تحریک انصاف کی ایم پی اے شینا رت کا ووٹ2013 کے انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے120 میں درج تھا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ جیسے ہی بیگم کلثوم نواز کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان ہوا تو شینا کا ووٹ این اے120 سے لاہور کے سرحدی علا قے لدھڑ منتقل کر دیا گیا۔اب ایک رکن صوبائی اسمبلی احتجاج کرر ہی ہے کہ اس کا ووٹ کس کی اجا زت سے لدھڑ منتقل کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں‘ سب خاموش ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ چیف الیکشن کمشنر سردار رضا فوراََ اس پر ایکشن لیتے لیکن اسلام آباد سے لے کر لاہور تک ہر جانب ''خاموشی کا راج ہے‘‘ ؟۔ لاہور میں صوبائی الیکشن کمیشن کے دفتر میں جا کر تحریک انصاف کی امیدوار ڈاکٹر یاسمین راشد کی جانب سے صبح شام دہائیاں دی جا رہی ہیں لیکن کوئی سننے والا نہیں؟۔ یہ صرف ایک رکن صوبائی اسمبلی شینا رت کی بات نہیں بلکہ ایک اطلاع کے مطا بق اب تک پندرہ ہزار سے زائد ووٹ لاہور کے دوسرے حلقوں میں منتقل کر دیئے گئے ہیں اور یہ وہ ووٹر ہیں جن کے بارے میں مسلم لیگ نواز کے وارڈ کونسلر رپورٹ دیتے ہیں کہ یہ تحریک انصاف کے ایسے پکے ووٹر ہیں جنہیں کسی بھی قیمت پر خریدا نہیں جا سکتا۔ جیسے ہی حکمران جماعت کو معلوم ہوا کہ میاں نواز شریف نا اہل ہونے جا رہے ہیں اور ان کی خالی ہونے والی نشست پر بیگم کلثوم نواز کو الیکشن کیلئے میدان میں اتارا جا نا ہے تو اسی وقت سے ''تیاریاں‘‘ شروع کر دی گئیں اور وہی طریقہ استعمال کیا گیا جو علیم خان کے خلاف ضمنی الیکشن میں ایاز صادق کو کامیاب کرانے کیلئے کیا گیا تھا۔اگر انصاف فراہم کرنے والے ادارے اس ملک میں حقیقی جمہوریت کا بول بالا چاہتے ہیں تو اس بات کا ایکشن لیتے ہوئے ا سکے ذمہ داروں کو انصاف اور قانون کے کٹہرے میں لانا ہو گا ورنہ یہ الیکشن بھی ڈھکوسلے اور فریب کے سوا کچھ نہ ہوگا۔
گیارہ مئی2013 کی دوپہر مجھے اطلاع ملی کہ لاہور اور قصور میں سابق چیف جسٹس سپریم کورٹ افتخار چوہدری اور جنرل کیانی کے علا وہ لاہور ہائیکورٹ کے ایک سابق چیف جسٹس‘ جن کی خصوصی ہدایات پر ریٹرننگ افسران کا تقرر کیا گیا‘ ان سے افتخار چوہدری کے خصوصی خطاب کے بعد‘ فرداََ فرداََ سب کو بتا دیا گیا کہ انہوں نے کیا کرنا ہے؟۔ ایسے تمام ریٹرننگ افسر ان اصحاب سے ملنے والے احکامات کے تحت اپنا کام دکھانے کیلئے تمام تیا ریاں مکمل کر چکے تھے۔ ایک خفیہ ایجنسی‘ جس کا تعلق سول حکومت سے ہے نے الیکشن ڈے پر بارہ بجے میاں نواز شریف اور شہباز شریف کو رپورٹ دے دی تھی کہ لاہور میں حمزہ شہباز شریف، ملک پرویز اور میاں نواز شریف کے علا وہ تمام نشستوں پر تحریک انصاف کے لوگ بھاری اکثریت سے جیت جائیں گے۔
جیسے ہی اس اطلاع کی میں نے اپنے ذرائع سے بھی تصدیق کی تو سب سے پہلے میں نے تحریک انصاف کی کور کمیٹی کے رکن اور سابق کمشنر فرید الدین کواطلاع دی کہ آپ لوگ اپنا بندوبست کر لیجئے‘ آپ کے نتائج بدلنے اور پینتیس پنکچر لگانے کا منصوبہ سامنے آ چکا ہے۔۔۔ فرید الدین صاحب خیر سے حیات ہیں‘ ان سے میرے اس فون کے بارے میں پوچھا جا سکتا ہے ۔ میرے فون پر ان کا کہنا تھا کہ کیا کیا جا سکتا ہے؟ میں نے کہا اگر زیا دہ نہیں تو کم ازکم ریٹرننگ افسران کے دفاتر پہنچ جائیں لیکن ان کی جانب سے خاموشی اختیار کرلی گئی۔ میں نے شفقت محمود کو فون کیا لیکن انہوں نے میرا فون اٹینڈ نہ کیا شائد وہ الیکشن کے بکھیڑوں میں مصروف تھے؟۔
شفقت محمود کے بعد میں نے میاں محمود الرشیدکو فون کیا کیونکہ حلقہ این اے125 کا ایک ایسا انتظامی افسر جس کی انتخابات کے فوری بعد قصور کی ایک تحصیل میں پوسٹنگ ہو گئی تھی چیخ چیخ کر بتا رہا تھا کہ پینتیس پینتیس ہزار ووٹ علیحدہ سے گنتی میں شامل کرنے کیلئے ہمیں ہدایات مل چکی ہیں اور ہم مجبور ہیں۔میاں محمود الرشید کا موبائل اس دن ان کے بیٹے کے پاس تھا جب میں نے انہیں اپنا نام بتاتے ہوئے کہا کہ میری فوراََ ان سے بات کرائیں کیونکہ الیکشن میں گڑ بڑ کا آغاز کر دیا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میاں صاحب جیسے ہی فارغ ہوتے ہیں‘ ان سے بات کراتا ہوں وہ ایک پولنگ اسٹیشن کے اندر گئے ہوئے ہیں کیونکہ وہاں سے کچھ شکایات موصول ہو ئی ہیں۔
کوئی آدھ گھنٹے کے بعد میں نے دوبارہ میاں محمود الرشید کو فون کیا اور کہا کہ اپنے ریٹرننگ افسرکو قابو کریں‘ انہیں تفصیل بتائی تو وہ سب سمجھ گئے چونکہ وہ ایک طویل عرصہ جماعت اسلامی کے ایک بہت ہی متحرک رکن رہے اور وہ انتخابات میں حصہ لے چکے تھے ا س لئے میری بات سمجھ گئے۔ انہوں ے فوری طور پر شفقت محمود سے رابطہ کیا اور یہ لاہور کی قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کی وہ واحد نشست تھی جو تحریک انصاف مسلم لیگ نواز کے جبڑوں سے کھینچ لائی۔۔۔قصور کی این اے139 کے بارے میں مجھے بتایا گیا کہ اس پر مسلم لیگ نواز کے امیدوار کو مقامی تنظیم کی جانب سے ٹکٹ دینے کی سخت مخالفت کی گئی تھی لیکن ان کا تعلق چونکہ پاناما لیکس کے سلسلے میں سب سے اہم کردار امریکہ میں مقیم شیخ سعید سے تھا اس لئے انہیں ٹکٹ دینا ضروری تھا۔ اس حلقہ سے کامیاب ہونے والے شیخ وسیم اختر قصور میں اپنے مرکزی کیمپ میں بیٹھے تھے جب انہیں اطلاع ملی کے وہ ایک لاکھ ووٹوں سے جیت گئے ہیں۔ یہ سنتے ہی وہ بے ساختہ بولے کہ یہ ایک لاکھ ووٹ مجھے کہاں سے مل گئے‘ اتنے تو مجھے 2008 کے الیکشن میںبھی نہیں ملے تھے۔ جب میاں نواز شریف جلا وطنی کاٹ کر آئے۔اس وقت نواز لیگ کا طوطی بولتا تھا ؟۔بہرکیف شیخ وسیم کا جملہ کسی ایک شخص نے نہیں بلکہ وہاں موجود درجنوں لوگوں نے اپنے کانوں سے سنا ۔
2008 کے انتخابات کے بعد لاہور میں صوبائی اسمبلی کی نشست پر ہونے والے ضمنی انتخاب میں ملک ظہیر عبا س کھو کھر تحریک انصاف کی جانب سے مسلم لیگ نواز کے خلاف میدان میں تھے۔۔۔اس وقت ایک نجی چینل کے رپورٹر‘ جو آج کل اسی چینل پر آٹھ بجے شام بطور اینکر پرسن پروگرام کرتے ہیں‘ نے شاہ جمال کالونی لاہور میں مسلم لیگ نواز کے قائم کئے گئے ایک جعلی الیکشن کمیشن کے دفتر کا سراغ لگاتے ہوئے جیسے ہی بریکنگ نیوز دی تو ایک کہرام مچ گیا۔ پہلے تو نواز لیگ اس سے انکار کرتی رہی لیکن جب ایف آئی اے کو اطلاع دی گئی اور ساتھ ہی پورے ثبوت بھی حوالے کئے گئے تو پولیس نے وہاں سے نواز لیگ کے لوگوں کو گرفتار کر لیا لیکن شام کو با عزت طریقے سے انہیں چھوڑ دیا۔الیکشن کمیشن کے اس جعلی دفتر کی کہانی بہت طویل ہے اور یہ وہی طریقہ کار تھا جو حلقہ این اے122 میں سردار ایازصادق نے علیم خان کے خلاف استعمال کیا۔جس کا حوالہ تحریک انصاف کی ایم پی اے شینا رت کے حوالے سے اپنے مضمون کے آغاز میں دیا ہے کہ ان کا ووٹ جادو کی چھڑی سے ان کی مرضی کے بغیر ہی لدھڑ منتقل کر دیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی ایم پی اے شینا رت کا ووٹ2013 کے انتخابات میں لاہور کے حلقہ این اے120 میں درج تھا۔ نہ جانے کیا ہوا کہ جیسے ہی بیگم کلثوم نواز کے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان ہوا تو شینا کا ووٹ این اے120 سے لاہور کے سرحدی علا قے لدھڑ منتقل کر دیا گیا۔اب ایک رکن صوبائی اسمبلی احتجاج کرر ہی ہے کہ اس کا ووٹ کس کی اجا زت سے لدھڑ منتقل کیا گیا لیکن کوئی جواب نہیں‘ سب خاموش ہیں۔