تحریر : جاوید حفیظ تاریخ اشاعت     20-08-2017

آج کا امریکہ…چند مشاہدات (5)

امریکہ نے برطانیہ سے آزادی حاصل کی اور دانستہ طور پر کئی برطانوی رسوم و قیود کو توڑا۔ انگریز کرکٹ کے شیدائی تھے امریکہ والوں نے کرکٹ کو اپنانے کی بجائے بیس بال کھیلنا شروع کیا۔ انگلستان میں گاڑیاں سڑک کی بائیں جانب چلائی جاتی ہیں امریکہ والے کاریں دائیں جانب چلاتے ہیں۔ انگریز فٹبال کھیلنے کے شوقین تھے امریکہ نے روایتی فٹبال کو اپنانے کی بجائے نئی طرز کی فٹبال گیم ایجاد کی۔ برطانیہ والے اشرافیہ کی برتری پر یقین رکھتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ پرانے متمول خاندانوں میں پیدا ہونے والے بچے عمومی طور پر اچھی شخصیت کے مالک ہوتے ہیں۔ نو دولتیے چھچھورے اور خودغرض ہوتے ہیں۔ امریکہ والوں نے ہر اُس شخص کی عزت کی جو غریب عوام میں پیدا ہوا اور اپنی ذہانت اور محنت کے بل بوتے پر ترقی کی اعلیٰ منازل طے کر گیا اس کی حالیہ مثالیں سابق صدر اوباما اور بل گیٹس ہیں۔ یہاں From rayes to riches ہتک آمیز الفاظ نہیں ہیں۔ چیتھڑے پہننے والا شخص اگر اپنی محنت سے محلات میں رہنے لگے تو اسے قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اور امریکہ کی متاثر کن ترقی کا بڑا راز بھی یہی ہے۔ 
ماڈرن امریکہ‘ جو اٹھارہویں صدی سے شروع ہوتا ہے‘ نے باہر سے آنے والے ذہین لوگوں کو اہلاً وسہلاً کہا امریکہ کی ترقی کا راز بڑی حد تک یہی ذہین اور محنتی نئے امریکی شہری تھے اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ امریکی گورے ذہانت اور محنت میں کسی سے پیچھے ہیں۔ بل گیٹس اور وارن بوفے دونوں گورے ہیں۔ دونوں اپنی محنت اور ذہانت کے بل بوتے پر امیر ترین اشخاص بن گئے دونوں خیراتی کاموں میں آگے آگے ہیں۔ جیسا کہ پچھلے کالم میں لکھا تھا امریکی سسٹم میں میرٹ کی قدر ہوتی ہے آشبرن ورجینیا سے واشنگٹن ڈی سی جلدی جانا ہو تو راستے میں ایک ٹول روڈ آتی ہے جو کہ پرائیویٹ روڈ ہے۔ یہاں سے گزرنے والی ہر گاڑی کو ساڑھے چھ ڈالر ٹول ٹیکس دینا پڑتا ہے اور اس سڑک کے مالک ایک سردار جی ہیں مجھے یقین ہے کہ امریکہ میں سڑک کے ایسے شاندار حصے کو خریدنے کے پیسے سردار جی انڈیا سے نہیں لائے ہونگے۔
میں نے پہلے ذکر کیا تھا کہ میری بہو لیلیٰ حفیظ یہاں ایک سکول میں پڑھاتی ہے اس سال اُسے چھٹے گریڈ کی گفٹڈ چلڈرن کی کلاس ملی ہے ظاہر ہے کہ یہ بچے عام سٹوڈنٹس سے ذہانت اور معلومات میں آگے ہیں۔ لیلیٰ بیٹی کا کہنا ہے کہ ان بچوں کی ذہنی استعداد آٹھویں گریڈ کے برابر ہے۔ میں نے پوچھا کہ کلاس میں کتنے بچے ہیں جواب ملا کہ چھبیس (26) پھر میرے ذہن میں سوال اٹھا کہ ان ذہین بچوں کی بیک گرائونڈ کیا ہو گی۔ لیلیٰ نے جواب دیا کہ گیارہ بچے انڈین اوریجن کے ہیں اور گیارہ ہی چینی نسل کے ہیں اور باقی ماندہ چار امریکی گورے ہیں۔ مجھے افسوس اس بات کا ہوا کہ اس خوش قسمت کلاس میں ایک بھی پاکستانی نہیں۔ انڈیا اور چین والے ہم سے تعلیم کے میدان میں بہت آگے نکل گئے ہیں۔ اس کے علاوہ جس بات نے مجھے بے حد متاثر کیا وہ یہ تھی کہ سلیکشن میرٹ پر ہوتی ہے۔ میں نے لیلیٰ سے پوچھا کہ یہاں بچوں کو ہوم ورک ملتا ہے جواب ملا کہ ملتا ضرور ہے مگر صرف اتنا کہ وہ آرام سے آدھ پون گھنٹے میں کر دیں۔ تعلیمی فلسفہ یہ ہے کہ بچے جو سیکھیں شوق سے سیکھیں۔ تعلیم کو اگر بوجھ بنا دیا جائے تو اس کا مقصد ہی فوت ہو جاتا ہے۔ 
ہم واشنگٹن ڈی سی میں کھڑے ہیں‘ جارج واشنگٹن امریکہ کی تاریخ کا اہم ترین نام ہے۔ اس عظیم شخص نے امریکہ کی تیرہ ریاستوں کو سیاسی اور عسکری طور پر متحد کر کے برطانیہ کے خلاف جنگ آزادی کامیابی سے لڑی اور پھر امریکہ کے پہلے صدر ہونے کا شرف حاصل کیا۔ ہم واشنگٹن مونیومنٹ کے سامنے ہیں یہ طویل کالم پانچ سو پچپن فٹ بلند ہے۔ انیسویں صدی کے وسط میں تعمیر ہونے والا یہ سٹرکچر اُس وقت دنیا میں بلند ترین تھا۔ اتنے بلند پایہ لیڈر کے لیے یہ بہت مناسب خراج عقیدت ہے۔
جارج واشنگٹن کے بعد ابراہم لنکن امریکی تاریخ کی دوسری بڑی معتبر شخصیت ہیں لنکن میموریل بھی پاس ہی دریائے پوٹامک کے کنارے بنایا گیا ہے۔ لنکن سول وار کے دوران امریکہ کے صدر تھے اور صدور میں ان کا سولہواں نمبر ہے۔ لنکن نے شمالی اور جنوبی ریاستوں کو پھر سے متحد کیا۔ لنکن کا تعلق سپرنگ فیلڈ الی نوائے سے تھا۔ اسی مناسبت سے الی نوائے کو لینڈ آف لنکن کا لقب ملا ہے۔ دریائے پوٹامک واشنگٹن ڈی سی کے بیچوں بیچ گزرتا ہے اسے امریکہ کا نیشنل ریور یا قومی دریا بھی کہا جاتا ہے۔ جارج ٹائون کا علاقہ ڈی سی کا بارونق ایریا ہے۔ یہاں مشہور جارج ٹائون یونیورسٹی بھی ہے۔ دریا میں سیر کرانے کے لیے متعدد موٹر بوٹس کنارے پر کھڑی ملتی ہیں ہم ایک موٹربوٹ میں سوار ہوئے اور کوئی پون گھنٹہ دریا کی سیر کی۔ موٹربوٹ میں بیس پچیس لوگ آرام سے بیٹھ سکتے ہیں۔ کھانے پینے کے تمام لوازمات کشتی میں موجود تھے گویا کہ موٹربوٹ کینٹین بھی ہے۔ واشنگٹن مونیومنٹ اور لنکن میموریل یہاں سے بھی واضح نظر آتے ہیں۔ کینیڈی سنٹر آف پرفارمنگ آرٹس بھی دریا کے کنارے‘ یہ ایک بڑی بلڈنگ ہے جہاں
اوپرا اور بیلے ہال ہے۔ اس کے علاوہ یہاں سٹیج ڈرامے ہوتے ہیں۔ پاس ہی واٹر گیٹ کمپلیکس ہے یہ کئی ہم شکل عمارتوں کا مجموعہ ہے۔ اس عمارت کو دیکھ کر مجھے واٹر گیٹ سکینڈل اور صدر رچرڈ نکسن یاد آ گئے۔ 1972ء کے الیکشن میں واٹر گیٹ کمپلیکس کے ایک ہال میں ڈیموکریٹک پارٹی کا کنونشن تھا وہاں چند لوگ جاسوسی کے آلات لگانے کی کوشش کرتے ہوئے پکڑے گئے۔ شک تھا کہ یہ حرکت ری پبلکن پارٹی والوں کی پشت پناہی سے ہوئی ہے۔ صدر نکسن نے مختلف طریقوں سے معاملے کو دبانے کی کوشش کی۔ کانگریس میں صدر کے مواخذے کی باتیں ہونے لگیں۔ کانگریس کی متعلقہ کمیٹی نے صدر سے چند سوالات پوچھے اور نکسن نے باقاعدہ مواخذے سے پہلے ہی استعفا دے دیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اس ملک کے ادارے مضبوط ہیں تب ہی صدر نکسن کے اقتدار میں ہونے کے باوجود آزادانہ تحقیق کرتے رہے اور علیحدہ ہونے کے بعد صدر نکسن نہ سڑکوں پر آئے اور نہ ہی یہ دعویٰ کیا کہ مجھے کروڑوں امریکیوں نے منتخب کیا ہے تو چند سو افراد پر مشتمل پارلیمنٹ میرا مواخذہ کیسے کر سکتی ہے۔ اس کے بعد ہم لائبریری آف کانگریس گئے جو کیپٹل ہل کے ساتھہ ہی عظیم الشان عمارت میں واقع ہے یہ دنیا کی سب سے بڑی لائبریری ہے۔ یہاں ہر کانگریس مین کے ساتھ سٹاف ہوتا ہے جومسلسل ریسرچ کا کام کرتا رہتا ہے اس لائبریری میں بے شمار کتابیں اور پرانی دستاویزات اصل شکل میں موجود ہیں۔ یہاں ہزاروں لوگ وزٹ کرنے یا پڑھنے آتے ہیں۔ اس کے باوجود لائبریری میں مکمل خاموشی تھی۔ بچوں کا ریڈنگ روم علیحدہ ہے اور عمارت میں کئی منزلیں ہیں۔ کیپٹل ہل یعنی پارلیمنٹ اور وائٹ ہائوس قریب ہی ہیں لیکن یہ میں پہلے دیکھ چکا تھا ویسے بھی اب وہائٹ ہائوس کی سکیورٹی سخت کر دی گئی ہے۔ آج رات کو پاکستان واپسی ہے۔ مجھے پیکنگ کرنی ہے دوستوں اور عزیزوں کو خدا حافظ بھی کہنا ہے۔ امریکہ بے شک خوبصورت ملک ہے لیکن وطن عزیز کی کشش مجھے اپنی جانب بلا رہی ہے۔ الوداع امریکہ ۔(ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved