تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     27-02-2013

اس عاشقی میں عزتِ سادات نہ جائے

الیکشن کون کرواتا ہے۔ الیکشن کون کروائے گا۔ الیکشن کس کی نگرانی میں ہونے چاہئیں۔ تبصرہ نگاروں، دانشوروں اور سیاستدانوں سے سوال کر کے دیکھ لیں‘ ہر کسی کا جواب مختلف ملے گا۔ کوئی کہے گا عدلیہ کی زیر نگرانی، کوئی فوج کے زیر اثر، کوئی ان دونوں کی موجودگی میں، لیکن گزشتہ چند مہینوں سے یہ تصور عام کیا گیا ہے کہ آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن ہی منصفانہ الیکشن کرواسکتا ہے۔ آج فخر الدین جی ابراہیم کی سربراہی میں ہمارے پاس ایک آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن موجود ہے۔ فخر الدین جی ابراہیم کی ملک میں بڑی عزت ہے، وہ اپنی دیانتداری اور اصول پرستی کی وجہ سے جانے جاتے ہیں۔ ایک اورممبر جسٹس فضل الرحمن کو میں ذاتی طور پر جانتا ہوں۔ مدتوں پہلے جب 1988ء میں ضیاء الحق کے حادثے کے بعد پہلے الیکشن ہوئے تو وہ کوئٹہ میں سیشن جج کی حیثیت سے ڈسٹرکٹ ریٹرننگ آفیسر تھے اور میں اسسٹنٹ کمشنر کی حیثیت سے ایک صوبائی حلقے کا ریٹرننگ آفیسر تھا۔ جسٹس فضل الرحمن کی شناخت بھی ایک ایماندار اور اصول پرست جج کی حیثیت سے تسلیم شدہ ہے۔ باقی تمام ممبران کو بھی حسنِ ظن اور اچھے گمان کے ساتھ اسی معیار پر تسلیم کر لیا جائے تو الیکشن کمیشن پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔ لیکن اس سب کے باوجود کیا آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کروانے کے لیے یہ کافی ہے۔ عام تصور ہے کہ الیکشن کمیشن میں پانچ ایماندار اور منصف مزاج ارکان موجود ہوں تو نیچے پٹواری اور ایس ایچ او تک پورے کا پورا سسٹم منصف مزاج اور ایماندار ہو جائے گا اور الیکشن آزاد اور منصفانہ ہوجائیں گے۔ گزشتہ تقریباً ہر الیکشن کو قریب سے دیکھنے اور انتظامی مشینری کا حصّہ ہونے کی وجہ سے میں نے الیکشنوں کو بہت قریب سے دیکھا ہے اور میرے سامنے بہت انجانے خوف ہیں کہ اگر پُوری کی پُوری انتظامی مشینری اپنی موجودہ حالت میں برقرار رہی تو الیکشن کمیشن کن مجبوریوں اور معذوریوں کے ساتھ الیکشن کے میدان میں اترے گا اور ان حالات میں اپنی عزت و احترام بچانے میں کامیاب ہو سکے گا یا نہیں۔ گزشتہ تنتالیس برسوں یعنی1970ء کے الیکشن کے بعد سے آہستہ آہستہ اس ملک کی تمام تر انتظامیہ بدلتے ہوئے حالات اور سیاسی حکومتوں کے اتار چڑھائو، فوجی اداروں کی من مانی کی وجہ سے اس قدر حصوں بخروں میں تقسیم ہو چکی ہے کہ پٹواری سے لے کر ڈپٹی کمشنر، کمشنر اور اعلیٰ اہلکاروں تک اور ایس ایچ او سے لے کر ڈی ایس پی، ڈی آئی جی اور آئی جی تک سب کے سب اپنے اپنے حوالوں سے کسی نہ کسی گروہ کی پہچان بن چکے ہیں۔ آپ ا ن تمام افسران اور اہلکاروں کی تعیناتیوں کا ایک گراف بنائیں تو آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ کون سے ایسے افسران تھے جو پیپلز پارٹی کے زمانے میں بام عروج پر پہنچے اور کون سے ایسے تھے جنہیں ن لیگ کی سرپرستی حاصل رہی۔ کس نے ایم کیوایم کے سایۂ عافیت میں پناہ حاصل کی اور کون تھے جو ایم ایم اے کے دور میں قابل بھروسہ کہلائے۔ ذوالفقار علی بھٹو سے ضیاء الحق اور پھر نوے کی دہائی اور اُس کے بعد پرویز مشرف ، ان سب لوگوں نے پاکستان کی پوری انتظامیہ کے ماتھے پر اپنے اپنے نشان کندہ کر لیے ہیں۔ ایک مدت تک راندۂ درگاہ اہلکار اور افسران اپنی ممدوح پارٹی کے دور کا انتظار کرتے رہتے ہیں۔ دعائیں ، منتیں مرادیں مانگی جاتی ہیں۔ بہت سے توایسے ہوتے ہیں جو ان کے پارٹی دفتروں میں جوڑ توڑ تک میں بھی شریک ہوتے ہیں۔ پھر جب اس پارٹی کا دور آتا ہے تو یہ نوازے جاتے ہیں۔ میرے ملک کی پُوری کی پُوری انتظامیہ ہر صوبے کی حدتک دو حصوں میں تقسیم ہے۔ ہر پارٹی کے اپنے وفادار اور اپنے مخالف ہیں۔ انتظامیہ میں غیر جانبدار افراد بھی موجود ہیں لیکن چونکہ وہ اکثر اہم عہدوں اور پُرکشش نوکریوں سے دور ہوتے ہیں، اس لیے جب کبھی الیکشن کے دنوں میں ایسے لوگوں کو کہیں تعینات کرنے کا وقت آتا ہے تو یہ کہہ کر فائل بند کر دی جاتی ہے کہ انہیں حالات ، واقعات اور انتظامی امور کا تجربہ ہی نہیں اس لیے انہیں الیکشن کے دوران لگا نا خطرے سے خالی نہ ہوگا۔ یوں الیکشن کے دوران بھی انتظامیہ مکمل طور انہی سیاسی گروہوں کے درمیان تقسیم ہو جاتی ہے۔ اکثر کہا جاتا ہے کہ انتخابات عدلیہ اور فوج کی نگرانی میں کرائے جائیں تو منصفانہ ہوں گے۔ یہ ایک ایسا خوشنما فقرہ ہے جس کا زمینی حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ پولنگ سٹاف کی تعیناتی سے لے کر پولنگ اسٹیشن کے بننے اور ا ن کو امنِ عامہ کے حوالے سے حساس قرار دینے تک انتظامیہ آخر وقت تک یہ کام سرانجام دیتی ہے۔ ایک سیشن جج جو ریٹرننگ افسر بنتا ہے اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا کہ کون سا ٹیچر، اہلکار یا ملازم کس پارٹی کے اثر میں ہے اور اُس کی ہمدردیاں کس کے ساتھ ہیں۔ انتظامیہ ایک مکمل پولنگ سکیم بنا کر ریٹرننگ آفیسر کے حوالے کرتی ہے۔ ایسے میں جو جہاں چاہے، جس کو چاہے اپنی پارٹی کی محبت کے حوالے سے عملے کو تعینات کرنے کی سفارش کرتا ہے اور سیشن جج‘ جس کا لوگوں کے معاملات سے دور کا واسطہ بھی نہیں ہوتا، اکثر اسے من وعن تسلیم کر لیتا ہے۔ چند اعتراضات بھی ہوتے ہیں لیکن کائیاں قسم کے افسران ان سیشن ججوں کو شیشے میں اتار لیتے ہیں۔ یہی حال پولنگ اسٹیشنوں کے بنانے ،جگہ کے انتخاب اور وہاں موجود پولیس اہل کاروں کو مخصوص ہدایات سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ الیکشن کمیشن کے لگائے گئے ریٹرننگ آفیسر ہر معاملے میں انتظامیہ کے محتاج اور دستِ نگر ہوتے ہیں۔ وہ انتظامیہ جو اس حد تک سیاسی طور پر تقسیم ہوچکی ہے اُس میں‘ آج کے دور میں آزاد اہلکار ڈھونڈنا بہت بڑا کارنامہ ہو سکتا ہے۔ اس کے ساتھ آزادنہ الیکشن کروانے کی جسارت بھی۔ یہی میرا خوف ہے۔ یہی کیفیت ان فوجی افسران اور اہلکاروں کی ہوتی ہے جنہیں چند روز پہلے جیپوں اورٹرکوں میں بھر کر لایا جاتا ہے ، نہ وہ علاقے سے واقف ہوتے ہیں اور نہ وہاں کی سیاست سے۔ ان کا واحد آسرا، سہارا اور معلومات کا خزانہ انتظامیہ ہوتی ہے جو پہلے سے سیاسی وفاداریوں میں بٹی ہوتی ہے۔ الیکشن کسی حلقے میں عدلیہ کروائے، فوج کرائے یا آسمان سے اترے ہوئے فرشتے، زمینی حقائق یہ ہیں کہ الیکشن ڈپٹی کمشنر، ایس پی، ایس ایچ او اور پٹواری کے اشارہ ابرو پرنا چتے ہیں۔ کس کے خلاف کیس کھولنا ہے، کس کے خلاف بند کرنا ہے، کس پر اثر انداز ہو کربٹھانا ہے اور کسے کھڑا رہنے پر مجبور کرنا ہے۔ کِن پولنگ سٹیشنوں کو ایسی جگہ منتقل کرنا ہے کہ مخالف وہاں جاتے ہوئے خوف کھائے، کہاں ہنگامہ کروا کر پولنگ رکوانا ہے۔ یہ صرف چند حربے ہیں کہ اگر ان کی تفصیل بیان کرنے پر آجائوں تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں۔ مجھے چیف الیکشن کمشنر جنہیں پیار سے لوگ فخرو بھائی اور اپنے دوست اور بزرگ جسٹس فضل الرحمن کی کہ جنہیں میں ذاتی طور جانتا ہوں، دیانت ، امانت ، صداقت اور نیک نیتی پر مکمل یقین ہے لیکن خوف ہے کہ اگر الیکشن سے پہلے پوری انتظامیہ کی چھان پھٹک کے بعد غیر جانبدار لوگ وہاںتعینات نہ ہوئے تو اس عاشقی میں عزتِ سادات ایسے لٹے گی کہ رہے نام اللہ کا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved