حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آلِ اسماعیل ؑ میں سے ہیں۔ حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ سیدہ ہاجرہؓ کا تعلق مصر سے تھا۔ آپ ؑ اپنے والد کے پہلے بیٹے ہیں۔ سیّدنا ابراہیم ؑ اللہ کے حکم کے مطابق حضرت ہاجرہ ؓ اور حضرت اسماعیل ؑ کو مکہ میں چھوڑ کر واپس تو چلے گئے، مگر ان کے پاس وقتاً فوقتاً تشریف لاتے رہتے تھے۔ حضرت اسماعیل ؑ اپنی والدہ کے اکلوتے بیٹے تھے۔ والدہ کی جانب سے نہ کوئی بھائی تھا نہ بہن۔ البتہ حضرت ابراہیم ؑ کے دیگر بیٹے بھی تھے جو حضرت اسماعیل ؑ کے نسبی بھائی تھے۔ ان میں سب سے معروف حضرت اسحاق ؑ ہیں جو حضرت اسماعیل ؑ کی طرح اللہ کے نبی بھی تھے۔ وہی بنی اسرائیل کے جدامجد ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ اور حضرت اسحاق ؑ کے درمیان برادرانہ محبت بھی مثالی تھی اور باہمی رشتہ داری بھی تھی۔ آگے جا کر حضرت اسحاق ؑ کی اولاد جو بنی اسرائیل کے نام سے معروف ہے، بنی اسماعیل کی سخت دشمن بن گئی اور جب آخری نبی بھی بنی اسماعیل میں مبعوث ہوئے تو ان ظالموں کی دشمنی دوآتشہ ہوگئی۔ ان کی نسبت تو حضرت یعقوب ؑ کے ساتھ ہے، مگر ان کا کردار ان کی عظیم شخصیت سے قطعاً کوئی لَگا نہیں کھاتا۔
جب حضرت اسماعیلؑ جوان ہوئے تو بنوجرہم کے درمیان وہ بہت معزز شمار ہوتے تھے۔ آبِ زم زم انہی کی سلسبیل تھی اور انہی کے تصرف میں تھا۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؓ کی روایت کردہ ایک طویل حدیث میں حضرت اسماعیل ؑ کے بچپن سے لے کر جوانی تک کے تمام واقعات مجتمع کیے گئے ہیں۔ اسی حدیث میں حضرت اسماعیل ؑ کی ازدواجی زندگی کا تذکرہ ملتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عباس ؑ کا بیان ہے کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ''بنوجرہم کے لوگ پانی کی تلاش میں چشمۂ زم زم کے قریب آئے اور حضرت اسماعیل ؑ ا ور ہاجرہ ؓ کو وہاں مقیم پایا تو ان سے وہاں قیام کی اجازت مانگی۔ حضرت ہاجرہ ؓ خود چاہتی تھیں کہ وہاں کوئی بستی آباد ہوجائے۔ چنانچہ انھوں نے بخوشی اجازت دے دی۔ بنوجرہم کا پورا قبیلہ اس مقدس خاندان سے بہت عقیدت ومحبت رکھتا تھا۔
اس واقعہ سے حضرت ہاجرہؓ کی شان کا بھی پتا چلتا ہے جو اللہ نے ان کو عطا فرمائی تھی۔ وہ اس مقام پر اپنے معصوم بچے کے ساتھ اکیلی قیام پذیر تھیں۔ اس دور کے معاشروں میں قوت کے بل بوتے پر کسی چیز پر قبضہ کرلینا عام معمول تھا۔ حضرت ہاجرہ ؓ کے پاس بظاہر کوئی قوت نہیں تھی، مگر اللہ تبارک وتعالیٰ کی خصوصی تائید حاصل تھی۔ اسی وجہ سے بنی جرہم نے اپنی ساری قوت کے باوجود آبِ زم زم پر قبضہ کرنے کی بجائے ان سے پانی کے استعمال اور وہاں قیام کی بصدادب واحترام اجازت طلب کی۔ آپ ؓ خودچاہتی تھیں کہ وہاں کوئی بستی آباد ہوجائے۔ اس لیے آپ ؓ نے اس قبیلے کو بخوشی وہاں آباد ہونے کی اجازت دے دی۔ بنوجرہم کا پورا قبیلہ خاندانِ نبوت کا عقیدت مند بن گیا۔
جب مکہ میں کئی گھر بن گئے اور اس عرصے میں اسماعیل ؑ بھی جوان ہوگئے تو انھوں نے بنوجرہم کے سرداروں سے بہت قریبی دوستانہ تعلقات قائم کرلیے۔ آپ ؑ کی مادری زبان عربی نہ تھی جبکہ بنوجرہم عرب تھے۔ آپ نے عربی زبان قبیلہ بنوجرہم کے لوگوں سے سیکھی اور اپنی جوانی ہی سے ان کی نگاہ میں معزز ومحترم قرار پائے۔ قبیلہ بنوجرہم کے لوگ ان سے محبت کرنے لگے اور اپنے خاندان کی ایک لڑکی ان سے بیاہ دی۔ بعض روایات کے مطابق اس لڑکی کا نام عمارہ بنت سعد بن اسامہ بن اُکَیل تھا جو بنو عمالیق میں سے تھی۔ (البدایۃ والنہایۃ، ج۱، طبع دارِ ابن حزم، بیروت، ص۱۲۷)۔
اسی عرصے میں حضرت اسماعیل ؑ کی والدہ حضرت ہاجرہ ؓ کا انتقال ہو گیا۔ جب حضرت اسماعیل ؑ کی شادی ہو چکی تو اپنے معمول کے مطابق حضرت ابراہیم ؑاپنے اہل وعیال کو دیکھنے آئے۔ حضرت اسماعیل ؑ اس وقت اپنے گھر میں نہ تھے، انھوں نے اپنی بہو سے پوچھا: اسماعیلؑ کہاں ہے؟ انھوں نے جواب دیا: وہ روزی کی تلاش میں گئے ہیں۔ ابراہیمؑ نے پوچھا: تمہارا گزارہ کیسے ہوتا ہے؟ انہوں نے شکایت کی اور کہا کہ بہت زیادہ تنگی سے وقت گزر رہا ہے۔ ساتھ ہی بہت ساری اور مشکلات بھی بیان کیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے فرمایا: جب تمھارے شوہر آجائیں تو ان کو میرا سلام کہنا اور ان سے کہنا کہ اپنے دروازے کی چوکھٹ بدل دیں۔
یہ پیغام دے کر حضرت ابراہیم ؑ واپس روانہ ہوگئے۔ جب حضرت اسماعیلؑ گھر تشریف لائے تو انھوں نے کچھ محسوس کیا اور اہلیہ سے پوچھا: کیا تمھارے پاس کوئی مہمان آیا تھا؟ اس نے کہا: ہاں ا یک بزرگ آئے تھے، انھوں نے آپ کے متعلق سوال کیا تو میں نے ان کو بتا دیا، پھر انھوں نے ہماری زندگی کے متعلق سوال کیا تو میں نے ان کو بتادیا کہ ہم لوگ بڑی مشقت اور بڑی پریشانی میں ہیں۔ یہ سن کر حضرت اسماعیل ؑنے پوچھا: کیا انہوں نے تمھیں کسی چیز کی وصیت بھی کی تھی؟ بیوی نے کہا : ہاں، انھوں نے حکم دیا کہ میں آپ کو سلام کہہ دوں اور یہ بھی کہا کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ کو تبدیل کردیں۔ حضرت اسماعیل ؑ نے فرمایا: وہ میرے والد تھے اور انھوں نے اپنے اس پیغام میں مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمھیں اپنے سے جدا کردوں، لہٰذا تم اپنے گھروالوں کے پاس چلی جاؤ۔ حضرت اسماعیل ؑ نے اس بیوی کو طلاق دے دی ۔اس سے ابھی کوئی اولاد نہ ہوئی تھی۔
پھر آپؑ نے قبیلہ بنوجرہم کی دوسری لڑکی سے شادی کرلی، اس کا نام سیدہ بنت مضاض بن عمرو الجرہمی تھا۔ اس بیوی سے آپ ؑ کے بارہ بیٹے پیدا ہوئے۔ ان کے نام بھی ابن کثیر نے بیان کیے ہیں: (۱) نابت، (۲) قیدر، (۳) اذبل، (۴) میشی، (۵) مسمع، (۶) ماش، (۷) دُما، (۸) ادَر، (۹) یطور، (۱۰) نبشٌ، (۱۱) طیما اور (۱۲) قیذما۔ ان بارہ بھائیوں کی ایک ہی بہن تھی، جس کانام نسمہ بنت اسماعیل تھا۔ آپؑ نے اپنی بیٹی کی شادی اپنے بھائی اسحاق ؑ بن ابراہیم ؑ کے بیٹے العیس بن اسحاق سے کی۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بعد مکانی کے باوجود دونوں بھائیوں کے درمیان باہمی تعلقات بہت مضبوط اور قریبی تھے۔ ابن کثیر کے مطابق حضرت اسماعیل کے دو نواسے بہت معروف ہوئے۔ ایک کا نام الروم تھا، دوسرے کا نام الیونان تھا۔ (ایضاً)۔
حضرت ابراہیم ؑ اللہ کے اذن اور حکم کے مطابق ہی سفر کیا کرتے تھے۔ آپؑ نے اس وقت تک مکہ کی طرف اگلا سفر نہ کیا جب تک اللہ نے اذن نہ دیا۔ پھر ایک زمانے کے بعد تشریف لائے، تو حضرت اسماعیلؑ اب بھی گھر پر موجود نہیں تھے، لہٰذا ان کی بیوی کے پاس گئے اور ان سے حضرت اسماعیلؑ کے متعلق سوال کیا۔ ان کی اہلیہ نے کہا کہ وہ روزی کی تلاش میں نکلے ہوئے ہیں۔ حضرت ابراہیمؑ نے دوسرا سوال کیا کہ تمھارے شب وروز کیسے گزر رہے ہیں؟ بہو نے جواب دیا : اللہ کا شکر ہے ہم لوگ خیروعافیت سے ہیں اور اللہ کی حمد وثنا بیان کی ۔ یہ جواب سن کر حضرت ابراہیم ؑ خوش ہوئے اور پھر دوسرا سوال کیا کہ تمھارا طعام کیا ہے؟ بہو نے جواب دیا: گوشت۔ پھر حضرت ابراہیم ؑ نے سوال کیا تمھارا مشروب کیا ہے؟ بہو نے جواب دیا زم زم کا پانی۔ حضرت ابراہیم ؑ نے دعا دی اور کہا: ''اے اللہ ان لوگوں کے لیے گوشت اور پانی میں برکت دے۔ ‘‘یہاں تک گفتگو کرنے کے بعد آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اس روز اس گھر میں کھانے کی کوئی چیز نہیں تھی، اگر کوئی اور چیز بھی ہوتی تو اس کے لیے بھی وہ برکت کی دعا کرتے۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: یہ اس عظیم خاتون کی عظمت اور صبروشکر کی اعلیٰ مثال تھی۔ حالانکہ اس وقت ان کے پاس گھر میں خوراک کا ایک دانہ بھی نہ تھا۔ بہرحال حضرت ابراہیم ؑنے ان کے لیے ان کے اکل وشرب میں برکت کی دعا کی۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں میاں بیوی کے صبر وتوکل اور دعائے خلیل ؑ کی وجہ سے مکہ میں ہر چیز فراوانی سے پائی جاتی ہے۔ حضرت ابراہیم ؑ نے رخصت ہوتے ہوئے حضرت اسماعیل ؑ کی اہلیہ سے فرمایا:جب تمھارے شوہر آجائیں تو ان کو میرا سلام کہنا اور ان کو میری طرف سے حکم پہنچا دینا کہ وہ اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں۔
آج بھی جب اسماعیل ؑ گھر تشریف لائے تو اپنی بیوی سے سوال کیا: کیا تمھارے پاس کوئی مہمان آیا تھا؟ ان کی بیوی نے جواب دیا کہ ہاں ایک اچھی شکل وصورت والے بہت پیارے بزرگ آئے تھے اور ان کی خوب تعریف کی۔ انھوں نے مجھ سے آپ کے متعلق سوال کیا تو میں نے ان کو جواب دے دیا۔ پھر انھوں نے سوال کیا کہ ہماری زندگی کیسی گزر رہی ہے؟ تو میں نے ان کو بتایا کہ ہم لوگ خیروعافیت سے ہیں۔ حضرت اسماعیلؑ یہ سن کر خوش ہوئے اور اپنی بیوی سے پوچھا: کیا انھوں نے تمھیں کوئی وصیت بھی کی تھی؟ اس نے جواب دیا کہ ہاں۔ انھوں نے آپ کو سلام کہا ہے اور یہ بھی حکم دیا ہے کہ آپ اپنے دروازے کی چوکھٹ برقرار رکھیں۔ حضرت اسماعیلؑ نے فرمایا کہ وہ میرے والد حضرت ابراہیمؑ تھے اور چوکھٹ تم ہو اور مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں تمھیں اپنے پاس رکھوں۔ (صحیح بخاری، کتاب: احادیث الانبیائ، باب: یَزِفُّوْن [الصافات:۹۴] النسلان فی المشی، حدیث:۳۳۶۴)۔