تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     20-08-2017

کچھ مزید کتابیں اور خانہ پُری

آوازہ و خوشبو
یہ منظور ثاقب کی نظموں اور غزلوں کا تیسرا مجموعہ ہے جسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے چھاپا اور قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب برداشت اور درگزر کے نام ہے ''کہ من دانم‘‘ کے عنوان سے پیش لفظ شاعر کا قلمی ہے جبکہ دیباجے محمود شام اور ڈاکٹر طاہر تونسوی نے لکھے ہیں۔ پس سرورق ستائش آراء دینے والوں میں ڈاکٹر انوار احمد‘ شہزاد احمد‘ امجد اسلام امجد‘ ڈاکٹر عاصی کرنالی‘ ریاض مجید اور افسر ساجد کے قلم سے ہیں۔ ڈاکٹر انوار احمد کے مطابق منظور ثاقب کے ہاں ترکیب سازی‘ ردیف کا انتخاب اور خیال کی غنائیت کو برتنے کا سلیقہ انہیں اپنے ہم عصر ممتاز شاعروں کے قبیلے میں شامل کرتا ہے۔
میں نے نظم تخلیق کی
امجد بابر کی نظموں کا یہ مجموعہ اکائی فیصل آباد- لاہور نے شائع کر کے اس کی قیمت 250 روپے رکھی ہے۔ یہ نثری نظمیں ہیں اور انتساب حکیم صفدر علی کے نام کیا گیا ہے۔ دیباچہ ڈاکٹر روشن ندیم کا تحریر کردہ ہے۔ پس سرورق ڈاکٹر رشید امجد اور جمشید مسرور جبکہ پس سرورق ڈاکٹر سیتہ پال آنند سابق چیئرمین (شعبہ اردو) پنجاب یونیورسٹی‘ یونیورسٹی آف کولمبیا واشنگٹن ڈی سی امریکہ نے لکھا ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کے مطابق بڑے فن کی یہی خوبی ہے کہ وہ قاری کو اپنی سطح پر لاتا ہے، جوں جوں قاری کی دلچسپی بڑھتی ہے اس پر نئے جہانوں اور افکار کے دروازے کھولتا چلا جاتا ہے۔ امجد بابر کی نظموں کی یہی خوبی ان کی منفرد پہچان اور جدید اردو نظم کا معیار ہے۔
لاوجود
گل جہاں کی نظموں اور غزلوں کا مجموعہ ہے جسے طلوع اشک نے چھاپ کر اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ انتساب اس طرح سے ہے: اُن پانچ ستاروں کے نام کہ جنہوں نے میرے تاریک گھر کو شرارتوں کی روشنی سے بھر دیا‘ قرۃالعین‘ جون ایلیا‘ زنجیل فاطمہ‘ عون ایلیا‘ یوشع علی اور حلقہ دیارِ حرف کے نام۔ دیباچہ لکھنے والوں میں شہزاد نیئر‘ ڈاکٹر بدر منیر‘ منیر جعفری جبکہ پیش لفظ بعنوان لاوجود کا وجود‘ شاعر کا قلمی ہے۔ پس سرورق شہزاد نیئر جبکہ اندرونی فلیپ فرخ یار اور ممتاز اطہر نے لکھے ہیں۔
گن گیان
یہ علی اکبر عباس (تمغۂ امتیاز) کے گیتوں کا مجموعہ ہے جسے رومیل ہائوس آف پبلی کیشنز نے چھاپا اور اس کی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ دیباچہ علی یاسر کے قلم سے ہے۔ کتاب کا انتساب اس طرح سے ہے : پاکستان ٹیلی وژن اور ریڈیو پاکستان کے موسیقاروں‘ فنکاروں اور سازندوں کے نام‘ جو نامساعد و ناموافق حالات کے باوجود اپنی دُھن میں مست ہیں‘ جو بے جان آلات کو ہاتھ لگاتے ہیں تو سُر دھارے موج میں آتے ہیں‘ جن کے لب و گلو تاثیر کی تقدیر جگاتے ہیں جن کی بدولت انسانی سماعتوں میں لطافتوں کا احساس گھر کرتا ہے‘ جن کے آہنگ سے معاشرہ تہذیب شناس زندگی کا عکاس بن جاتا ہے۔
راجہ گدھ
یہ بانو قدسیہ کے مشہور ناول راجہ گدھ کا تنقیدی جائزہ ہے جو غلام حسین غازی کا تحریر کردہ ہے۔ پس سرورق مصنف کی تصویر اور گل سلطانی کی رائے درج ہے۔ اسے بُک ہوم لاہور نے چھاپا‘ قیمت 400 روپے رکھی ہے۔ انتساب علی عباس جلال پوری کے نام ہے‘ دیباچہ گل سلطان اعوان کا تحریر کردہ ہے۔ دیباچے کے بعد ''وجہ تنقید‘‘ کے عنوان سے مصنف نے ایک پورا مضمون قلمبند کیا ہے جبکہ کتاب کو 12 ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔
مضامین و مباحث
یہ حیدر قریشی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جسے عکاس پبلی کیشنز اسلام آباد نے شائع کر کے اسکی قیمت 300 روپے رکھی ہے۔ کتاب کا انتساب اپنے نانا میاں سراج دین صاحب اور اپنی بے جی خیراں بی بی کے نام ہے جس کے نیچے مصنف نے اپنا یہ شعر درج کیا ہے ؎
دل کے دروازے پہ دستک دے کے چُھپ جاتے ہیں وہ
اور اپنے سامنے حیدر کھڑا رہتا ہوں میں
اور‘ اب آخر میں خانہ پری کے طور پر یہ تازہ غزل :
اور تو میں کہاں احسان اٹھاتا تیرا
بات کرنے سے تو کچھ بھی نہیں جاتا تیرا
لینا دینا نہیں کچھ بھی توبھلا کیوں میں نے
کھول رکھا ہے یہ بیکار ہی کھاتہ تیرا
جان سکتے کہ ہیں کس رنگ میں تیرے شب و روز
تُو نہیں تو کوئی پیغام ہی آتا تیرا
صاف پہلے بھی کوئی خاص نہیں تھا دامن
داغ اس پر سے کسی طور مٹاتا تیرا
تُونے مل کر بھی نہ ملنا تھا‘ یہ میں جانتا ہوں
تجھے کیا ڈھونڈتا‘ کیا کھوج لگاتا تیرا
سفرِ شوق میں وہ دُھوپ ہو یا بارش ہو
تجھے کوئی تو سخن یاد دلاتا تیرا
مجھے شامل نہ کیا تُو نے خریداروں میں
گر نہیں اور تو بھائو ہی بڑھاتا تیرا
اتنی آساں نہیں مصروفیتِ عشق‘ سو میں
اس کٹھن کام میں کچھ ہاتھ بٹاتا تیرا
جو کیا ہی نہیں تُونے کبھی ایسے میں ظفرؔ
میں وہ فرضی سا کوئی ساتھ نبھاتا تیرا
آج کا مقطع
میں اگر اُس کی طرف دیکھ رہا ہوں تو ظفرؔ
اپنے حصّے کی محبت کے لیے دیکھتا ہوں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved