خیبر پختونخوا میں جب ڈینگی وائرس کے حملے کی خبریں میڈیا پر آنے لگیں تو مرکز اور پنجاب میں حکمران جماعت مسلم لیگ نون کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے موقع دیکھتے ہی عمران خان پر ''ڈینگی حملہ ‘‘کردیا۔سستی شہرت کے حصول کیلئے کے پی کے میں ڈینگی کے علاج میں مدد دینے کے نام پر پنجاب کے وزیر صحت کی قیا دت میں ڈاکٹروں اور تکنیکی عملے کو بریکنگ نیوز کے سائے میں پشاور بھجوا دیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ چند روز تک پنجاب حکومت یہ تاثر پھیلانے میں کامیاب رہی کہ کے پی کے کی حکومت کے پاس ڈینگی کے علاج کیلئے کسی قسم کی سہولت نہیں اور پورا صوبہ ڈینگی میں مبتلاہو کر بے یا ر ومدد گارہے ۔
قدرت کے کمال دیکھئے کہ جب میاں شہباز شریف اور اسلام آباد میں براجمان مسلم لیگ نون کا میڈیا سیل عمران خان پر تابڑ توڑ حملے کر رہا تھا‘ اس وقت لاہور کے ایک ہسپتال میں بھاٹی گیٹ کے عمران نامی شخص میں '' سوائن فلو‘‘ کے اثرات کی تصدیق ہو چکی تھی اور راولپنڈی سمیت صوبے کے مختلف حصوں سے بہت سے لوگوں کے خون کے نمونے اسلام آباد بھجوائے جا رہے تھے۔ پنجاب کے وزیر صحت خواجہ عمران کی نگرانی میں ڈینگی کی ٹیم جب امیر مقام کے ساتھ بیٹھ کر سیا سی ڈرامہ کر رہی تھی ‘ اسی وقت کوئٹہ میں‘ جہاں مسلم لیگ نون کی حکومت ہے ‘ تشویش ناک حالت میں ایسے مریضوں کو لایا جارہا تھا ،جن میں سے جناح ہسپتال میں داخل چار مریضوں میں کانگو وائرس کی تشخیص ہو چکی تھی ۔اﷲ ان سب کو صحت و تندرستی عطا فرمائے ۔
پختون روایتی طور پر بہت مہمان نواز ہوتاہے اس لیے گزشتہ دس دن سے کے پی کے حکومت کے خلاف پراپیگنڈے کو مستقل برداشت کرتا رہا‘ لیکن پختونوں کو اس بات کا بہت دکھ ہے کہ ایسے وقت میں جب یہ وائرس پشاور میں پھیلنا شروع ہوا تو اس پر سیا ست کرنے‘ خیبر پختونحوا کی حکومت کو نیچا دکھانے اور عمران خان کے خلاف پراپیگنڈا شروع کیا گیا ۔ وہ توکے پی کے اور ملک کے دوسرے حصوں میں ٹکڑوں میں بٹا ہوا تحریک انصاف کا میڈیا سیل پنجاب حکومت کے اس حملے کا بھر پور طریقے سے جواب نہ دے سکا لیکن ایبٹ آباد سے تعلق رکھنے والے اپنے دوست کالم نگار سردار فواد کلیم کی بات یہاں لکھنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب کے پی کے میں ڈینگی کے مریض ہسپتالوں میں آناشروع ہوئے تو خیبر پختونحوا کی حکومت کو دو محاذوں پر لڑنا پڑا ایک جانب ڈینگی کے خلاف تو دوسری جانب پنجاب سے آئے ہوئے سیا سی اور سستی شہرت کے متمنی ''حملہ آوروں‘‘ کے خلاف۔ان کا کہنا ہے کہ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ان دونوں میں سے کون زیا دہ خطرناک ہے؟۔
اﷲکو یقیناً انسانوں کی تکالیف کا مذاق اڑانا پسند نہیں اور خاص طور پر ایسے وقت میں اس قسم کی حرکات کو تو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ اس لیے جیسے ہی لاہور سے وزیر صحت خواجہ عمران نذیر کا قافلہ نوشہرہ کراس کرتے ہوئے پشاور کی جانب روانہ ہونے لگا تو پنجاب کے جنوبی علاقے راجن پور میں ڈاکوئوں کا ایک گروہ پنجاب پولیس کی ایک چوکی پر حملہ کرتے ہوئے پولیس کے سات جوانوں کو ان کے اسلحہ سمیت اغوا کر کے لے گیا ۔ اب اگر کے پی کے کی حکومت عمران خان کے کہنے پر اپنے صوبے کی پولیس کا ایک دستہ کسی ڈی آئی جی کی قیا دت میں یہ کہتے ہوئے پنجاب بھیج دیتی کہ آپ سے ڈاکوئوں کی سر کوبی ممکن نہیں‘ اس لئے ہم آپ کی مدد کیلئے آئے ہیں تو کیا اس بات کو برداشت کیا جاتا ؟ چند ماہ پہلے سب نے دیکھا کہ
چھوٹو گینگ نے ایک ایک کر کے پولیس افسران کو ان کی بیرکوں اور تھانوں سے اٹھانا شروع کر دیا تو عوام کی جان و مال کی حفاظت کیلئے پاکستان کی فوج کے افسروں اور جو انوں کو میدان میںآنا پڑا۔تو کیا یہ منا سب نہیں ہے کہ پہلے سب اپنا اپنا گھر ٹھیک کریں ۔ کسی کے گھر کی طرف انگلی وہ اٹھائے جس کا اپنا گھر صاف ہو۔ شیشے کے گھر میں بیٹھ کر دوسرے کے گھر میں پتھر پھینکنا کہاں کا انصاف ہے۔دوسروں کا احتساب کرنے سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکنا چاہیے وگرنہ دوسروں پر انگلی اٹھانے سے باز آ جانا چاہیے۔
سوال یہ ہے کہ کیا بلوچستان میں آپ کی حکومت نہیں ہے ؟کیا بلوچستان کا وزیر اعلیٰ سردار ثنا اﷲ زہری آپ کا سب سے با اعتماد مسلم لیگی نہیں ہے ؟ یقیناً ہے، تو سب سے پہلے آپ اپنی ٹیم کوئٹہ بھیجیں تاکہ کانگو جیسے جان لیوا وائرس کے شکار مریضوں کی جان بچائی جا سکے۔بلاول بھٹو صاحب جب مانسہرہ اور کاغان میں اپنی کمان تھامے عمران خان پر تیروں کی بارش کر رہے تھے تو بھول گئے کہ تھر میں اب تک ایک ہزار کے قریب بچے بھوک اور غذائی قلت کے باعث جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔بلاول بھٹو یہ بھی بھول گئے کہ سندھ میں گزشتہ ایک ماہ سے کانگووائرس تباہی پھیلا رہا ہے ۔بلاول کو یہ بھی یاد نہ رہا کہ کراچی کی ایک ایک سڑک اور چوراہا گندگی کے ڈھیر میں بدل چکا ہے ۔ امن عامہ کی صورتحال یہ ہے کہ کراچی اور سندھ میں سرشام گھر سے نکلنے والے ڈاکوئوں کے ہاتھوں لٹ رہے ہیں۔
خیبر پختونخوا حکومت میں یقینا بہت سی خامیاں ہیں‘ یہ ایک ایسا صوبہ ہے جس پر اپنی کار کردگی دکھانے کیلئے تحریک انصاف نے اپنی منزل کی پہلی سیڑھی کے طور پر قدم رکھا اور یہ کہنے میں بھی کوئی عار نہیں کہ اس میں اسے خاطر خواہ کامیابی ابھی تک حاصل نہیں ہو پائی‘ بہت سے لوگ اس کی وجہ یہ بتا رہے ہیں کہ ان کے پاس اہل اور قابل لوگوں کی ٹیم نہیں ۔تاہم ایسا نہیں ،ہوا یہ ہے کہ تحریک انصاف کے ٹکٹ پر منتخب ہونے والے لوگوں میں بہت بڑی اکثریت نوجوانوں کی تھی اور ہر رکن اسمبلی خود کو وزارت کا حق دار سمجھ رہا تھا جبکہ تین کے قریب ایسے لوگ ہیں جو خودد کو وزیر اعلیٰ دیکھنا چاہتے تھے لیکن ایسا نہ ہو سکا ...اب تحریک انصاف کے اندر لوگ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہیں ۔عمران خان کو شائد علم نہیں ہو سکا کہ ان کے گھر بنی گالہ کے باہر کے پی کے سے جو لوگ آکر مظاہرے یا دھرنے دیتے رہے ، ان میں اکثر ان کی اپنی ہی پارٹی کے لوگوں کی جانب سے بھجوائے گئے تھے تاکہ متعلقہ وزیر کو نیچا دکھایا جا سکے ۔
آج جب پنجاب حکومت کو ڈینگی کے پردے میں عمران خان کے خلاف سستی شہرت حاصل کرتے دیکھا تو رہا نہ گیا اور سب کے سامنے انکشاف کرنے جا رہا ہوں کہ پنجاب کے نہ جانے کتنے ہسپتالوں کی حالت بہتر بنانے کیلئے شوکت خانم کینسر ہسپتال کی ٹیم نے تکنیکی معاونت کی ‘لاہور میں سوشل سکیورٹی ہسپتالوں کے علا وہ اور بھی بہت سے ہسپتالوں کی حالت زار کو شوکت خانم نے گزشتہ تین سال میں درست کیا ہے...لیکن کبھی کسی نے عمران خان کی زبان سے اس سلسلے میں ایک بھی لفظ سنا ہے؟۔اگر پنجاب حکومت اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکاری ہے تو میں ان ہسپتالوں کی پوری فہرست سب کے سامنے لا سکتا ہوں جن کی حالت شوکت خانم ہسپتال کی معاونت سے سدھری ۔ یہاں بس یہی کہوں گا کہ جناب ذرا غور فرمائیں ... کتنا فرق ہے عمران خان اور آپ میں...!!