آج اگر اس کرّئہ ارض پہ ہر کہیں انسان ایک دوسرے کا خون بہا رہا ہے تو اس کی وجہ نفس کی عادات ہیں ۔ انسان کے اندر خواہشات کے مجموعے کو ''نفس ‘‘ کہا جاتاہے ۔ یہ ہم میں سے ہر ایک کے اندر پایا جاتا ہے ۔ یہ خواہشات ہی خواہشات رکھتا ہے ۔ اس کے اندر دنیا کی ہر بری عادت پائی جاتی ہے ۔ یہ کبھی بھی بڑی تصویر دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا بلکہ ایک انتہائی محدود بات پر فوراً اشتعال انگیز ردّعمل دیتا ہے ۔یہی نفس انسان کے انتہائی پیچیدہ روّیے کی بنیادی وجہ ہے ۔ اس نفس کو دنیا کے طاقتور ترین لوگ بھی کبھی سمجھ نہ سکے ۔ اگر سمجھ سکے توصرف وہ لوگ ، جن کی عقل خدا کی طرف سے ہدایت یافتہ تھی ۔ آخری زمانے کے لوگوں میں سے شیخ عبد القادر جیلانی ؒ ، امام غزالیؒ اور حضرت علی بن عثمان ہجویریؒ جیسے صوفیا نے اس کا جائزہ لیا۔ اس پر اپنی رائے دی۔ اس کے برعکس اگر آپ دنیا کے طاقتور ترین لوگوں ، مثلاً امریکی صدر یا دنیا کی سب سے طاقتور خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو بھی دیکھیں تو وہ بھی اس نفس کے ہاتھوں بری طرح ذلیل و خوار ہوتے ہیں ۔ ماں کی گود سے لے کر قبر تک ، یہ نفس انسان کے ساتھ رہتا ہے ۔ ایک سال کا بچہ جب دوسرے بچّے کے ہاتھ سے کھلونا چھینتا ہے تو یہی نفس اسے اس بات پر اکساتا ہے ۔ جب وہ بڑے ہوتے ہیں تو کھلونے کی جگہ گھر، گاڑی اور جائیداد لے لیتی ہے ۔ بنیادی محرکات وہی رہتے ہیں ۔
نفس کی ایک عادت یہ ہے اور جو کہ انسان کو بہت ذلیل و خوار کراتی ہے کہ وہ ہمیشہ دوسروں سے اپنے موازنے میں لگا رہتا ہے ۔ موازنے کے لیے ہمیشہ یہ اپنے سے اوپر کے لوگوں کا انتخاب کرتا ہے ، کبھی نیچے نہیں دیکھتا ۔ میں کبھی اپنے اس پڑوسی سے اپنا موازنہ نہیں کروں گا ، جو پیدل دفتر جاتا ہے بلکہ اسی سے ، جس کے پاس مجھ سے بہتر گاڑی ہے ۔ ایک عورت کبھی اپنی اس سہیلی سے موازنہ نہیں کرے گی ، جس کاشوہر دیہاڑی پر کام کرتا ہے بلکہ اسی سے جس کی تنخواہ بیس لاکھ روپے ماہانہ ہو ۔ اس کا علاج سیدھا اور سادا ہے اور ہمیں بتا دیا گیا ہے کہ (عقل کی مدد سے ) اپنا موازنہ اپنے سے نیچے کے لوگوں سے کرنا شروع کردو۔ وہ لوگ ، جن کے پاس تمہارے سے کم وسائل ہیں ، تم سے کمتر شکل و صورت ہے ، تم سے کمتر اولاد ہے ، تم سے کمتر سماجی رتبہ ہے ، تم سے کم صحت ہے ،ان سے اپنا موانہ کر تے ہوئے شکر ادا کرتے رہو۔
نفس کی چالیں انتہائی چالاکی سے ترتیب دی جاتی ہیں ۔ انسان کو خود بھی سمجھ نہیں آتی کہ وہ کیا کر رہا ہے اور کیوں کر رہا ہے ۔ کسی دوسرے کو تو خیر کیا سمجھ آئے گی ۔ یہ نفس اس قدر چالاک ہے کہ عاجزی کا اظہار کرتا ہوا، یہ تکبر اور غلبے کی راہ پر چلتا ہے ۔یہ کہے گا، ''اجی میں تو ان کے در کا کتّا ہوں ‘‘ ۔ یہ اپنے آپ کو برا بھلا کہے گا ۔ اس لیے کہ اسے صوفیا ئے کرام میں سے ایک سمجھ لیا جائے (حالانکہ ان کا طریق کچھ اور تھا ) ۔ پس منظر میں دوسرے لوگوں پر روحانی برتری کی خواہش چھپی ہوتی ہے ۔
نفس انتہائی حد تک متعصب ہوتا ہے ۔ اسے دلیل ، علم اور عقل سے کوئی تعلق نہیں بلکہ یہ تو ہمیشہ اپنے فائدے کے لیے نا انصافی کی بات کرتا ہے ۔ یہ تعصب پر فوراً لبیک کہتا ہے ۔ اگر تو میرا اور میرے بھائی کا معاملہ ہوگا تو لازماً میں خودکو ٹھیک اور بھائی کو غلط کہوں گا۔ اگر میرے بھائی اور میرے چچا زاد بھائی کی لڑائی ہوگی تو میں اپنے بھائی کا ساتھ دوں گا۔ اگر میرے چچا زادکی محلے میں کسی سے لڑائی ہوگی تو میں اپنے چچا زاد کا ساتھ دوں گا۔ اگر میرے محلے والے کی دوسرے محلے والے سے لڑائی ہوگی تو میں اپنے محلے والے کا ساتھ دوں گا۔میں پنجابی اور سندھی کی لڑائی میں پنجابی کا ساتھ دوں گا ۔ پاکستانی اور بھارتی کی لڑائی میں پاکستانی کا ساتھ دوں گا ۔ انسان اوراور ریچھ کی لڑائی میں انسان کا ساتھ دوں گا ۔تعصب پر انسانی ذہن یا دوسرے الفاظ میں یہ نفس فوراً لبیک کہتاہے ۔ صرف ایک نعرے کی ضرورت ہوتی ہے '' جاگ پنجابی جاگ، تیری پگ نو لگ گئی آگ ‘‘۔ بس یہ وحشیوں کی طرح مخالف پہ جھپٹ پڑتا ہے ۔ عقل بیچاری خوفزدہ ہو کر ایک کونے میں بیٹھ جاتی ہے ۔ انسان تباہی کے راستے پر بھاگتا چلا جاتا ہے ۔خدا نے اس معاملے میں یہ حکم دیا ہے '' کسی قوم کی دشمنی تمہیں نا انصافی پر آمادہ نہ کر دے ۔۔۔‘‘
نفس کو غلبے میں بہت لطف حاصل ہوتا ہے ۔ یہ چھوٹی چھوٹی فضول چیزوں میں بھی اپنے ساتھ کے لوگوں پر غلبہ پانے کی کوشش کرتاہے ۔ یہ اگلا پہیہ اٹھا کر موٹر سائیکل چلاتا ہے اور آہستہ سفر کرنے والوں پر طنز کرتا ہے ۔ یہ اس بات پر بھی فخر کا اظہار کرتا ہے کہ اسے غصہ بہت آتا ہے ۔ یہ کہتا ہے '' میرا غصہ بہت خطرناک ہے ‘‘یا '' میں غصے کا بہت برا ہوں ‘‘۔ غصہ ایک کمزوری ہے ، ایک بری عادت ہے ۔ کچھ لوگوں میں یہ دوسروں سے زیادہ ہوتا ہے ۔ ا س میں خیر کوئی ایسی بات نہیں ۔ ہو سکتاہے کہ ان میں کوئی خوبی بھی دوسروں سے زیادہ ہو لیکن ایک کمزوری اور برائی پر فخر کا اظہار ؟ خدا توان لوگوں کی ستائش کرتاہے جو غصہ پی جاتے ہیں ۔ '' والکاظمین الغیظ ‘‘ ۔ انسان عجیب عجیب چیزوں میں دوسروں پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے ۔ وہ سردیوں میں ٹھنڈے پانی سے نہا کر دکھاتا ہے کہ اسے دوسروں سے منفرد اور ان پر غالب سمجھا جائے ۔ یہ کہتا ہے کہ اگر میرے سامنے میرے والد سے کوئی بدتمیزی کرے تو میں اسے قتل کر دوں گا ۔ یہ بلند و بالا دعوے کرتا رہتا ہے ۔ پھر جب ایسا کوئی موقع پیش آتا ہے تو اسے اپنے بلند بانگ دعوے پورے کرنے کے لیے انتہائی اقدام اٹھانا پڑتا ہے ، جس میں سراسر اس کا نقصان چھپا ہوتا ہے ۔ اگر وہ اپنے دعووں کو پورا نہ کرے تو پھر اسے شرمندگی اٹھانا پڑتی ہے ۔
نفس احساسِ کمتری کا مارا ہوا ہوتاہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ علم سے تو کوئی واسطہ اسے ہوتا نہیں اور خود سے اسے شدید محبت ہوتی ہے ۔ اسے اپنے چھوٹے قدپر افسوس ہوتا ہے اور اپنے کالے رنگ پر ۔ ایک ناخن برابر نقص بھی اپنے اندر اسے گوارا نہیںہوتا لیکن خدا نے ہمیں پیدا ہی اس طرح کیا ہے کہ ہر ایک کے اندر کمی اور خامی ہے ۔ دوسروں سے اپنا موازنہ کرتے ہوئے، یہ بہت جلدی احساسِ کمتری کا شکار ہو جاتا ہے ۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا تھاکہ علم و عقل کے سوا ، اس سے نمٹنے کا کوئی راستہ نہیں ۔ عقل بھی وہ جو خدا سے ہدایت یافتہ ہو ۔ استاد تو یہ کہتے ہیں کہ اربوں سالوں کے تجربات کی بنیاد پر نفس اس قدر خوفناک قوت کا مالک ہے کہ خدا کا ہاتھ تھامے بغیر انسان اس سے جیت نہیں سکتا ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ انسان روزانہ کی بنیاد پر خدا سے مدد مانگتا رہے ۔یہ کہتا رہے کہ لا حول ولا قوۃ الا باللہ۔