کسی دریا کے کنارے ایک شخص اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ رہا کرتا تھا۔ وہ کھیتی باڑی کے ساتھ ساتھ باقاعدگی سے عبادت کرکے اللہ کے شکر گزار بندوں میں شامل رہنے کی کوشش بھی کرتا تھا۔ ایک دن وہاں ایک بزرگ پہنچے۔ اُنہوں نے کسان سے پوچھا صرف کھیتی باڑی کرتے ہو یا کبھی کوئی وظیفہ وغیرہ بھی کیا ہے، معرفت کی کوئی منزل بھی طے کی ہے۔ کسان نے کہا کہ دُنیا کے جھمیلوں میں وظیفہ کہاں سے ہوسکتا ہے۔ بزرگ نے بتایا کہ اُنہوں نے کئی وظیفے کیے ہیں، کئی چلّے کاٹے ہیں اور یہ کہ اُنہیں کئی برس کی ریاضت اور مجاہدے کے بعد چند ’’کرامات‘‘ ملی ہیں۔ یہ کہہ کر بزرگ اُس کسان کے ساتھ دریا کے کنارے پہنچے۔ اُنہوں نے کسان کا ہاتھ پکڑا اور دریا میں اُتر گئے۔ دونوں پانی پر چلتے ہوئے دوسرے کنارے تک پہنچے اور پھر اِسی طرح واپس بھی آئے! کسان تھوڑا سا مرعوب دِکھائی دیا۔ بزرگ نے تحسین طلب نظروں سے اُس کی طرف دیکھا۔ کِسان خاموش رہا۔ پھر اُس نے ایک کشتی والے کو بلایا، بزرگ کے ساتھ کشتی پر سوار ہوا۔ دونوں دوسرے کنارے تک گئے۔ پھر کسان نے کشتی والے سے واپس چلنے کو کہا۔ واپسی پر کشتی سے اُتر کر کسان کشتی والے کو کرائے کی مد میں دو آنے دینے کے بعد بزرگ سے مخاطب ہوا۔ ’’محترم! جو کام دو آنے میں ہوسکتا ہے اُس کے لیے اِتنی مُدّت تک ریاضت اور مجاہدہ کیوں؟ وقت ضائع کرنے کے بجائے کچھ محنت مشقت کیجیے، دُکھی انسانوں کے کام آئیے۔‘‘ ہم بھی اِس کہانی کے بزرگ کی طرح زندگی بھر پانی پر چلنے کا ہنر سیکھنے کے لیے اُتاؤلے اور باؤلے ہوئے جاتے ہیں۔ سبھی چاہتے ہیں کہ سب کچھ پلک جھپکتے میں یا راتوں رات مل جائے، دیکھتے ہی دیکھتے کام ہو جائے، بات بن جائے۔ جس طرح پریشر کُکر میں کھانا تیزی سے پک جاتا ہے بالکل اُسی طرح ہم ہر معاملہ پریشر کُکر میں ڈال کر پکانا چاہتے ہیں۔ کچھ کیے بغیر سب کچھ پانے کی ذہنیت پورے معاشرے پر محیط ہے۔ جو بچے کرکٹ کھیلتے ہیں وہ بیٹ پکڑتے ہی خود کو میانداد، ظہیر عباس یا شاہد آفریدی سے کم نہیں سمجھتے۔ گیند پھینکتے وقت ہر لڑکا خود کو وسیم اکرم یا عمران خان تصور کرتا ہے۔ جنہوں نے ابھی گانا سیکھا ہی نہیں وہ مائکروفون ہاتھ میں آتے ہی خود کو محمد رفیع یا مہدی حسن سے کم سمجھنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ کامیابی کے لیے درکار محنت سے جان چھڑانے کے لیے لوگ شارٹ کٹ تلاش کرتے ہیں۔ تعویذ کی طلب ہوتی ہے، وظیفہ پڑھا اور کیا جاتا ہے تاکہ نہ ہوتا کام دیکھتے ہی دیکھتے ہو جائے۔ ایسی ذہنی حالت میں لوگوں کو گھوم پھر کر صرف کالا جادو یاد رہ جاتا ہے۔ جن کی زندگی میں مسائل کا انبار لگا ہو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ کالا جادو اُن کا نجات دہندہ بن کر ہر مشکل حل کردے گا۔ جو لوگ عمل کی دُنیا سے ناتا توڑ لیتے ہیں وہ ’’عامل‘‘ کہلاتے ہیں اور دوسروں کو بھی عمل ترک کرکے ’’عملیات‘‘ کی راہ پر گامزن ہونے پر اُکساتے ہیں! زیادہ پیچیدہ مسائل حل کرنے کے لیے اُلّو کا عمل کرانے کا مشورہ دیا جاتا ہے اور اُلّو اِس کے لیے تیار بھی ہو جاتے ہیں! قوم چاہتی ہے کہ برسوں، بلکہ عشروں کی ہڈ حرامی اور مفت خوری کا تدارک معمولی تعویذ سے ہو جائے۔ کوئی نہیں سوچتا کہ چند آڑی ترچھی لکیروں اور مبہم کلمات پر مبنی عملیات میں اگر واقعی اِتنا دم خم ہوتا تو دُنیا ویسی کب ہوتی جیسی ہے! سڑکیں، بازار، کارخانے اور ادارے سنسان ہوتے۔ سب کچھ وظیفوں کی مدد سے گھر بیٹھے ہو رہا ہوتا! تھوڑی بہت رونق ہوتی تو بس ٹوٹے پھوٹے، قدیم قبرستانوں میں ہوتی! لوگ اپنے طور پر طے کرچکے ہیں کہ کالا جادو ہر مسئلے کا حل ہے۔ لطف کی بات یہ ہے کہ معمولی گھریلو جھگڑے ختم کرنے اور ’’ناپسندیدہ‘‘ شخصیات پر قابو پانے کے لیے بھی کالا جادو ہی حرکت میں لایا جاتا ہے۔ اب کیا کِسی بہو کے لیے ساس اِتنا بڑا مسئلہ ہے کہ کالا جادو کیا اور کرایا جائے؟ کیا کِسی عورت کے لیے اُس کی نند اِتنی بڑی مصیبت ہے کہ اُس سے نجات پانے کے لیے بابا سے تعویذ لایا جائے؟ رشتہ نہ آ رہا ہو تو لڑکیاں تعویذ گنڈے کے چکر میں پڑ جاتی ہیں۔ گویا خوابوں کے شہزادے کو نہیں بلکہ جنّات کی نگری سے تعلق رکھنے والے کسی ’’گُل فام‘‘ کو متوجہ کرنے کی تیاری ہے! لوگ ایسے ایسے مسائل لے کر آستانوں پر حاضر ہوتے ہیں کہ بابا تو بابا، خود کالا جادو بھی سوچ میں پڑ جاتا ہے۔ بے چارا کالا جادو پریشان ہی رہتا ہے کہ کیا کرے اور کیا نہ کرے۔ چھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے بھی اُسے زحمت دی جاتی ہے، یعنی لوگ توپ سے چڑیا کا شکار کرنا چاہتے ہیں! ہمارے ہاں بیشتر سیاسی مسائل اِس لیے حل نہیں ہو پارہے کہ کالے جادو کو چھوٹے موٹے گھریلو کاموں سے فرصت ہی نہیں مل پا رہی۔ وہ فارغ ہو تو سیاست دان اُس سے کچھ کام لیں۔ پانچ برسوں کے دوران منتخب حکومت نے اپنے طور پر ذرا مختلف قسم کا کالا جادو متعارف کرانے کی کوشش کی ہے۔ ’’مفاہمت کی سیاست‘‘ کے نام پر کالے جادو کا ایسا عمل متعارف کرایا گیا کہ سرکش مخالفین بھی رام ہوگئے۔ مگر عمل پر خرچ بہت کرنا پڑتا ہے! آپ سوچیں گے مال خرچ ہوتا ہے تو حکومت کو کیا فرق پڑتا ہے؟ کون سا اپنے پَلّے سے کچھ دینا ہے؟ اِس معاملے میں قربانی کے بکرے تو عوام ہی بنتے ہیں! حکومت نے وفاقی وزیر داخلہ کے ذریعے بھی سیاست میں کالے جادو کو داخل کرنے کی بھرپور اور بہت حد تک کامیاب کوشش کی ہے۔ جس طرح کوئی بکرا ذبح ہوکر آپ کی تمام بلائیں اپنے سَر لیتا ہے بالکل اُسی طرح رحمٰن ملک نے قدم قدم پر حکومت کی بلائیں اپنے سَرلے لی ہیں! کامیاب کالے جادو کی یہ ایک اچھی مثال ہے! مگر یہ ہے کہ اِس ٹائپ کے کالے جادو میں ’’آنیاں جانیاں‘‘ بہت کرنی پڑتی ہیں۔ سُنا ہے کسی بزرگ نے صدر صاحب کو مشورہ دیا ہے کہ جب بھی مشکل وقت ہو، سمندر کے کنارے وقت گزارا کریں۔ اِسی لیے وہ بیشتر اوقات کراچی میں خیمہ زن رہتے ہیں۔ دوسری طرف رحمن ملک کو شاید یہ ہدایت ہے کہ سمندر کے کنارے خیمہ زنوں کی مشکلات ٹالنے کے لیے سمندر پار چلے جایا کریں! ملک میں قدم قدم پر کالے جادو کی خدمات درکار ہیں۔ جمہوری حکومتیں اپنی میعاد پوری نہیں کر پاتیں۔ شاید یہ کام اب کالے جادو کی مدد ہی سے ہو پائے۔ ہماری منتخب حکومتیں سڑکیں، پُل اور دیگر بنیادی سہولتیں فراہم تو کرتی ہیں مگر صرف دستاویزات پر۔ اِس دستاویزی لعنت سے چھٹکارے کے لیے ہمیں کالے جادو سے مدد لینی ہے۔ جب بھی بجٹ کی میعاد ختم ہونے کو آتی ہے تو راتوں رات بہت سے کام کرائے جانے لگتے ہیں۔ اِس تیزی و طرّاری کو سمجھنے میں شاید کالا جادو ہی ہماری کچھ مدد کرے تو کرے۔ تمام خرابیاں گزشتہ حکومت کے کھاتے میں ڈالنے کی وباء پر قابو پانے کے لیے بھی ہمیں کالے جادو سے مدد چاہیے۔ عوام اپنے آپ کو تھوڑا سا تبدیل کریں۔ ہر معاملے میں کالے جادو کو زحمت نہ دیں۔ اِس طرح تو کالا جادو تنگ آکر ملک چھوڑ جائے گا۔ چھوٹے موٹے کام خود کرلیا کریں اور کالے جادو کو تھوڑی فراغت بخشیں تاکہ وہ ملک کا نظام درست کرنے میں کوئی کردار ادا کرسکے!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved