تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     23-08-2017

مکالمہ، مکالمہ، مکالمہ

پاکستان کے سیاستدان تاریخ کی ٹھوکروں سے بہت کچھ سیکھ چکے ہیں۔ آلہء کار بن کر، مارشل لاؤں کا شکار ہو کر، پھانسیوں، جلا وطنیوں، کوڑوں اور جیلوں کی منازل طے کرکے انہوں نے یہ سمجھا ہے کہ سیاسی اختلاف حد سے باہر ہو گا تو ملک کے اندر غیر سیاسی قوتیں بروئے کار آ جائیں گی۔ انہیں یہ سمجھ بھی آ گئی ہے کہ اقتدار کے لیے کوششیں کرنا ایک بات ہے اور اس کے لیے دیوانہ ہو جانا دوسری بات۔ وہی سیاستدان جو ایک دوسرے کے مینڈیٹ کو تسلیم کرنا اپنی توہین سمجھتے تھے اب اپنے مخالفین کو بھی احترام دینے لگے ہیں۔ پاکستان کے بیشتر لوگ اس بات کے گواہ ہیں کہ اگر وفاق میں مسلم لیگ ن آ جاتی تو وہ چاروں صوبوں میں طاقت کے زور پر اپنی حکومتیں بنا لیتی اور یہی کام پیپلز پارٹی اپنے دورِ حکومت میں کیا کرتی۔ دو ہزار آٹھ میں پہلی بار ایسا ہوا کہ وفاق اور صوبوں میں الگ الگ سیاسی جماعتوں کی حکومتیں بنیں اور چلتی رہیں۔ یہ رسم دو ہزار تیرہ میں بھی قائم رہی اور عمران خان خیبر پختونخوا کی سیاسی حقیقت بن کر سامنے آئے تو انہوں نے نصف درجن ووٹوں کی اکثریت سے اپنی صوبائی حکومت تشکیل دے لی‘ جسے سوا چار سال گزرنے کے باوجود گرانے کی کوئی کوشش نہیں ہوئی۔ وہی سیاستدان جو ماضی میں ایک دوسرے کے درپے ہو کر دستور کی دھجیاں اڑا دیا کرتے تھے‘ اب اسی دستوری نظام کو چلتا رکھنے کے لیے سب کچھ برداشت کر جاتے ہیں۔ دو ہزار چودہ میں عمران خان نے طاہرالقادری کی مدد سے دستوری نظام پر حملہ کیا تو اسے روکنے کے لیے ہر منتخب شخص نے اپنا کردار ادا کیا اور حملہ آور منہ کی کھا کر اپنے گھر لوٹ گئے۔ تاریخ کا جبر ہے کہ 
وہی عمران خان جو اقتدار کے لیے جنرل پرویز مشرف کے ریفرنڈم میں اس کا غیر مشروط ساتھ دے رہے تھے آج اپنی تمام امیدیں آئندہ انتخابات سے وابستہ کیے ہوئے ہیں۔ تاریخ نے سیاستدانوں کو یہ بھی سکھا دیا ہے کہ منتخب ہو کر انہیں کام بھی کرکے دکھانا ہے، یہی وجہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم اور صوبوں کے وزرائے اعلیٰ اپنی سی کوشش کر رہے ہیں کہ کسی نہ کسی طریقے سے وہ آئندہ الیکشن میں عوام کو دوبارہ اپنے لیے ووٹ دینے پر تیار کر سکیں۔ پرانی سیاست گری‘ جو وراثت میں ملے ووٹوں کے زور پر کی جاتی تھی، خوار و زبوں حال ہو کر نابود ہو چکی ہے۔ وہ سیاست جو ہر طاقتور سے اقتدار کی بھیک مانگنے تک محدود تھی آج تقریباً معدوم ہے اور وہ سیاستدان‘ جو اقتدار کے لیے دستور کو روند دیا کرتے تھے‘ آج غیر متعلق ہو کر گھروں میں بیٹھے ہیں۔ پاکستان کی موجودہ سیاست میں اگرچہ کچھ پرانے چہرے ضرور نظر آتے ہیں‘ مگر یہ طے ہے کہ اب یہ بڑی حد تک جمہوری اطوار اختیار کر چکے ہیں۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو یقین مانیے کہ نواز شریف نااہلی کے امکانات پر ہی پورا نظام لپیٹ دیتے مگر آج وہ نااہل ہو کر نظام کو چلتا رکھنے کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔ آصف علی زرداری کوئی نہ کوئی نئی ڈیل کرکے سارے سیاسی نظام پر بھاری پڑ جاتے مگر وہ بھی آئندہ الیکشن کے لیے جوڑ توڑ کیے جا رہے ہیں‘ اور ان کا بیٹا ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک اپنے خاندان کی عظمتِ رفتہ کی بحالی کے لیے جلسے کیے جا رہا ہے۔ 
پاکستان کی فوج نے بھی تاریخ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ ذرا ذرا سی بات پر سیاستدانوں کو سکیورٹی رسک قرار دیا جاتا تھا‘ مگر آج گفتگو کرنے کی بات ہو رہی ہے۔ ہماری فوج جو کو خود قومی سلامتی کا واحد مکلف سمجھتی تھی آج اس بدلی ہوئی دنیا میں عوام اور عوامی نمائندوں کی رائے کو بھی قومی سلامتی کا اہم جزو سمجھتی ہے۔ پے در پے تجربات نے ہمیں یہ سمجھا دیا ہے کہ بظاہر غیر منظم آنے والے سیاستدان ہی دراصل معاشرے کی تنظیم کرتے ہیں اور کسی نہ کسی طرح لوگوں کو قومی دھارے میں لے آتے ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ کے تجربے نے یہ بات واضح کر دی کہ جنرل پرویز مشرف کے دور میں جو دہشت گرد ایک نظریاتی علامت بنتے جا رہے تھے، سیاسی دور میں ان کی حیثیت اٹھائی گیروں سے زیادہ کچھ نہیں رہی اور ہماری فوج نے ان پر قابو بھی پا لیا۔ اس جنگ میں پاک فوج نے یہ بھی سمجھا کہ دہشت گرد دراصل سماجی، معاشی اور ریاستی نظام میں پائی جانے والی دراڑوں میں پلتے ہیں‘ اس لیے جتنی جلدی ممکن ہو ان دراڑوں کو بند کرنے کا انتظام ہونا چاہیے۔ اصلاحِ احوال کی فکر میں جنرل اشفاق پرویز کیانی نے اپنے دورِ سالاری میں قومی اسمبلی جا کر عوامی نمائندوں سے مدد چاہی، جنرل راحیل شریف نے عوام کو براہ راست شامل کرنے کی کوشش کی اور موجودہ سپاہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ بار بار واضح کر چکے ہیں کہ قومی سلامتی ملکی جمہوری نظام کے تسلسل میں ہی پوشیدہ ہے۔ اس لیے پاک افواج اس نظام کی حفاظت کرتی رہیں گی۔ ہم نے یہ بھی جان لیا ہے کہ مستقبل کی جنگیں لڑنے کے لیے سب سے بڑا اسلحہ کسی بھی ملک کی اندرونی مضبوطی ہے۔ جتنا کوئی ملک معاشی طور پر مضبوط ہو گا اتنا ہی وہ فوجی طور پر بھی مضبوط ہو جائے گا اور مضبوط معیشت کے لیے مضبوط سیاسی نظام پہلی ضرورت ہے۔ اس تناظر میں یہ بات یقین سے کہی جا سکتی ہے کہ دفاع کو مضبوط بنانے کے لئے پہلی ضرورت رواں دواں سیاسی نظام ہے اور اس ضرورت کو پورا کرنے کے لیے پاک فوج نے خود کو سیاست سے دور رکھنے کا بنیادی فیصلہ کر لیا ہے۔ 
سیاستدانوں اور فوج کی طرح پاکستان کی عدلیہ کا تاریخی شعور بھی جنرل پرویز مشرف کے تباہ کن اندازِ حکمرانی سے ہی جاگا۔ جنرل مشرف چیف جسٹس افتخار چودھری کو بے تکے انداز میں معزول نہ کرتے تو شاید ہماری عدلیہ آج بھی طاقتوروں کے اشارہء ابرو پر فیصلے کر دیا کرتی۔ چیف جسٹس کی بحالی کی تحریک میں عوام کی شمولیت سے عدلیہ کو وہ اخلاقی ساکھ میسر آ گئی جس کی بنا پر وہ وزرائے اعظم کے خلاف فیصلے دینے سے بھی گریز نہیں کرتی۔ اعلیٰ عدلیہ میں یہ شعور جاگزیں ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے کہ پاکستان کو ترقی کے راستے پر ڈالنے میں اس کا کردار کلیدی نوعیت کا ہے۔ وہ ملک جہاں ماضی میں عمرانی معاہدہ تو کیا لین دین کے معاہدوں کا نفاذ بھی ممکن نہ تھا، آج عدلیہ کے طفیل اقوامِ عالم میں مسلسل مستحکم ہوتا ہوا ملک سمجھا جا رہا ہے۔ وہ ملک جہاں کچھ عرصہ پہلے تک لوگ لاپتہ ہو جاتے تھے اور کوئی پوچھنے والا نہیں تھا آج اس مقام پر ہے کہ اس میں ایک بھی سیاسی قیدی نہیں ہے۔ وہ حکومتیں جو عدلیہ کے احکامات کا ہوا میں اڑا دیا کرتی تھیں، آج اس کے ہر فیصلے پر عمل کرتی ہیں‘ کیونکہ انہیں عدلیہ کے پیچھے کھڑے عوام کی طاقت کا خوب اندازہ ہے۔
کسی بھی پیمانے پر پرکھ لیں ہمارے موجودہ سیاستدان، جرنیل اور جج ماضی کے سیاستدانوں، جرنیلوں اور ججوں کے مقابلے میں کہیں بہتر لوگ ہیں۔ البتہ تاریخی شعور، اپنے عہد کو سمجھنے کی لیاقت، خلوصِ نیت اور ملک کو اپنے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے آگے بڑھانے کی خواہش جیسی خصوصیات کے باوجود ایک ایسی کمی ہمارے نظام میں بدستور موجود ہے جو ان تمام خصوصیات پر حاوی نظر آتی ہے۔ اور وہ کمی ہے مکالمے کی۔ سیاستدانوں نے ملک کے بارے میں جو کچھ سوچ رکھا ہے، ہماری فوج اور عدلیہ اس سے لاعلم ہیں۔ ہماری فوج نے اپنے تجربات سے سیکھ کر جو نتائج اخذ کیے ہیں ان کے بارے میں سیاستدان اور عدلیہ کچھ نہیں جانتے اور عدلیہ نے دستور و قانون کی تشریح کا جو طریقہ اختیار کیا ہے اس کے بارے میں فوج اور سیاستدانوں کو کچھ پتا نہیں۔ ایک دوسرے سے مکالمہ نہ ہونے کے وجہ سے کبھی فوج کو عدلیہ سے شکایت پیدا ہوتی ہے، کبھی عدلیہ سیاستدانوں سے شاکی ہو جاتی ہے اور کبھی سیاستدان ان دونوں سے ناراض ہو جاتے ہی۔ یہ ناراضی اور لاعلمی مسائل کا باعث بنتی ہے۔ اگر ہم نے اپنی ریاست کو تباہی کی طرف جانے سے روکنا ہے اس کا فوری اور واحد حل مکالمہ ہے۔ وہی مکالمہ جس کی تجویز چیئرمین سینیٹ رضا ربانی دے رہے ہیں اور نواز شریف اس کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved