عوام کی خوشحالی کیلئے وسائل استعمال کر رہے ہیں:شہباز شریف
خادم اعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کہا ہے کہ ''عوام کی خوشحالی کیلئے وسائل استعمال کر رہے ہیں‘‘ اور اگر عوام خوشحال ہونے کی بجائے بدحال ہو رہے ہیں تو اس میں ہمارا کوئی قصور نہیں ہے بلکہ وہ خود ہی خوشحال ہونا نہیں چاہتے اور اس بات سے بھی ڈرتے ہیں کہ ہماری خوشحالی کے بعد ہمارے ساتھ جو رہا ہے‘ کل کو کہیں ان کے ساتھ بھی نہ ہو جائے‘ اس لیے ان کا خوشحال ہونے کا کوئی ارادہ بھی نہیں ہے‘ لہٰذا ان کے بارے میں فکرمند ہونے کی کسی کو ضرورت نہیں بلکہ اگر کسی نے فکر مند ہونا ہی ہے تو ہماری حالت زار اس کیلئے کافی ہے‘ چنانچہ جو وسائل ہم عوام کی خوشحالی کیلئے استعمال کر رہے ہیں‘ عوام کا رویہ دیکھ کر وہ اپنے آپ ہی ہماری خوشحالی میں اضافہ کرنے کا باعث بن رہے حالانکہ ہم اس سے بچنے کی بہت کوشش کرتے ہیں کیونکہ جو پہلی خوشحالی کو ہم بھگت رہے ہیں‘ ہمارے لیے وہ بھی کافی سے زیادہ ہے کیونکہ وہ خوشحالی عدلیہ کے کسی حکم سے واپس بھی لی جا سکتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''صوبے بھر میں اربوں کی لاگت سے میگا پراجیکٹس مکمل کئے گئے ہیں‘‘ اور قدرتی طور پر ان کی وجہ سے میگا خوشحالی بھی حاصل ہوئی ہے‘ جلنے والے جلا کریں۔ انہوں نے کہا کہ ''سہولتوں کی فراہمی شفاف انداز میں کی جا رہی ہے‘‘ اور اس شفافیت کی وجہ سے ہماری شامت بھی آئی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''پنجاب میں حکومت نے ہر شعبے میں میرٹ کو پروان چڑھایا‘‘ اور یہ ایک عجیب بات ہے کہ جو بات ہماری پسند کی ہوتی ہے وہی میرٹ ٹھہرتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''تمام اداروں میں بھرتیاں سو فیصد میرٹ پر کر کے باصلاحیت افراد کو ان کا حق دیا گیا ہے‘‘ اور اگر وہ باصلاحیت نہیں بھی ہیں تو آگے جا کر باصلاحیت ہو ہی جائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ ''ہر شعبے میں ترقی کیلئے انقلابی اقدام اٹھائے گئے ہیں‘‘ کیونکہ جب سے بھائی صاحب نے انقلاب لانے کا نعرہ لگایا ہے۔ ہر کام انقلابی طریقے سے ہی سرانجام دیا جا رہا ہے تاکہ یہ انقلاب جلد از جلد مکمل ہو سکے۔ اب اگلے روز لاہور میں مختلف اضلاع سے تعلق رکھنے والے ارکان اسمبلی سے ملاقات کر رہے تھے۔
جے آئی ٹی نثار کی ہدایات پر عمل کر رہی تھی:پرویز رشید
سابق وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا ہے کہ ''جے آئی ٹی نثار کی ہدایات پر عمل کر رہی تھی‘‘ اگرچہ جے آئی ٹی میں وزارت داخلہ کا ایک ہی آدمی تھا۔ لیکن تخریب کار ایک ہی کافی ہوتا ہے جو اس سازش کو کامیاب بنانے کا سزاوار ہوا اور ہمیں یہ دن دیکھنا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ ''چودھری نثار نے مسلم لیگ (ن) سے وفاداری نبھانے کی بجائے عمران نیازی سے دوستی نبھائی‘‘ جس سے پتا چلتا ہے کہ ڈان لیکس کے معاملے پر میرا پتہ کٹوانے میں بھی موصوف ہی پیش پیش ہوں گے حالانکہ وہ کام جس کی ہدایت پر ہوا تھا وہ سب کو معلوم ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''چودھری صاحب وزیر ہوتے ہوئے اسٹیبلشمنٹ کے مہرے بنے ہوئے تھے ''اگرچہ ہر وزیر کسی نہ کسی کا مہرہ ضرور ہوتا ہے لیکن وزیر داخلہ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ انہوں نے کہا کہ ''وہ جنرل (ر) پرویز مشرف کی حکومت کے دوران ہی نواز شریف سے بے وفائی کر چکے تھے‘‘ لیکن نواز شریف چونکہ روحانی طور پر جنرل (ر) ضیاء الحق کے پیروکاروں میں سے تھے‘اس لیے انہوں نے اس پر اعتراض نہیں کیا تھا جبکہ چودھری نثار کا آج تک کا ہر بیان اور عمل ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہمارے مخالفین کی زبان بول رہے ہیں۔ آپ اگلے روز مختلف ٹوئٹس کے ذریعے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔
قیادت کے حکم پر پیپلز پارٹی کے ساتھ
تعلقات پر کردار ادا کروں گا: خواجہ آصف
وزیر خارجہ خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''قیادت کے حکم پر پیپلز پارٹی کے ساتھ تعلقات پر کردار ادا کروں گا‘‘ اگرچہ زرداری اور بلاول نے صاف کہہ دیا ہے کہ وہ نواز لیگ حکومت کے ساتھ کسی قسم کا تعاون حتیٰ کہ رابطہ بھی نہیں کریں گے لیکن میں چونکہ دونوں جماعتوں کو اچھی طرح سے جانتا ہوں اس لیے ہر بات ہو سکتی ہے جبکہ زرداری صاحب کے خلاف کئی مقدمات بھی زیر سماعت اور زیر تفتیش ہیں اور وہ قانونی مشورے کیلئے کسی وقت بھی رابطہ کر سکتے ہیں یا ہمارے رابطے کا مثبت جواب دے سکتے ہیں۔ تاہم یہ بھی دیکھنا پڑے گا کہ پیپلز پارٹی ہمیں کوئی فائدہ پہنچا بھی سکتی ہے یا نہیں اور جس کا بظاہر کوئی امکان بھی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ ''سیاسی جماعتوں میں گروپ ہوتے ہیں‘ یہ کوئی نئی بات نہیں‘‘ اور لوگ ادھر اُدھر بھی ہوتے رہتے ہیں جس کا ثبوت چودھری نثار کی پریس کانفرنس میں بھی مل جائے گا اور چونکہ پانچ چھ سال سے میری ان کے ساتھ بول چال بھی بند ہے ورنہ میں انہیں بتاتا کہ پارٹی سے انہیں بہت پہلے ہی داغ مفارقت دے دینا چاہئے تھا۔ آپ اگلے روز برٹش کونسل کے زیراہتمام کشمیر روڈ پر نجی سکول میں تصاویر کی نمائش کے موقع پر میڈیا سے بات چیت کر رہے تھے اور اب ہڈیالی (خوشاب) سے گل فراز کی فرستادہ غزلوں میں سے کچھ اشعار کی پہلی قسط:
یہ نہ پوچھو دائو کیسے لگ گیا ہے
اک سفارش کے ذریعے لگ گیا ہے
محض اوپر سے مدد وہ کرنے آیا
خود بخود جب کام ہونے لگ گیا ہے
کچھ تو میں پیچھا کیا کرتا ہوں اس کا
کچھ وہ خود بھی میرے آگے لگ گیا ہے
سب سے آخر میں وہ آیا اور پھر بھی
اس کا نمبر سب سے آگے لگ گیا ہے
اس جگہ بالکل نہیں لگنا تھا لیکن
صرف کچھ باتوں میں آگے لگ گیا ہے
آج کا مقطع
میں چوم لیتا ہوں اُس راستے کی خاک‘ ظفرؔ
جہاں سے کوئی بہت بے خبر گزرتا ہے