تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     19-08-2017

دوستی

ایغور پاشا نے سچ کہا تھا۔ شادی کے بعد بھی اس میں کوئی تبدیلی نہ آئی۔وہ میرا سکول کے زمانے کا دوست تھا ۔ دوست کیا ، لنگوٹیا ۔ ہم اکٹھے قریب کے باغات سے پھل چرایا کرتے تھے ۔ سکول سے جب ہم کالج میں آئے تو ہر آوارگی ہم نے اکٹھے کی۔ پاشا جیسا یار باش زمانے میں اورکوئی نہ ہوگا ۔ دوستوں کے لیے اس کی جان بھی حاضر تھی ۔آوارگی اور خرمستی کے ان دنوں میں ، اکثر ہم میں سے کوئی نہ کوئی مصیبت میں پھنس جاتا ۔ ایسے میں پاشا کے باپ کی پرانی حویلی ہی اس کی جائے پناہ ہوتی ۔ اس حویلی میں بہت سے خفیہ تہہ خانے ، راہداریاں اورخفیہ کمرے موجود تھے۔اس کا باپ خود بھی اب انہیں بھول چکا تھالیکن پاشا کو یہ سب بھول بھلیاں ازبر تھیں ۔ اس کی پرانی کھٹارا گاڑی بھی ہر دوست کے لیے حاضر تھی ۔
کالج کے دنوں میں پاشا نے سب سے بڑا جو کارنامہ کیا تھا، وہ اب تک مجھے یاد ہے ۔ ہوا یہ کہ تاریخ کے مضمون میں اس کے نمبر کم تھے۔اس کے پاس ہونے کا امکان کافی کم تھا ۔ ایسے میںاس نے ایک حیران کن فیصلہ کیا۔ فائنل پیپر میں بجائے اپنا پرچہ حل کر نے کے ، وہ ایڈی کے لیے دو سوال حل کر آیا۔ لکھائی کی نقالی میں وہ یوں بھی ماہر تھا۔ اپنے باپ کی چیک بک پر اس کے دستخط بھی کر لیا کرتا۔ اپنے معمولی دوستوں کے لیے اگر وہ یہ کچھ کر رہا تھا تو اندازہ ہی کیا جا سکتاہے کہ میرے لیے ، اپنے لنگوٹیے یار کے لیے وہ کیا کچھ کر سکتا تھا۔ یہ بات پوری ریاست میں مشہور تھی کہ پاشا جیسا دوست اس زمانے میں اور کوئی نہ ہوگا۔ اُس کی یہ دوستی ہمارا فخر تھی ۔ خود میں نے بھی اس کے لیے ضرورت پڑنے پر بہت کچھ کیا لیکن ظاہر ہے کہ میں وہ کچھ نہ کر سکا ، جو اس نے کیا۔ 
سکول کے دنوں میں پاشا نے مجھے بتایا تھا کہ انتہائی یارباش ہونے کی وجہ سے اکثر اس کے دوست اس سے پیسے مانگتے ہیں ۔ سامنے کی جیب میں جو روپے وہ رکھتا ہے ، اگر کوئی بھی دوست ان میں سے کچھ مانگے تو وہ دے دیتاہے ۔ پتلون کی جیب میں جو کچھ ہوتا وہ ضروری اخراجات کے لیے تھا لیکن اگر کوئی بہت قریبی دوست مانگ لیتا تو وہ پتلون میں سے بھی نکال کر دے دیتا ۔ پاشا نے کہا تھا کہ جراب کے اندر جو پیسے وہ چھپاتا ہے ، وہ انتہائی ضروری چیزوں کے لیے ہوتے ہیں ۔ یہ وہ پیسے ہیں ، جو میں کسی دوست کو بھی نہیں دیتا ۔ ''لیکن میرے یار‘‘ اس نے میری ٹھوڑی کو ہاتھ لگا کر کہا تھا''ضرورت پڑے تو تیرے لیے یہ بھی حاضر ہیں ‘‘ ۔ کتنی ہی دفعہ پاشا کی جرابوں سے پیسے نکال کر میں نے اپنی ضرورت پوری کی تھی ۔واقعی وہ یاروں کا یار تھا ۔ دِلوں کا بادشاہ !
جب ایغور پاشا کی شادی طے پائی تو علاقے بھر میں بہت سی شرطیں لگیں ۔ بڑے بزرگوں کا کہنا یہ تھا کہ شادی بڑے بڑوں کو بدل دیتی ہے ۔ جنگل کے آزاد منش جانور کی بجائے وہ کولہو کا بیل بن جاتا ہے ۔ ایک دائرے میں چکر لگاتا رہتا ہے اور اپنی بیوی کی ضروریات پوری کرتا رہتا ہے ۔ان باتوں کے جواب میں پاشا ہنستا رہا۔ شادی کو چند ماہ گزرے، ایک سال پورا ہوا اور پھر دوسال۔ پاشا نہ بدلا۔ جراب سے پیسے نکال کر مجھے دیتا رہا ۔ وہ واقعی یاروں کا یار تھا ، دِلوں کا بادشاہ تھا۔ اس پورے علاقے کی ہمدردیاں پاشا کی بیوی کے ساتھ تھیں ۔ وہ بھی ایک پراسرار خاتون تھی، نہ کبھی حویلی سے باہر نکلی ، نہ کبھی اپنا حال کسی کے گوش گزار کیا ۔ 
تیسرا سال اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہاتھا، جب ایک روز پاشا کی بیوی حویلی سے نکلی ۔ دیکھنے والوں نے انگلیاں منہ میں دبا لیں ۔ وہ اچھی خاصی فربہ ہو چکی تھی ۔ پھر دفعتاً ہمیں اندازہ ہوا کہ وہ حاملہ ہو چکی ہے ۔ خاموشی سے اس نے کچھ سامان خریدا ، گاڑی میں بیٹھی اوراپنے میکے چلی گئی ۔ کبھی ہمیں شبہ ہوتا کہ وہ خدا کی کوئی برگزیدہ ہستی ہے ۔ شادی کے بعد بھی زیادہ تر وقت پاشا میرے ساتھ ہی سیر سپاٹے کرتا رہا۔ اس کی بیوی نے پاشا کے موبائل پر کبھی فون نہیں کیا ۔ جس قدر پاشا یار باش تھا ، جتنا وہ ذمہ داریوں سے آزاد تھا، اتنی ہی وہ صبر والی تھی ۔
پاشا کا کہنا تھا '' ہاں میں باپ بننے والا ہوں لیکن میں اپنی آزادی سے دستبردار نہیں ہوں گا ۔ کولہو کا بیل نہیں بنوں گا اور اپنے بیٹوں کو اپنا خون چوسنے نہیں دوں گا ۔میں یاروں کا یار ہوں ، میں یاروں کا یار رہوں گا ۔میں دوستی نبھاتے ہوئے زندہ رہا اور دوستی نبھاتے ہوئے مروں گا ۔ ‘‘
پاشا کی بیوی کو میکے گئے مہینہ ہونے کو آیا تھا۔ حسبِ معمول حویلی میں محفلیں اپنے عروج پر تھیں ۔ یہی وہ دن تھے، جب پاشا نے ریاست الاگیر کی سیر کا ارادہ کیا۔ یہاں جنگلات تھے، بے شمار تفریحی مقامات اور بازار۔سیاحوں کا یہاں ہمیشہ اژدھام رہتا ۔ ہر روز سیر و تفریح اور ہر رات نائو نوش کی محفل۔ زندگی کی خوبصورتی سے ہم خوب لطف اندوز ہو رہے تھے ، جب پاشا کی بیوی کا تصویری پیغام(picture message) اسے موصول ہوا۔ پاشا باپ بن چکا تھا۔ میں نے تصویر دیکھی ۔ سرخ بالوں اور نیلی آنکھوں والی ایک بچّی ۔ ہوبہو پاشا کی نقل ۔ سب اسے دیکھتے رہ گئے ۔ پاشا کچھ دیر خاموش بیٹھا رہا ۔ پھر اس نے دھاڑ کر کہا ''میں یاروں کا یار ہوں ‘‘ سب ہنس پڑے ۔ 
یہ اسی رات کی بات ہے ۔ بازار میں کچھ چیزیں مجھے پسند آئیں ۔ میرے پاس پیسے نہ تھے۔ میں واپس ہوٹل آیا ، پاشا کے کپڑے کھنگالے۔ قمیض اور پتلون کی جیب خالی تھی۔ میں نے جرابیں دیکھیں ، وہ بھی خالی ۔ میں سو نے کے لیے لیٹ گیا لیکن مجھے نیند نہ آئی۔ دو گھنٹے کے بعد پاشا آہستگی سے اٹھا۔ اس نے کپڑے پہنے اور باہر نکل گیا ۔ تجسس کے ہاتھوں مجبور ہو کر ، میں اس کے پیچھے نکلا۔ خاموشی سے وہ بازار کی طرف جا رہا تھا ۔ وہ ایک دکان کے اندرگیا ۔ اس نے کچھ چیزیں پسند کیں۔ یہی وہ وقت تھا ، جب میں دکان کے اندر داخل ہوا۔ میں نے دیکھا کہ پاشا نے اپنی ٹوپی اتاری ، اس میں سے کچھ پیسے نکالے اور دکان دار کو دئیے۔ پھر اس کی نظر مجھ پر پڑی ۔ وہ گھبرا سا گیا۔ میں نے آگے بڑھ کر لفافہ کھول کر دیکھا۔ اس میں بچّوں کے کپڑے تھے۔ میں نے اس کی ٹوپی اتار کر دیکھی۔ اس میں اچھی خاصی رقم موجود تھی۔ میں نے ایک بار پھر بیٹھ کر اس کی جرابیں ٹٹولیں۔ وہ خالی تھیں ۔ میں نے پاشا کا چہرہ دیکھا۔ وہ دھواں دھواں ہو رہا تھا ۔ 
پھر اس نے آگے بڑھ کر میرے ہاتھ سے لفافہ چھین لیا اور ٹوپی بھی ۔ میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا۔ وہاں اب شرمندگی کی جگہ پر غصہ تھا۔ وہ ایک ایسی بلّی کی طرح لگ رہا تھا، جس کے بلونگڑے کو کسی نے چھیڑنے کی کوشش کی ہو ۔ میں نے ایک بار پھر اسے دیکھا اور ڈر گیا۔ وہ دوست جس نے ساری زندگی میری معیت میں گزاری تھی ، مر چکا تھا ۔ اب وہاں ایک باپ کھڑا تھا، ایک مجبور باپ!

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved