تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     23-08-2017

چوہے دان

کسی گھر میں ایک چوہا رہتا تھا۔ گھر کے ایک کونے میں اُس نے خاصا محفوظ بل بنا رکھا تھا۔ رات کو باہر نکلتا، پیٹ بھرنے کے بعد بل میں واپس جاتا اور مزے سے دن بھر وہاں سو رہتا۔ زندگی مزے سے گزر رہی تھی۔ بس یہ سمجھ لیجیے کہ راوی چَین ہی چَین لکھتا تھا۔ مگر ایسا کب تک چل سکتا تھا؟ وہ کہانی ہی کیا جس میں ٹوئسٹ نہ ہو، ڈراما نہ ہو، ایموشنز نہ ہوں، ٹریجڈی نہ ہو! جب تک ولن نمودار نہ ہو، کہانی کا ہیرو اپنی ''ورتھ‘‘ ثابت کر ہی نہیں سکتا۔ 
جس گھر میں چوہا رہتا تھا اُس کے مالک نے ایک دن اُسے دیکھ لیا اور مارنے کی ٹھانی۔ دو تین بار کوشش بھی کی مگر بات نہ بنی۔ اُس گھر میں چوہے کے علاوہ کبوتر، مرغا اور بکرا بھی تھا۔ گھر کا مالک ایک کہیں سے چوہے دان خرید کر لایا۔ چوہے نے دیکھ لیا اور گھر کے باقی جانوروں کے پاس جاکر کہا کہ گھر میں چوہے دان آگیا ہے، اب اگر وہ پکڑا جائے تو اُس کی مدد کی جائے۔ کبوتر بولا ''میں تو اُڑ سکتا ہوں، مجھے بھلا چوہے دان سے کیا ڈر اور اس پورے معاملے سے کیا لینا دینا؟‘‘ مرغا بولا ''میں اِس گھر میں سکون سے پل رہا ہوں، ظاہر چوہے دان میرے لیے تو لایا نہیں گیا۔‘‘ اور بکرا ''بھائی لوگ‘‘ والی اکڑ اپنی آواز میں بھر کر بولا ''میں کیوں ڈروں، میں تو گھر بھر کا لاڈلا ہوں!‘‘ 
چوہا مایوس ہوگیا۔ وہ چاہتا تھا کہ بکرا اُس چوہے دان کو اپنے سینگوں میں پھنساکر گھر کے پچھواڑے گندی گلی میں پھینک دے۔ بکرے نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ دو دن تک چوہا ڈر کے مارے بل میں چھپا رہا۔ دو دن تک بھوکا رہنے سے اس کی حالت بُری ہوگئی۔ تیسری رات وہ ہمت کرکے بل سے باہر آیا۔ روٹی اور پنیر کی خوشبو اُس کے نتھنوں تک پہنچی تو وہ اُس پر جھپٹنے کے لیے بے تاب ہوگیا۔ روٹی کے ٹکڑے 
میں پنیر لگاکر اُسے چوہے دان میں لگایا گیا تھا۔ چوہے کو بھوک بھی بہت لگی تھی اور ڈر بھی بہت لگ رہا تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیا کرے۔ اُس نے اپنے ''بزرگوں‘‘ سے سنا تھا کہ احتیاط سے چلتے ہوئے چوہے دان میں جاکر روٹی اور پنیر کا ٹکڑا کھانے کے بعد محفوظ طریقے سے واپس بھی آیا جاسکتا ہے۔ بہت سے چوہے اس فن میں طاق پائے گئے ہیں۔ چوہے نے سوچا کوشش کرنے میں کیا ہرج ہے، سکون سے روٹی کا ٹکڑا کھاکر واپس آجاؤں گا۔ بھوک کے ہاتھوں اُس نے دل پر پتھر رکھا اور چوہے دان میں چلا گیا۔ دو دن کے بھوکے چوہے نے روٹی کا بڑا سا، پنیر لگا ٹکڑا دیکھا تو حواس اور جذبات پر قابو نہ رکھ پایا اور ہبڑ تبڑ کھانا شروع کردیا۔ آن کی آن میں کھٹکا دبا اور چوہے دان کا دروازہ بند ہوگیا۔ یعنی چوہے کا کھیل ختم۔ 
گھر کے مالک نے سوچا ایک چوہے کو تو ٹھکانے لگادیا، کیا پتا گھر میں اور بھی چوہے ہوں۔ اُس نے دوسرے دن بھی چوہے دان میں روٹی کا بڑا سا ٹکڑا پنیر پر لگاکر چوہے دان میں لگایا اور گھرکے دوسرے کونے میں رکھ دیا۔ 
رات کے پچھلے پہر چوہے دان کا دروازہ بند ہونے کی آواز آئی۔ گھر کے مالک کی بیوی نے جاکر دیکھا تو اندھیرے میں دُم دکھائی دی۔ وہ سمجھ گئی کہ ایک اور چوہا پھنس گیا ہے۔ میاں بیوی نے اُسی وقت چوہے کو مارنے کا فیصلہ کیا اور دُم پکڑ کر چوہے کو باہر نکالا۔ مگر ... وہ تو سانپ تھا! پلک جھپکتے میں سانپ نے گھر کے مالک کی بیوی کو ڈس لیا اور بھاگ نکلا۔ 
معالج کو بلایا گیا۔ اُس نے کہا کہ سانپ کے زہر کا اثر زائل کرنے کے لیے کبوتر کو ذبح کرکے اُس کا خون وہاں لگایا جائے جہاں سانپ نے ڈسا ہے۔ لیجیے، کبوتر کا بھی کھیل ختم۔ اگلے دن اطلاع ملنے پر رشتہ دار ملنے آئے۔ گھر کے مالک نے نوکر سے کہا کہ سب کے کھانے کا بندوبست کرے اور مرغے کو ذبح کردے۔ مرغا بھی گیا! دو تین بعد محترمہ کی حالت سنبھل گئی، زہر کا اثر خاصا زائل ہوگیا۔ کسی نے کہا جان بچ گئی ہے تو صدقہ دو۔ صدقے کی مد میں بکرا ذبح کردیا گیا! 
ہماری اجتماعی کہانی بھی تو یہی ہے۔ جب بھی کوئی مصیبت پھندا بن کر نازل ہوتی ہے تو ہم سمجھتے ہیں پتلی گردن والا پھنسے گا، ہمیں کیا! ایسے میں ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ ع 
چراغ سب کے بُجھیں گے، ہَوا کسی کی نہیں! 
معاشرہ جسم کے مانند ہوتا ہے۔ جسم میں جب کہیں کسی عضو کو پریشانی لاحق ہوتا ہے تو باقی جسم چَین کی بنسی نہیں بجا سکتا۔ اور اگر کوئی عضو شدید الجھن میں مبتلا ہو یا جان سے جاتا رہے تو باقی جسم کے دیگر اعضاء اور حصے یہ کہتے ہوئے سکون کا سانس نہیں لے سکتے کہ ہمیں کیا، ہم تو محفوظ ہیں۔ کشتی میں کسی بھی جگہ سُوراخ ہو جائے تو یہ سوچ کر اطمینان سے نہیں بیٹھا جاسکتا کہ باقی مقامات تو بے سُوراخ ہیں۔ مفاد پوری کشتی کا سوچنا پڑتا ہے، اُس کے کسی ایک کونے کا نہیں۔ 
وہی ریاستیں زندہ اور کامیاب رہتی ہیں جن کے اجتماعی مفاد کے بارے میں سوچا جاتا ہے۔ معاشرے یا ملک کے کسی ایک حصے کے بارے میں سوچنے کا صرف اور صرف تباہ کن نتیجہ ہی برآمد ہوسکتا ہے۔ جب باہر سے کوئی مصیبت چوہے دان کی طرح نازل ہو تو صرف چوہوں کو فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے۔ اس مصیبت کا بار سب پر پڑ سکتا ہے اور سبھی کو یہ بار اٹھانا بھی چاہیے۔ 
پاکستانی معاشرہ گوناگوں اندرونی اور بیرونی چوہے دانوں کا سامنا کرنے پر مجبور ہے۔ ایک طرف بیرونی بدخواہ ہیں جو ہمیں پچھاڑنے پر تُلے ہوئے ہیں اور دوسری طرف اندرونی ''مہربان‘‘ ہیں جو ہمیں گِرا ہوا پاکر اِس فراق میں رہتے ہیںکہ ہم اٹھ نہ سکیں۔ پورے معاشرے کا بھلا چاہنے والی سوچ خال خال دکھائی دیتی ہے۔ کوئی اجنبی بھی محسوس کرسکتا ہے کہ ہم شدید عدم توازن اور عدم اعتدال کا شکار ہیں۔ جسے جہاں موقع ملتا ہے، اپنی ڈفلی اپنا راگ کے اصول کے تحت صرف اپنی اور اپنے لوگوں کی بات کرتا ہے۔ گھر کے چوہے پریشان ہوں تو ہوں، کبوتروں، مرغوں اور بکروں کو بظاہر کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی۔ اور پھر وہ وقت بھی جلد آجاتا ہے جب سب کی گردنیں پھنس جاتی ہیں۔ کیوں نہ پھنسیں؟ جو کوئی بھی اِس ملک کا بُرا چاہتا ہے وہ چند افراد یا چند برادریوں یا چند قومیتوں کا بھلا ہرگز نہیں چاہ سکتا۔ کشتی ڈوبتی ہے تو اُس کے سبھی سوار ڈوبتے ہیں۔ کسی کو ''استثنائ‘‘ نہیں ملتا۔ ایک بار پھر یاد کیجیے۔ جب ہوا تیز چلتی ہے تو چند ایک چراغوں کے بجھنے پر باقی چراغوں کو سکون کا سانس نہیں لینا چاہیے۔ ہوا کی زد پر جو بھی آیا وہ چراغ بجھ ہی جائے گا۔ بات اتنی سی ہے کہ کوئی پہلے زد پر آتا ہے اور کوئی بعد میں۔ 
کیا اب بھی وقت نہیں آیا کہ انفرادی یا محدود پیمانے کے مفادات پر اجتماعی مفادات کو ترجیح دی جائے؟ کسی ایک کمرے یا حصے کا بھلا چاہنے کے بجائے پورے گھر کا بھلا چاہنے والی سوچ درکار ہے تاکہ دنیا کو اندازہ ہو کہ ہم صرف بڑھک کے لحاظ سے نہیں بلکہ اعمال کے اعتبار سے بھی ایک ہیں! وقت، دانش اور حمیت کا تقاضا ہے کہ جب بھی کوئی چوہے دان دکھائی دے تو اپنی گردن کے محفوظ رہنے پر اطمینان سے نہ بیٹھا جائے بلکہ چوہے دان سے چھٹکارے کا سوچا جائے۔

 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved