تحریر : ڈاکٹرویدپرتاپ ویدک تاریخ اشاعت     19-08-2017

لال قلعہ سے چناوی خطاب

اپنے لال قلعہ کے خطاب کو نریندر مودی نے خالص چناوی تقریر بنا دیا ۔وہ ایسے بولے جیسے کسی چناوی جلسے میں اپنی کامیابیوں کی فہرست پیش کر رہے ہوں۔ اس میں کوئی برائی نہیں ہے ‘کیوں کہ عوام مالک ہے اور لیڈر خدمت گار ہیں ۔اسی لیے انہیں مالک کے سامنے اپنے کام کاج کے اعدادوشمار کرنا ہی چاہئیں ۔اس کے لیے اس سے اچھا موقع اس کے لیے کیا ہو سکتا ہے؟ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں ‘جو روز اخبار نہیں پڑھتے ‘ٹی وی چینل پر خبریں نہیں دیکھتے ‘پارلیمنٹ کی کارروائی میں ان کی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لیکن 15 اگست کی صبح وہ اپنے ریڈیواور ٹی وی کھول کر بڑی عقیدت کے ساتھ لال قلعہ کا پروگرام سنتے اور دیکھتے ہیں ۔وزیراعظم چاہتے تو سواسوکروڑ لوگوں سے جذباتی خطاب کر سکتے تھے ۔جو محبت کی بات انہوں نے کشمیر کے بارے میں کہی‘گولی اور گالی کو غلط بتایا ‘ویسی کئی باتیں وہ کئی معاملات میں کہہ سکتے تھے ۔انہوں نے گورکھپور کے سرکاری ہسپتال میں ہوئی بچو ں کی موت کاذکر کیا ‘یہ بھی اچھا ردعمل مانا جا سکتا ہے ۔لیکن اپنے پونے گھنٹے کی تقریر میں بھارت کے بنیادی مسائل اور ان کے مستقل حل کے بارے میں مودی نے کچھ بھی نہ کہا۔نوٹ بندی کے فائدے گنوائے لیکن اسے غلط ڈھنگ سے نافذ کرنے کے لیے عوام سے معافی نہ مانگی اور یہ بھی نہیں بتایا کہ اس سے ملک کو کتنا زبردست جھٹکا لگا ہے ۔بے روزگاری پر بھی وزیراعظم کی بات پھیکی پڑی۔ایک طرح سے سارا خطاب بور تھا ۔اس لیے بچوں نے صرف ایک دوبار تالیاں بجا ئیں ۔سمجھدار لوگ جو اوپر بیٹھے تھے ‘ان کی صورتیں دیکھنے لائق تھیں ۔کئی آپس میں باتیں کر رہے تھے‘کئی نیند میں تھے ‘کئی آسمان کی طرف دیکھ رہے تھے اور کچھ اپنے موبائل فون میں مصروف تھے ۔خارجہ پالیسی کی بات جانے دیں ۔‘مودی سے امید تھی کہ وہ چین اور پاکستان کے بارے میں ضرور کچھ بولیں گے لیکن اس معاملہ میں وہ چوہدری چرن سنگھ سے بھی آگے نکل گئے ۔
یوم آزادی پر تین زیادتیاں 
سیاسی زیادتیوں کی تین تازہ مثالیں ابھی ابھی سامنے آئی ہیں ۔پہلا‘کیرل کے ایک سکول میں آرایس ایس کے چیف موہن بھاگوت نے 15 اگست کے موقع پر ترنگا کیوں لہرایا ؟یہ سوال پوچھا ہے پلکاڈ کے کلیکٹرنے ‘اس سکول کے ہیڈ ماسٹر سے !اب اس کے خلاف کارروائی ہوگی ۔دوسرا‘اتر پردیش ‘مدھیہ پردیش کے مدارس کو سرکاری حکم جاری ہوا کہ وہ 15اگست کو اپنے یہاں ترنگا لہرائیں ‘اس کی ویڈیو بنوائیں اور سرکار کو بھیجیں ۔تیسرا‘ترپورا کے وزیراعلیٰ مانک سرکار کا یوم آزادی سے متعلق تقریر ہمارے آکاش وانی اور دور درشن نے جاری کرنے سے انکار کر دیا کیوں کہ انہوں نے ملک میں فرقہ واریت کی بات کی تھی ۔آکاش وانی اور دوردرشن کی تاریخ میں یہ شاید پہلا واقعہ ہے کہ کسی وزیراعلیٰ کو یوم آزادی خطاب روک دیا گیا ۔ایسا نہیں ہے کہ مرکز کے خلاف چیف منسٹر نے سدا وفاقی سرکار کی پالیسی پر تنقید کی ہے لیکن بھارت سرکار کی پالیسی ہمیشہ تال میل کی رہی ہے ۔یہ ہو سکتا ہے کہ مانک سرکار کی رائے بالکل ٹھیک نہ ہو لیکن وہ باادب طریقے سے کی گئی تھی۔اس کے علاوہ انہوں نے عوام کو توڑ پھوڑ یا بغاوت کے لیے بھڑکایا بھی نہیں تھا ۔اگر ان کی تقریر جوں کی توں نشر ہوتی تو کیا نریندر مودی کی سرکار گر جاتی؟کیا ترپورا میں کوئی پر تشدد تحریک چل پڑتی ؟اسی طرح صرف مدارس کوترنگا لہرانے اور اس کی ویڈیوبنانے کا حکم صادر کرنا کس بات کا اشارہ ہے ؟کیا اس سے اشارہ نہیں ملتا کہ ہم اپنے مسلمان بھائیوں کے محب وطن ہونے کے جذبے پر شک کر رہے ہیں ؟ایسا بالکل نہیں ہے لیکن اس طرح کے فالتو فیصلوں کا نتیجہ یہی ہوتا ہے ۔اس طرح کے فرمانوں سے بی جے پی سرکار کی عزت خراب ہوتی ہے ۔اس کی فضول بدنامی ہوتی ہے لوگ پوچھتے ہیں کہ خود بی جے پی اور سنگھ پریوارکیا ترنگے کا احترام کرتے ہیں ؟کیا وہ بھگوا اور ترنگے میں فرق نہیں کرتے ؟جہاں یہ دو زیادتیاں ہوئیں‘وہاں ایک تیسری بڑی زیادتی بھی ہوئی ۔موہن بھاگوت نے ترنگا کیوں لہرایا ؟کسی سرکاری سکول میں صرف کلیکٹر یا ہیڈ ماسٹر ہی ترنگا لہرا سکتا ہے ‘ایسا کوئی قانون ہے ‘گزشتہ ساٹھ برس میں خود میں نے درجنوں بار اندور اور دلی کے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں ترنگا لہرایاہے ۔کبھی کسی نے کوئی اعتراض نہیں کیا ۔یہ اعتراض اس لیے کیا گیا ہے کہ کیرل میں مارکس وادی پارٹی کی سرکار ہے ۔مارکس وادیوں کے دل میں ترنگے کی کتنی عزت ہے ‘یہ سب کو پتا ہے ۔موہن بھاگوت نے بالکل ٹھیک کیا ۔اگر کیرل کی سرکار اس ہیڈ ماسٹر یا موہن جی کو گرفتار کر لیتی تو اسکی وطن پرستی میں چار چاند لگ جاتے ۔سارے ملک میں اسکی تھو تھو ہوتی ۔
مو دی اور اکھلیش کی جملہ بازی
اتر پردیش میںدورانِ انتخاب لیڈروں کے درمیاں جو نوک جھونک چلتی ہے 'عوام اس کا مزہ لیتے ہیں ۔ابھی نریندر مودی اور امیت شاہ جتنے کس کر اکھلیش اور راہول پر حملہ کر رہے ہیں 'اس سے لگتا ہے کہ وہ اتنے ہی زیادہ گھبرائے ہوئے ہیں ۔اگر اتر پردیش میں بی جے پی ہار گئی تو اگلے دو اڑھائی سال مودی اور شاہ کے لیے گرم توے کی طرح بن جائیں گے ۔بی جے پی کے اندر ہی مودی اور شاہ کی جوڑی بدلنے کی بات اٹھنے لگے گی ۔سنگھ پریوار کو بھی اپنی خاموشی توڑنی پڑے گی ۔اس لیے یہ دونوں لیڈر اپنی تقاریر میں کہیں لکشمن ریکھا پار کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں تو کسی کو حیرانی نہیں ہونی چاہیے ۔مودی نے اپنی تقریر میں اتر پردیش کو سیاست کا بڑا سکیم کہا ہے ۔ انہوںنے انگریزی کے (SCAM) کے پہلے لفظ ایس کو سماج وادی (سی )کو کانگریس (اے ) کو اکھلیش اور ایم کو مایاوتی بتایا اور اپنے سبھی مخالفین کے منہ پر سیاہی ملتے انہیں گھوٹالہ بنادیا ۔اس کے جواب میں اکھلیش نے بھی سخت بات کی‘انہوں نے سکیم کا مطلب نکالا کہ ''سیو داکنٹری فرام امیت اینڈ مودی‘‘یعنی ملک کو مودی اور امیت شاہ سے بچائو ۔اکھلیش چاہتے تو سکیم لفظ کے اتنے تیزابی مطلب نکال سکتے تھے کہ وہ معنی مودی اور شاہ کی چمڑی ادھیڑ کر رکھ دیتے لیکن یہی فرق مودی اور اکھلیش میں ہے ۔اکھلیش ٹھنڈی مار لگاتا ہے ۔مودی اور شاہ کا یہ پوچھنا کچھ حد تک ٹھیک ہے کہ اکھلیش نے کانگریس جیسی ادھ مری پارٹی کے ساتھ اتحاد کیوں کیا ؟کیوں کہ اسے شکست کا خوف ہے لیکن اکھلیش کا جواب یہ ہے کہ یہ اتحاد ہم نے اڑھائی سو نہیں تین سونشستیں جیتنے کے لیے کیا ہے 'اور 2019 ء کے لوک سبھا چنائو جیتنے کے لیے کیا ہے ۔ دیکھیں یہ بات کہاں تک سچ ہوتی ہے لیکن یہ سچ ہے کہ جملہ بازی میں اکھلیش اور راہول مودی اور امیت شاہ کو مات نہیں دے سکتے ۔انہیں اس کی کوشش بھی نہیں کرنی چاہیے ۔

ملک میں کروڑوں لوگ ایسے ہیں ‘جو روز اخبار نہیں پڑھتے ‘ٹی وی چینل پر خبریں نہیں دیکھتے ‘پارلیمنٹ کی کارروائی میں ان کی خاص دلچسپی نہیں ہوتی لیکن 15 اگست کی صبح وہ اپنے ریڈیواور ٹی وی کھول کر بڑی عقیدت کے ساتھ لال قلعہ کا پروگرام سنتے اور دیکھتے ہیں ۔وزیراعظم چاہتے تو سواسوکروڑ لوگوں سے جذباتی خطاب کر سکتے تھے ۔جو محبت کی بات انہوں نے کشمیر کے بارے میں کہی‘گولی اور گالی کو غلط بتایا ‘ویسی کئی باتیں وہ کئی معاملات میں کہہ سکتے تھے ۔انہوں نے گورکھپور کے سرکاری ہسپتال میں ہوئی بچو ں کی موت کاذکر کیا ‘یہ بھی اچھا ردعمل مانا جا سکتا ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved