''پورا ملک ہی کھنڈر ہو گیا‘‘۔ میں نے سوچا‘ جب تاجر حکمران ہو جائیں۔ ہر چیز کو صرف اور صرف ‘نفع و نقصان کی نگاہ سے دیکھنے والے تو اس کے سوا کیا ہو۔
کچھ دیر وہاں کھڑا رہا۔چشمِ تصور سے وہ دل گداز منظر دیکھنے کی کوشش‘ جب وہ نحیف و نزار مگر نجیب اور شاندار آدمی‘ مصیبت کے ماروں سے ملنے آیا تھا۔ قائداعظم محمد علی جناحؒ‘ ہماری تاریخ جس کا قرض نہیں چکا سکتی۔ تمام گزرے زمانوں کاسب سے بڑا ‘1947ء میں والٹن روڈ لاہور کامہاجر کیمپ۔ بے نوا‘ بے دست و پا لوگ‘ جن کے لیے کوئی بندوبست نہ کیا گیا تھا۔ اس طوفان کا کسی کو اندیشہ ہی نہ تھا۔ستر اسی فٹ چوڑی اور لگ بھگ اڑھائی سو فٹ طویل‘ سرخ رنگ کی یہ عمارت تب بھی یہیں تھی۔ کسی جاں بلب بڑھیا کی طرح‘ کہنہ اور مضمحل نہیں بلکہ کھلے میدان میں تعمیراتی شوکت کا ایک لہکتا ہوا استعارہ۔ برصغیرپاک و ہند میں بوائے سکائوٹس کا مرکزی دفتر۔ سرخ اینٹوں کی عمارت اب اپنے جلال سے محروم ہو چکی۔اب اپنے ماضی کا مرثیہ ہے۔حکمرانوں کی بے حسی کا ایک اور مظہر۔
اسی کے پہلو میں حدِّنظر تک پھیلا ہوا وہ میدان ہے‘ جہاں ہجرت کی تاریخی یادگار تعمیر ہونا تھی۔ آرکیٹیکٹ امجد چوہان نے چھوٹی سی مسجد کے پہلو کی طرف اشارہ کیا: غالباً یہی وہ جگہ ہے‘ جہاں قائداعظمؒ نے ہجوم پہ نظر ڈالی اور آبدیدہ ہوگئے تھے۔
کیا پہاڑ بھی کبھی روتے ہیں؟۔ بارہا یہ حکایت سنی مگر یقین کبھی نہیں آیا۔ اس کے باوجود نہیں آتا کہ منفرد مصنف ممتاز مفتی سمیت بہت سے لوگ اس کے راوی ہیں۔ صوفی محمد رفیق مرحوم کہا کرتے کہ اس واقعہ کے بعد قائداعظمؒ بہت دن اُداس رہے۔ کسی نے انہیں سوات کے جواں سال صوفی بادشاہ صاحب کے بارے میں بتایا ۔ ایک خط قائداعظم ؒنے انہیں لکھا۔ پوچھا کہ تقسیم کے نتیجے میں جو قتل عام ہوا‘ کیا وہ بھی اس کے ذمہ دار ہیں ۔اگر ہیں تو انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ''جب دل پر ایسا بوجھ آ پڑے تو استغفار پڑھا جاتا ہے‘‘ درویش نے انہیں لکھا‘ چونتیس برس بعد راولپنڈی میں جس سے میری ملاقات ہونا تھی۔ ایک سادہ سے مکان میں‘ ایک سادہ سی کرسی پر وہ تشریف فرما تھے اور بوڑھے ہوگئے ہیں۔ آواز میں ٹھہرائو مگر تاب و توانائی تھی۔ نرمی اور آسودگی مگر یقین بھی۔ صوفی محمد رفیق نے‘ جو اپنے مزاج کی سادگی اور استواری سے پہچانے جاتے اور سائیکل پر سوار ادھر ادھر گھوما کرتے‘ سرگوشی کی کہ افغانستان کے بارے میں‘ ان سے پوچھوں‘ جو ان دنوں میرا موضوع تھا۔
میں کچھ پریشان تھا۔ حواس مجتمع کرنے کے لیے کچھ وقت درکار تھا۔ ہوا یہ کہ سرخ رنگ کے چمکتے دمکتے نئے قالین کو روندتے ہوئے‘ میں اُن کے پاس جا کھڑا ہوا۔ صوفی صاحب نے اشارے سے روکنے کی کوشش کی‘ مگر میں سمجھ نہ سکا۔ ''ایسے اُجلے فرش کو زیبا ہے کہ اس پر اللہ کا ذکر کیا جائے‘‘۔درویش نے کہا۔ آواز میں ایسا اطمینان تھا کہ جی کو قرار سا آ گیا ۔اب ان سے پوچھا:بابا جی! افغانستان کا کیا ہوگا۔ ''کابل آزاد ہو جائے گا‘‘۔ فقیر نے رسان سے کہا ''مگر وہ لوگ نہیں آئیں گے‘ جو آپ کے ذہن میں ہیں‘‘۔''کون لوگ آئیں گے؟‘‘۔حیرت زدہ اخبار نویس نے سوال کیا جو یہ سمجھتا تھا کہ گلبدین حکمت یار اور برہان الدین ربانی آئندہ برسوں میں افغانستان کے تخت پر براجمان ہوں گے۔ ''ایک تو ظاہر شاہ آئیں گے‘‘۔وہ بولے '' اور کچھ دوسرے لوگ‘ جن کے بارے میں آج کوئی یہ گمان بھی نہیں رکھتا‘‘۔ وہ دھیرے سے بولے۔ ''ظاہر شاہ کا تو خیر سوال ہی پیدا نہیں ہوتا‘‘۔ اس یقین سے‘ میں نے کہا جو گنواروں اور ناتجربہ کار لوگوں میں ہوتا ہے۔درویشوں سے کہیں زیادہ اٹل ۔
اس پر وہ ناراض ہوئے اور نہ انہوں نے اپنی آواز بلند کی۔ چہرے پہ کوئی تاثر ہی پیدا نہ ہوا۔ اپنے خیالوں میں گم آدمی۔ کچھ دیر میں وہ بولے: اپنی آنکھوں سے آپ دیکھ لیں گے۔ پھر اپنے مرید کی طرف وہ متوجہ ہوئے اور کہا: کیا خیال ہے‘ شام کو اسلام آباد نہ چلیں؟۔ صوفی صاحب نے بہت بعد میں مجھے بتایا کہ شاہ صاحب حکماً کوئی بات نہیں کہتے۔ جب بھی کوئی ارادہ کریں‘ سوالیہ انداز میں‘ مریدوں سے پوچھتے ہیں کہ کیا یہ کام کرنا چاہئے؟۔
ایسے دو مواقع البتہ صوفی محمد رفیق کو یاد تھے‘ جب انہوں نے حکم صادر کیا یا سختی سے کام لیا۔ ایک بار جب خان عبدالغفار ان سے ملنے آئے۔ اپنے بوریے سے وہ اٹھے اور گائوں کے پچھواڑے چل دئیے۔ ''چلو!‘‘ ہمیشہ اپنے گرد موجود رہنے والے ہجوم سے انہوں نے کہا ''میں اس شخص سے نہیں ملنا چاہتا۔ وہ پاکستان کا دوست نہیں‘‘۔ دوسری بار 1988ء کے موسم بہار میں‘ جنرل محمد ضیاء الحق پر وہ برہم ہوئے‘ جب ان سے ملنے گئے۔ جنرل کے برعکس‘ جو مجاہدین کے سرپرست تھے‘ ان لوگوں سے ذرا حسن ظن بھی صوفی کو نہیں تھا۔ کاشتکاری جس کا ذریعہ آمدن تھا اور جس کے گھر کی خواتین مریدوں کیلئے کھانا پکایا کرتیں۔ جنرل کو انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کی کہ وعدے انہوں نے پورے کیوں نہیں کئے ۔
چائے پینے سے انکار کر دیا اور جتلایا کہ فوجی حکمران کی مہلتِ عمل کچھ زیادہ نہیں۔ بیگم جنرل محمد ضیاء الحق سلام کرنے آئیں تو انہیں متنبہ کیا کہ بے عمل قسم کے درویشوں سے نہ ملنے جایا کریں۔ وہ کچھ دیر حیران کھڑی رہیں۔ بارِ دگرمؤدبانہ سلام کیا اور اُلٹے قدموں لوٹ گئیں۔ ''کاہن اور شعبدہ باز‘‘۔ ایوان صدر سے نکلتے ہوئے درویش بڑبڑایا۔ اشارہ ان لوگوں کی طرف تھا‘ جو تعویز دھاگے کو تصوف کہتے ہیں۔ جلال اس دن ایسا تھا کہ کسی کو بات کرنے کی ہمت نہ پڑی۔
امجد چوہان کے ساتھ ان کی پرانی سی گاڑی میںبیٹھا‘ تیس برس پہلے جنہوں نے بابِ پاکستان کا خواب دیکھا تھا‘ میں ان دونوں آدمیوں کے بارے میں سوچتا رہا۔ اور یہ کہ اپنے اہل علم‘ اپنے پاک طینت رہنمائوں کی جو قوم پیروی نہیں کرتی‘ اس کا انجام کیا ہوتا ہے؟
بابِ پاکستان کا تصور‘ نیشنل کالج آف آرٹس کے طالبعلم‘ امجد چوہان نے پیش کیا تھا۔ بار بار جنرل محمد ضیاء الحق کو وہ لکھتے رہے؛ تاآنکہ جنرل غلام جیلانی کو انہوں نے تعمیر کا حکم دیا۔ آغاز مگر غلام حیدر وائیں کی وزارت اعلیٰ کے دور میں ہوا۔ ملک بھر کے ماہرین سے‘ 110 ایکڑ پر پھیلی سیرگاہ میں‘ ایک بامعنی کمپلیکس تعمیر کرنے کیلئے تجاویز طلب کی گئیں۔ وہ لوگ‘ جن کا نام احترام اور مرعوبیت سے لیا جاتا۔ حیرت انگیز واقعہ یہ ہوا کہ ایک ناآموز کا پیش کردہ ڈیزائن قبول کر لیا گیا۔
اب ہم اس ڈیزائن کے سامنے کھڑے تھے‘ لگ بھگ 6 مربع فٹ کا خاکہ‘ بلند و بالا ستون‘ جوکلمۂ توحید کو متشکّل کرتے ہیں۔ امجد چوہان اُداس تھے۔ ''دیکھئے یہ نادر ڈیزائن گرد سے اَٹا پڑا ہے۔ بے دردی سے برآمدے میں پھینک دیا گیا ہے۔ اس طرح کی چیزوں سے کیا یہ سلوک کیا جاتا ہے؟۔
''بالکل نہیں‘‘ میں نے کہا مگر تعجب ہوا کہ پورے منصوبے ہی کو کوڑاکرکٹ بنا دیا گیا تو اس چھوٹے سے ڈیزائن کی کیا اہمیت۔ ''میرا دل دکھتاہے‘‘ انہوں نے کہا۔ آپ نے دیکھا‘ نامکمل عمارتیں کھنڈر ہوتی جا رہی ہیں۔خادمِ پنجاب نے تہیہ کر لیا ہے کہ قومی یادگار اور سیر گاہ کی بجائے ‘ ایک کاروباری ٹھکانہ بنا دیا جائے۔
''پورا ملک ہی کھنڈر ہو گیا‘‘۔ میں نے سوچا‘ جب تاجر حکمران ہو جائیں۔ ہر چیز کو صرف اور صرف ‘نفع و نقصان کی نگاہ سے دیکھنے والے تو اس کے سوا کیا ہو۔ ... (جاری)