تمام فوجی سربراہان سے اختلاف کا تاثر ٹھیک نہیں ہے : نوازشریف
سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''تمام فوجی سربراہان سے اختلاف کا تاثر ٹھیک نہیں‘‘ صرف پرویز مشرف کے ساتھ ذرا بے تکلف ہونے کی کوشش کی تھی لیکن وہ اس مذاق کا برا ہی مان گئے حالانکہ اتنے بڑے افسر میں تھوڑی حس مزاح تو ہونی ہی چاہیے جبکہ ان کا طیارہ بھارت کی طرف موڑنے کا حکم دینے کا مقصد بھی یہی تھا کہ وہ وہاں ہمارے دوستوں کی میزبانی سے لطف اندوز ہوتے۔ انہوں نے کہا کہ'' کچھ فوجی سربراہان سے دوستی بھی تھی‘‘ حالانکہ وہ سب میرے ماتحت تھے جن کے ساتھ کسی قسم کی دوستی یا دشمنی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا لیکن انہوں نے کبھی مجھے اپنا حاکم سمجھا ہی نہیں اور یہ اُن کی سراسر ناسمجھی تھی چنانچہ میں نے سارے اہم امور مملکت انہی پر چھوڑ دیئے کہ سر کھپاتے پھریں اور مجھے اپنے کاروبار کی طرف پوری توجہ مبذول کرنے کا موقعہ ملے جو بھارت سمیت مغربی اور عرب ملکوں میں پھیلے ہوئے تھے‘ چنانچہ خارجی امور وغیرہ میں اُنہیں پھنسا کر میں نے انہیں' ہور چُوپو‘ بھی کہا۔ انہوں نے کہا کہ ''میں اداروں میں ٹکرائو نہیں چاہتا‘‘ بلکہ خود اُن کی طبیعت درست کرنا چاہتا ہوں جو مشن جی ٹی روڈ کے دوران بہت حد تک کر بھی چکا ہوں۔ انہوں نے کہا کہ'' ووٹ کے احترام کو پائوں تلے روندنے کا سلسلہ ختم ہونا چاہیے‘‘ کیونکہ ووٹ اپنے ساتھ یہ اختیار بھی دیتا ہے کہ میں کچھ بھی کرتا پھروں‘ چنانچہ میں نے جو کچھ بھی کیا‘ اپنے اس اختیار اور حق ہی کا استعمال کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''70 سال سے یہی سلسلہ جاری ہے‘‘ لیکن اس کا احساس اب ہوا ہے کیونکہ نااہلی کے بعد بہت سی چیزیں سمجھ میں آنا شروع ہوتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''زرداری سے کچھ مانگا نہ مانگنے کا ارادہ ہے‘‘ اور ان کی طرف سے کورے جواب کے بعد تو یہ ارادہ اور بھی پختہ ہو گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''قوم نے میری نااہلی کا فیصلہ قبول نہیں کیا‘‘ اسی طرح وہ میری سزا وغیرہ کا فیصلہ بھی قبول نہیں کرے گی بلکہ اس سے بھی میری مقبولیت میں اضافہ ہو گا‘ اسی لیے میں نے کہہ دیا ہے کہ پورے خاندان کے ساتھ جیل جانے کو تیار ہوں کیونکہ اکیلے تو وہاں میرا دل ہی نہیں لگتا۔ انہوں نے کہا کہ ''گرینڈ ڈائیلاگ وقت کی ضرورت ہے‘‘ اور لطف یہ ہے کہ اس کا احساس بھی مجھے نااہلی کے بعد ہی ہوا ہے۔ اسی سے پتا چلتا ہے کہ نااہلی کے کچھ فائدے بھی ہیں‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز بی بی سی کو انٹرویو دے رہے تھے۔
اشرافیہ کو سہولتیں حاصل مگر عام آدمی ان سے محروم ہے : شہبازشریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہبازشریف نے کہا ہے کہ ''اشرافیہ کو تمام سہولتیں حاصل ہیں‘ لیکن عام آدمی اس سے محروم ہے‘‘ اور یہ جان کر مجھے واقعی بہت افسوس ہوا ہے اور ان کی تقدیر پر رونا آتا ہے جس میں یہی لکھا تھا‘ چنانچہ میں ان کے لیے دعا گو ہوں کہ اللہ میاں ان کی غلطیاں معاف کریں اور انہیں بھی تھوڑی بہت سہولتوں سے ضرور نوازیں جبکہ اشرافیہ پر مجھے سخت غصہ ہے کہ ساری سہولتیں انہوں نے اپنے لیے اکٹھی کر لی ہیں اور غریب عوام کا کوئی خیال نہیں رکھا‘ آخر لالچ کی کوئی حد بھی ہوتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''اسے قائداعظم کا پاکستان نہیں کہا جا سکتا ‘‘اور صرف قائداعظم ثانی کا پاکستان کہا جا سکتا ہے کیونکہ وہ بھی درویش صفت آدمی ہیں اور اللہ میاں نے انہیں جس حال میں رکھا ہوا ہے وہ صبروشکر کر کے اسی پر مطمئن ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''وسائل کی نہیں‘ سوچ کی غربت ہے‘‘ اور سارا کام میاں نوازشریف کی ذہانت و فطانت پر ہی چلایا جا رہا ہے جو اُن میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے جبکہ کئی سال تو اسے کوٹنے میں ہی لگ گئے تھے۔ انہوں نے کہا کہ ''میرٹ کی پالیسی سے عوام کی خدمت کی‘‘ چنانچہ افسروں کی ترقیاں بھی میرٹ پر کی گئیں جس میں جی حضوری کرنے والوں کا خاص خیال رکھا جاتا ہے اور ٹھیکے وغیرہ بھی اپنے آدمیوں کو خالص میرٹ پر ہی دیئے جاتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے ''ملک میں 70 سال سے رائج اقرباء پروری اور سفارش کلچر کا خاتمہ کر دیا گیا ہے‘‘ اور اس کا خاتمہ بھی کرپشن کے خاتمے کے ساتھ ہی کیا گیا ہے تاکہ وقت بچ جائے اور علیحدہ علیحدہ انہیں ختم کرنے کا تردد نہ کرنا پڑے۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لانا ہے‘‘ اور ہم کافی عرصے سے اسی صف کی تلاش میں ہیں‘ جونہی اس کی نشاندہی ہوتی ہے اللہ کا نام لے کر اسے اس میں گھسیڑ دیں گے۔ پھر جو ہوتا ہے دیکھا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ ''پاکستان کا مستقبل فنی تعلیم سے جڑا ہوا ہے‘‘ اور اگر صرف ایک فن حاصل کیا جائے جس میں ہم طاق ہیں تو ہر کوئی اپنی تقدیر بدل سکتا ہے جس طرح ہم نے بدلی ہے۔آپ اگلے روز لاہور میں ایک افتتاحی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔
عمران خان نااہل ہوں گے تو پھر انہیں سمجھ آئے گی:مائزہ حمید
مسلم لیگ (ن) کی مائزہ حمید نے کہا ہے کہ ''عمران خان نااہل ہوں گے تو پھر انہیں سمجھ آئے گی‘‘ جیسے ہمارے وزیراعظم کو آئی ہے کہ سابق اور نااہل ہونے کے بعد ہی ان کی سمجھ کے سارے خانے کھل گئے ہیں‘ انہیں بھولا بسرا میثاق جمہوریت بھی یاد آیا ہے‘ یوسف رضا گیلانی کی نااہلی‘ ووٹ کا احترام‘ انقلاب کی ضرورت اور گرینڈ مشاورت جیسی چیزیں ایک ایک کر کے ان کے دماغ میں روشن ہونے لگی ہیں اور نااہلی کی اس حیرت انگیز تاثیر پر ہم سب انگشت بدنداں ہیں۔ اسی طرح میاں شہباز کا بھی حافظہ تیز ہونے کی بھی امید پیدا ہو گئی ہے کہ حدیبیہ پیپر مل کے حوالے سے یہ خوشخبری بھی بہت جلد ملنے والی ہے جبکہ ابھی فیصلہ آیا بھی نہیں اور انہیں پاکستان کو ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں لانے سمیت بہت سی چیزوں کا احساس ابھی سے شروع ہو گیا ہے اور یہ سبھی نااہلی ہی کے کرشمے تو ہیں۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک نجی ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام میں شریک تھیں۔
آج کا مقطع
ذاکرہ تھی کوئی اور خُوب رُلاتی تھی‘ ظفرؔ
مجلسیں پڑھتی ہوئی دل کے عزا خانے میں