترام نہیں کیا گیاتھا آج بھی میرے مینڈیٹ کا احترام نہیں کیا جا رہا۔حضور آپ کے ہی عوامی مینڈیٹ نے آپ کے ہی نامزد کئے گئے شاہد خاقان عبا سی کو وزیر اعظم منتخب کرایا ہے کسی اور کو تو نہیں؟۔جناب والا اسی مینڈیٹ سے وہ لوگ آپ نے وفاقی وزراء نا مزد کئے ہیں جو اس ملک کی سلامتی کے ضامن اداروں کی صبح شام تضحیک کر رہے ہیں۔
شک ہونے لگا ہے کہ وہ بلی تھیلے سے باہر نکل رہی ہے جس نے ان کی سر پرستی کی ہوئی ہے اور جس نے ہندوستان اور بنگلہ دیش سے خصوصی طور پر بلائے گئے دانشوروں اور صحافیوں سے لاہور کے ہوٹل میں خطاب کرتے ہوئے دو قومی نظریہ کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا تھا کہ میرا اور آپ کا رب ایک ہے ہم ایک ہی طرح کھاتے پیتے اور پہنتے ہیں، ہم بھی آلو گوشت کھاتے ہیں اور آپ بھی آلو گوشت کھاتے ہیں۔۔۔جناب میاںصاحب!کیا آپ کے تحت کام کرنے والی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نے کبھی یہ رپورٹ نہیں دی کہ بھارت میں گوشت کا نام لینے والوں کی کھال کھینچ لی جا تی ہے؟۔کیا انہوں نے آپ کو بتایا نہیں کہ کسی کے منہ سے گوشت کی بو آئے تو اسے بد ترین تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے گلیوں میں پڑا ہوا گائے کا گوبر کھلایا جاتا ہے؟ 
1971کی جانب اشارہ اپنے اندر بہت سے معنی لئے ہوئے ہے۔ میاں نواز شریف کی اس دھمکی سے صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ ان کے اندر کوئی منصوبہ پنپ رہا ہے۔ شائد وہ کہنا یہ چاہتے ہیں کہ اگر اقتدار میرے یا میرے خاندان کے پاس نہ رہا تو میں یہ
پاکستان نہیں مانوں گا۔سیا ست اور انقلاب کے نام پر ریا ست سے بغاوت کیلئے بہت آہستہ آہستہ چالیں چلنی پڑتی ہیں۔ اگرآج شیخ مجیب الرحمان کی جانب دیکھنے کیلئے تاریخ کا مطا لعہ کریں تو اس نے سب سے پہلے اسی طرح کے جملے استعمال کرتے ہوئے پنجابی طاقت اور تسلط کے حوالے دیتے ہوئے نشانہ بنانا شروع کیا تھا۔ شیخ مجیب اور اس کے ساتھیوں نے غیر محسوس طریقے سے اپنے گرد جمع لوگوں کو پنجابی اور پختون فوج کا نام لے کر انہیں پاکستان کے خلاف ورغلانا شروع کر دیا جیسے بعض موجودہ ''سیاستدان‘‘میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کرتے ہوئے تاثر دے رہے ہیں کہ پانامہ کیس در اصل ادارے لائے ہیں تاکہ نواز شریف سے اقتدار چھین لیا جائے۔ 
لاہور میں موصوف نے اپنے بالکل بائیںہاتھ اپنی جماعت سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم آزاد کشمیر کو خاص طور پر ا س لئے بٹھارکھا تھاکہ اس نے نواز شریف کو سپریم کورٹ سے نا اہل قرار دیئے جانے پر اپنی ذہنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہا تھا کہ میں عمران خان کے پاکستان کو نہیں مانتا۔پاکستان تو ایک ہی ہے چاہے وہ نواز، یا شہباز شریف کا ہو، بلاول بھٹو یا شیخ رشید کا ہو، مولا نا فضل الرحمان یا سراج الحق کا ہو، فاروق ستار یا مصطفی کمال کا ہو۔ کل کو ہر سیا سی جماعت کسی دوسرے لیڈر کا نام لے کر یہ تو نہیں کہنا شروع ہو جائے گی کہ میں اپنے مخالف کا پاکستان نہیں مانتا؟۔ 1971 ''کی طرح کا سانحہ پھر ہو سکتا ہے‘‘ شائد یہی وہ الفاظ تھے جنہیں ادا کرنے کیلئے میاں نواز شریف پنجاب ہائوس اسلام آباد سے راولپنڈی، دینہ، جہلم، گجرات اور پھر گوجرانوالہ سے مریدکے، شاہدرہ ہر جگہ اپنے استقبال کیلئے آئے ہوئے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے وعدہ لیتے تھے کہ میرے ساتھ لاہور چلو، وہاں میں آپ کو اپنا پروگرام دوں گا اور اس داتا کی نگری کے سامنے آپ نے کہہ دیا کہ 1971 دوبارہ ہو سکتا ہے؟۔۔۔کیا سمجھ لیا جائے کہ گریٹر پنجاب کی بلی تھیلے سے باہر نکل آئی ہے؟!! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved